بابری مسجد تو دلوں میں زندہ رہے گی

کل من علیہافان یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ ہرشی کوفنالازمی ہے لیکن سخت صدمہ ،افسوس اور حسرت کی بات ہے کہ جب یہ فناناگہاں اور اس سے بڑھ کرالم یہ ہے کہ کسی حقیقتِ لابدی کوشمشیروسنان کے زورپرسفاکانہ طریقہ سے فناکے گھاٹ اتاردیاجائے۔بالیقین بابری مسجدکی شہادتِ کبری اسی الم کی ایک کربناک تصویر ہے کہ جسے فرضی بنیاداور دیومالائی اعتقادِغیرراسخ کے تحت 6دسمبر1992کوبزورِشمشیرشہیدکردیاگیااور بعدِ شہادت بآوازِبلندیہ اعلان کیا گیا کہ ہم نے غلامی کے آثارکومٹاڈالااگرایک بابری مسجدغلامی کی نشانی تھی تو یادرکھئے! تاج محل او رلال قلعہ ایک ایسی غلامی کی نشانی ہے جسے یہ اہرمن اور لات ومنات کے غلام بصدشوق اپنی گردنوں میں حمائل کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔

ظہیرالدین بابرنے جب رانگاسانگا(سنگرام)اور ابراہیم لودھی کوشکست دی تھی توخداکے حضور بطورِ تشکر اور عطاکردہ نعمت کے اظہارکیلئے اپنے سپہ سالارمیرباقی کوایک خوبصورت مسجد،دیدہ زیب سجدہ گاہ ِنیازمندتعمیرکرنے کاحکم دیاجس کی تعمیر1528-27کومکمل ہوئی لیکن ہندوقوم پرست بلکہ سخت گیرافرادکا ہمیشہ سے یہ موقف رہاہے کہ ظہیرالدین بابرکے سپہ سالارمیرباقی نے عمداًرام جنم بھومی پراس کی تعمیرکی ہے 1853میں واجدعلی شاہ کے عہدکے اودھ میں فرقہ وارانہ فسادہوانتیجتاًکئی ہزارجانوں کااتلاف ہواجس سے غیض وغضب اور جوشِ انتقام سے لبریز دم توڑتی ہوئی مغلیہ سلطنت کے آخر ی ایام میں ایک ایسے گروہ نے سرابھاراجسے نرموہی کے نام سے جاناجاتاہے یہ وہی جماعت ہے جس نے اولاًبابری مسجدکی تقدیس پرسوالیہ نشان لگایاتھااور اسے ظلماً غصب کردہ آراضی کہاتھانیزرام جنم بھومی کاتصوراسی فرقہ پرست گروہ نرموہی کادیاہواہے۔انگریزی دورِاقتدارمیں اس گروہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ اس ذیل میں کچھ بول سکے1857کی بغاوت کے بعدمسجدکی مقدس زمین کوشرک سے آلودہ کرنے کی کوشش کی اور ایک چبوترہ بنادیالیکن ان کے منصوبے خاک میں مل گئے ؛کیونکہ انگریزی حکا م کے سامنے ان کی ایک بھی نہ چلی1883میں اس چبوترہ میں مورتی نصب کردی گئی اور اس دوران عدلیہ میں اپیل بھی دائرکی جاتی رہی کہ بابری مسجدکی زمین اصلاًرام جنم بھومی ہے لیکن جب جب اپیل دائرکی جاتی ججوں کی ذریعہ خارج کردی جاتی اس سے غیض وغضب اور اندرونی خلش کی جو چنگاری پنپ رہی تھی وہ رفتہ رفتہ ایک شعلہ بن رہی تھی اور22دسمبر1949کی وہ منحوس گھڑی بھی آئی جب تمام احکامات اور سیکورٹی کی تعینات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے نصف شب میں مسجد کے صدردروازہ کا تالا توڑ کر وشوہندوپریشداور دیگریرقانی تنظیموں کے