قوع قیامت ۔۔۔۔سورہ نبا ء کی روشنی میں

حضور سرور عالم صلی اﷲعلیہ وسلم کی ویسے توہر بات اہل مکہ کے لیے حیرت انگیز تھی ۔وہ لوگ حضو ر صلی اﷲعلیہ وسلم کی باتیں سنتے اور حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کے اعمال کا مشاہدہ کرتے تو ان پر عجیب قسم کی سراسیمگی طاری ہوجاتی ۔سب سے زیادہ جس چیز نے ان کو پریشان کر رکھا تھا وہ نبی اکر م صلی اﷲعلیہ وسلم کا یہ ارشاد تھا کہ اس جہان رنگ وبو کے بعد ایک اور جہان بھی ہے ۔اس چند روزہ زندگی کے بعد ایک ایسی زندگی ہے جس کی انتہا نہیں قیامت کے دن انہیں اور انکے آباؤ اجداد کو قبروں سے نکال کر رب کائنات کے سامنے پیش کیا جائے گا اور وہا ں ان سے ان کے چھوٹے بڑے اعمال کا حساب لیا جائے گا ۔انکی عقل جس کی دقیقہ سنجی پر انہیں بڑا گھمنڈ تھا اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیا ر نہ تھی کہ ہزاروں ،صدیوں کی پہنائیوں میں ان کی مشت غبار کے بکھرے ہوئے درے کون جمع کرے گااور پھر ان میں روح کیسے پھونکی جائے گی ؟ وہ اس مسئلہ پر شب ور وز غور کرتے ،آپس میں بحث و تمحیص کرتے ،انکی مجلسوں میں اس موضوع پر گرماگرم مذا کرے ہوتے لیکن وہ کسی صورت میں وقوع قیامت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوتے کیونکہ اس طرح تو ان کی زندگی کا سارا نقشہ تلپٹ ہوکر رہ جاتا ۔اس معاشرہ میں انہیں لوٹ کھسوٹ کی جو آزادی میسر تھی ۔عیش و طرب کی محفلیں جن میں مدہوش اور بد مست جوانیاں ساری رات محو رقص رہاکرتیں، بادہ ارغوانی کے بلوریں جام مصروف گردش رہتے ۔جہاں کسی ضرورت مند کا استحصال مباح تھا ۔جہاں قرض خواہ اپنے مقروض سے من مانی شرح پر سود لیا کرتا تھا ۔اگر وہ روز حساب پر ایمان لاتے تو ان کی تمام لغویات سے دست کش ہوناپڑ تا ۔جس کے لیے وہ تیا ر نہ تھے ۔اس سنگ گرا ں کو ان کی راہ سے ہٹانے کے لئے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بڑے شاندار انداز میں اوربڑے زور داردلائل پیش کئے گے ہیں۔اس سورہئ مبارکہ میں بھی یہی موضوع زیر بحث لایا گیا۔پہلے تو دو ٹوک انداز میں یہ بتادیا کہ تمہارے انکار سے حقیقت نہیں بدل سکتی ۔قیامت ضرور برپا ہوگی تم خود اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کروگے اور اس کا اعتراف بھی کروگے لیکن اس وقت تمہارا قیامت پر ایمان لانا تمہیں جہنم سے بچا نہ سکے گا -

پھران کے اس اعتراض کا جواب دیا کہ ان کے منتشر ذروں کو کیسے جمع کیا جاسکے گا ۔بتایا کہ ان ذروں کو جمع کرنے والا وہ قادر مطلق اور حکیم و علیم خدا ہے ۔جس کی قدرت اور حکمت کے جلوے قدم قد م پر اس کی کبریائی کی گواہی دے رہے ہیں ۔جو ایسے محیر العقول کام سرانجام دے سکتاہے اسکے لیے تمہیں از سر نو زندہ کر نا قطعا مشکل نہیں ہے۔اسکے بعد قیامت برپاکرنے کی حکمت بتائی کہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ایک انسان ساری عمر لوگوں پر ظلم وستم کرے غریبوں کو لوٹتا رہے ۔داد عیش دیتارہے ،اپنے خالق کی نافرمانی کرتارہے اور دوسرا شخص ساری عمر بنی نوع انسان کی خدمت کرتارہے ،دکھیوں کی غمگساری ،محتاجوں کی امداد ،یتیموں اور بیواؤ ں کی سرپرستی کرتارہے ۔اپنے خالق کی اطاعت کرتارہے ان دوشخصوں کے عملوں میں اتنے سنگین تفاوت کے باوجود اس کا نتیجہ یکساں رہے ۔اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہوسکتی ہے ؟بتادیا کہ قیامت برپا کرنے میں حکمت الٰہی یہ ہے کہ بدکاروں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے گی اور نیکوں کاان کی نیکیوں کا اجر عظیم دیا جائے گا ۔

آخر میں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کردیا جس میں اکثر کفار مبتلا رہتے تھے ۔وہ کہتے اگر قیامت آبھی گئی تو اس روز بھی اللہ کی نعمتیں ہمیں ہی ملیں گی ،ہمیں جو عزت اور سرفرازی اس دنیا میں نصیب ہے قیامت کے دن بھی یہ ہمیں نصیب ہوگی ۔ہمارے جاںنثار خدام اور وفادار ملازم اس وقت ہمارے اردگرد حلقہ زن ہوںگے ۔اگر کسی فرشتہ نے ہماری طرف دست تعدی دراز کیا تو ہمارے درجنوں جواں سال اور بہادر بیٹے انکو مزا چکھا دیں گے اور یہ ہمارے بت جن کی ہم پرستش کرتے ہیں قیامت کے دن ہماری شفاعت کریں گے ۔اس لیے ہمیں دوزخ کا کوئی اندیشہ نہیں ۔ان کم نگاہوں کو بتادیا کہ اس قسم کی خام خیالیوں کو اپنے دل سے نکال دو ۔وہاں کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ دم مار سکے ۔شفاعت کےلئے وہی زبان کھولے گا جس کو رحمٰن ورحیم نے منصب شفاعت پر سرفراز کیا ہوگا ۔ تمہارے یہ بت اس روز خود دوزخ کا ایندھن ہونگے ،تمہاری نجات کا انہیں کب خیال ہوگا ؟آخر میں تنبیہ فرمادی کہ آج راہ حق اختیار کرلو ۔اس فرصت کو غنیمت جانو ،ورنہ قیامت کے روز تمہاری حالت اتنی ناگفتہ ہوگی کہ تم اپنی زندگی سے بے زار ہونگے اور بصد حسرت یہ کہہ رہے ہونگے ''یلیتنی کنت ترابا''
(کاش کہ میں مٹی ہوجاتا)
 
Muhammad Tanveer
About the Author: Muhammad Tanveer Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.