ارکان جے کارکے نعروں کے ساتھ اندرونِ مسجدگھس آئے اور جوپولس اہلکارسیکورٹی کے فرائض انجام دے رہے تھے وہ یاجاگ کر سورہے تھے یاپھرسوکرجاگ رہے تھے انھوں نے مناسب نہ سمجھاکہ کوئی اقدام کرے موجودہ وزیراعظم پنڈت نہرونے اس کی سخت مخالفت کی تھی اور اس وقت کے موجودہ یوپی کے وزیراعلی گووندولبھ پنت سے زجروتوبیخ بھی تھی اور سوال پوچھاکہ کس بنیادپربابری مسجدمیں مورتیاں رکھی گئی ہے؟اور سخت لفظوں میں فی الفو رمورتیاں ہٹالینے کاحکم دیاتھالیکن لکھنؤمیں مقیم گووندپنت نے اپنے نظریات او رنرموہی فلسفہ پرعمل کیا اوردوہر ی پالیسیاں اختیارکی اور فعلاًکارسیوکوں کے ساتھ مل کراس عمل میں برابرکے شریک رہے اورمسجدمیں پھر تالا لگا دیا گیا 1984میں وشوہندوپریشد اور دیگربھگواتنظیموں نے رام جنم بھومی کی ملک گیرتحریک چلائی جس کی قیادت لال کرشن اڈوانی نے کی اور ملک بھرمیں رتھ یاترانکال کرہندوقوم پرستی کے چنگاری کواپنی اشتعال انگیزتقاریر سے ایک شعلہ جواں بنادیانتیجتاًملک کے عوام بالخصوص ہندوافرادمیں ایک سخت قسم کی نفرت پیداہوگئی راجیوگاندھی نہروافکارپر ثابت قدمی کے بجائے پھسل گئے اورتالاکھولنے کی اجازت دے دی اس سے قبل صرف وہاں ہندوسالانہ اجتماع کی اجازت تھی بنابریں بابری مسجد کے ایک حصہ پرہندوؤں کامالکانہ حق حاصل ہوگیااور یہیں سے وہ چنگاری جس کولال کرشن اڈوانی نے اپنے ہندوتونظریہ کے تحت جلائی تھی،خس وخاشاکِ لاالہ کوخاکسترکرنے پرآمادہ ہوکررفتہ رفتہ شعلہ بن کراحاطہ بابری مسجد کوبھی اپنے آتشیں حصارمیں لے لیناچاہتی تھی ۔یہ مبنی برحقیقت ہے کہ بابری مسجدکی شہادت کی سازشیں دس سال قبل ہی تیارکرلی گئی تھیں جب اڈوانی نے جنوبی ہندمیں رتھ یاترانکال کرہندوتواور نرموہی افکارکی تبلیغ کی تھی اور کربناک 6دسمبر1992کی وہ گھڑی بھی آئی جب کلیان سنگھ کے حلف نامہ داخل کردینے کے بعدبھی کروڑوں لوگ جمع تھے اور یک بارگی نشانِ وحدانیت کوپل بھر میں زمیں بوس کردیادر اصل کلیان سنگھ کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ جھوٹاتھا؛بلکہ عوام اورمسلمانوں کوفریب دینے کیلئے حلف نامہ داخل کیاتھا۔وہ گنبدجوکل تک حی علی الصلاہ کی صدائے دل فریب کا گواہ اور مغلیہ فن تعمیرکاایک عظیم شاہکار تھاچندعقل وہوش کے یتیم،مکروہ چہروں اور بغض وعداوت سے بھرے ہوئے سینہ والوں کی ٹھوکروں پرتھا،وہ چھت جوکل تک مخلوقات کے صف بہ صف قیام ورکوع کی گواہ تھی اس پرہزاروں بھگوااچھل کودرہے تھے اورنعرہ مکروہ لگارہے تھے ،وہ زمین جوہمارے سجدوں سے معمورتھی اس کوپامال کیا جارہاتھااورجہاں ہمارے سجدہ ہائے نیازمندکے نشانات تھے اس کواپنی جوتیوں سے ٹھونک رہے تھے وہ اس طرح خوش ہورہے تھے گویاانھوں نے 500سال کی غلامی سے نجات حاصل کرچکے ہوں۔

بابری مسجد!تیری شہادت پہ ہمیں نازہے کہ توخودشہیدہوجانامناسب خیال کیا لیکن یہ نہ مناسب سمجھاکہ ابابیل کے لشکرکواپنے لیے بلالے ؛کیونکہ اگردفعتاً تیرے دشمن ہلاک ہوجاتے توبھلاوہ کیسے تڑپ تڑپ کرایڑیاں رگڑرگڑکرجہنم رسیدہوتے ہاں ہمیں غم اور حزن بایں معنی ہے کہ تیرے فرش تاعرش جنت تھی لیکن کروڑوں روسیاہ،حرماں نصیبوں نے اس کوجہنم زاربناکردم لیا،تیری خشت ِنگاراں جوکل جنت کا ایک لازوال حصہ تھی اس کو بتانِ دیرکی نجاستوں سے آلودہ کردیا گیااورتیری وہ روح پروراوربہارآفریں فضاجونعرہ تکبیراورحی علی الصلوہ وحی علی الفلاح کے نغمہ پرکیف ومستانہ کی مستیوں اوردلفریبیوں سے مست الست تھی اس کوجے جے کے شوروغل اورہنگامہ مردن کے زہر ِ ہلاہل سے بے کیف بنادیا۔مجھے فخر تو اس پر ہے کہ توشہیدہوکربھی عالمِ اسلام کے دلوں میں زندہ وپایندہ ہے ،تیری یادیں کبھی دل سے جدانہیں ہوتیں؛بلکہ ایک زندہ شاہکارِ اﷲ ھوہے مساجدومدارس اور خانقاہ نہ تومنہدم ہوتے ہیں اور نہ قدامت کارنگ ان پر غالب ہوتا ہے ؛ بلکہ ان کی یادیں دلِ مغموم کے غم وحزن کودورکرتی ہیں اورسامانِ سرورمہیاکرتی ہیں۔

بابری مسجد!ظہیرالدین بابر نے تیری تعمیر بطوراظہارِنعمت اور شکرانہ کے کی تھی اور میرباقی نے اپنی نگرانی میں اس لیے تجھ کوایرانی فن تعمیرسے آراستہ کیا تھاکہ توہزارہاہزار سال مسلم حکمرانی کی ایک تاریخ بتاؤ،اندرونِ مسجداور احاطہ میں اس لیے برسہابرس تک فرزندانِ توحید نے اپنی جبینِ نیازخم کرتے رہے کہ توخدا کے حضورگواہ ہولیکن دشمنِ دین اور تیرے دشمن کوتیراجاہ وجلال سانپ بن کر سینے پر لوٹتااور وہ حسدکی آگ میں جلتے رہتے ؛کیونکہ بزعمِ خویش تیری تعمیر ان کے خود ساختہ خداؤں کے مولدپرہوئی تھی ارو ایک ایسی جائے شرک کوہزارفٹ زیرِ زمین دبادیاگیاتھاکہ جس سے ’’اﷲ ھو‘‘کے بجائے نعرہ مردن کی آوازآتی تھی ہاں ہاں کیوں نہیں میرباقی نے فیض آبادمیں سنتِ ابراہیمی کوزندہ کیاتھااوراپنے آبامحمودغزنوی کے کارناموں کوبھی ایک بارپھر اسی ہندوستان میں تازہ کردیاتھا۔1857میں نرموہی جیساکہ اس کاذکرمیں نے قبل میں بھی کیا ہے ایک فرقہ کی شکل میں نمودارہواجب اس نے اپنے اہرمن اور لات ومنات کے مولد کیساتھ یہ حشر دیکھاتواسی دن سے کبھی رتھ یاترانکال کر تو کبھی اشتعال انگیزتقریرکرکے تیرے دشمن پیداکرنے لگے اور6دسمبرکا وہ المناک یومِ سیاہ بھی آیاجب کروڑوں کی شکل بھیڑیاصفت انسان اپنی دنیااور عاقبت بربادکرنے پرآمادہ ہوگئے ،تواس کی بھی گواہ ہے کہ جس جس نے تیرے سینہ کوچھلنی کیااور جن جن لوگوں نے کدال چلایاتھاوہ کس عبرتناک انجام کوپہنچے کوئی زمین میں دھنس گیا،کوئی اندھاہوگیا،کوئی لنگڑاہواتوکوئی پاگل ہوکراسی رام بن میں قہقہے لگاتاپھرتاہے ۔

بابری مسجد ! توشہیدنہیں ہوئی توہمارے دلوں میں ابدتک ایک عظیم شاہکاربن کرزندہ ہے ،تیری یادیں دلِ حزیں کوآرام پہنچاتی ہیں توکل بھی زندہ تھی اورآج بھی ظاہری اجسام سے آزادہوکرہمارے دلوں میں مسکن بناچکی ہے توتصورمیں ہے،توخیالوں میں ہے،توباتوں میں ہے ،تویادوں میں ہے ،توزورِ شمشیرمیں ہے اور تومیرے ہر نعرہ تکبیرمیں ہے!

بابری مسجد!حالیہ لوک سبھاانتخابات ہوئے اور تیرے دشمنوں نے تیری زمین پررام جنم بھومی مندرکی تعمیر کے نام پرووٹ مانگاتھااور عوام؛بلکہ نرموہی افکار کے پیروکاروں نے اسی نام پرووٹ دیاتھاکہ رام مندرکی تعمیرہوگی لیکن کیایہ تمام افسانے سچ ثابت ہوں گے؟مودی جیسااایک ایساشخص ملک کے اقتدارپرقابض ہوگیاہے جس پرپہلے ہی قتل وخون اور غارت گری کاداغ لگاہواہے کیاوہ شخص رام مندرکی تعمیرکرلے گا؟اب یہ خوف بھی مضبوط تر ہوتا جارہا ہے کہ دلی میں مودی بیٹھاہواہے اور اس کے چمچے متحرک ہیں جب اس کی جیت کی خبر آئی تھی توپوراملک بھگوارنگ میں رنگ گیاتھاہر طرف خوشی اورجشن کا ماحول تھااس امید پرکہ اب رام مندرکی تعمیر سے کوئی روک نہیں سکتا عدلیہ میں بھی رجوع کیاگیامگر وہی یرقان کے یرقانی مریض اوروہی شنکھ کے ایک ہی سوراخ کوئی فائدہ نہ ہوااگررام مندرکی تعمیر ہوتی ہے توکیا اس ملک کا کیا ہوگااور اس نام نہادعدالت کا کیا ہوگا۔نہ تورام مندرکی تعمیر ہوسکتی ہے اور نہ ہی اب کوئی ایساشخص پردہ نہاں سے عیاں ہوگاجورام مندر کی تعمیر کراسکے؛کیونکہ اس عمل سے براہِ راست نظریات پڑنہیں بلکہ مذہب اور شخصیات پرحملہ ہوگااور کوئی بھی اس کوبرداشت نہیں کرسکتایہ ایک ایسا لاینحل معمہ ہے جوشاید کبھی حل ہوموہن بھاگوت نے اپنے حالیہ بیان میں کہاہے کہ ’’ابھمنی(مودی)سات چکر کوپارکررہاہے اورہمیں یقین ہے کہ وہ بہ درستگی تمام پارکرلے گا‘‘آخریہ کیا ہے؟کیا مودی نے بھی 1984کی طرح خفیہ سازشیں تیارکررہاہے؟

6دسمبر جب تک میری یہ تحریر اخبارات میں شائع ہوگی، آچکی ہوگی اس صورت میں ہمیں کیا کرنا ہے اس ذیل میں اولاًملک کے استحکام اور اس کے مفادات کوپیش نظر رکھتے ہوئے پرامن طور سے احتجاج کریں اوراپنے حقوق کیلئے آوازبلندکریں؛کیونکہ اگر ہم نے آوازبھی بلندنہ کیا تویادرکھیں!اس ملک میں ہم مسلسل محروم کیے جاتے رہیں گے اورہم حاشیہ پر ہی رہ جائیں گے اگر بعض دانش ور احتجاج کوبھی براکہتے ہوں توہم ان سے یہ کہناچاہتے ہیں کہ کیا ہم اس قدرلاغرہوگئے ہیں اور ہماری ملت اس قدرنحیف ہوچکی ہے کہ آوازبلندکرنابھی ایک جرم ثابت ہو!یادرکھیے!ہم بزدلی کی چوڑیاں توڑچکے ہیں اور یہ عزم مصمم کرچکے ہیں کہ جب تک ہمارے تلف شدہ حقوق نہیں مل جاتے ہم خاموش نہیں رہ سکتے ؛کیونکہ ہندوستان میں اب حقوق کااتلاف عام ہوتا جارہاہے ۔
Iftikhar Rahmani
About the Author: Iftikhar Rahmani Read More Articles by Iftikhar Rahmani: 35 Articles with 23855 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.