گورکھ ہل اسٹیشن

کراچی کے نظروں سے اوجھل قدرتی حسن سے مالامال ©”سندھ کا مری“
گورکھ ہل اسٹیشن

برفباری اور سندھ میں.... ؟ سننے والا شاید یقین نہ کرے مگر اس صوبہ سندھ میں ایک مقام ایسابھی ہے جہاں موسم سرما میں حقیقت میں برف باری ہوتی ہے، 2008ءمیں تو یہاں کی تمام پہاڑیاں ہی برف کی تہہ سے ڈھک گئی تھیں۔ یہ وادی مہران کا واحد بلند تفریحی اور پر فضا مقام ہے جہاں موسم سرما میں یہ درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے تک گر جاتا ہے یہ کیر تھر کے پہاڑی دامن میں سندھ بلوچستان کی سرحدی پٹی پر واقع ہے ۔سطح سمندر سے 5688 فٹ بلند ایک دلکش مقام ہے اور یہ کیرتھرکے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جس نے مغرب سے سندھ کی سرحد کو بلوچستان سے ملا رکھا ہے۔ یہ مقام ان افراد کو اپنی جانب کھینچتا ہے جو پہاڑوں، بلندو ہموار مقامات اور جانورا ور پودوں کو سراہتے ہوں۔

گزشتہ دنوں ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعدیہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ 8مختلف چھوٹی بڑی گاڑیوںپر مشتمل تقریباً 60افراد کے اس گروپ میں ملکی اور کچھ غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ایک بڑی تعداد پروفیشنل فوٹوگرافرز کی تھی۔ جسے حنیف بھٹی لیڈ کر رہے تھے۔”حنیف بھٹی“ 50 کی دہائی کا سفر طے کرنے کے باوجود حوصلہ ،شوق بالکل ایک نوجوان کے طرح بلکہ اس سے زیادہ ہے۔ایڈونچر کے شوقین ، پرعزم اور توانا، ہر وقت ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔کراچی سے صبح 9بجے روانہ ہونے کے بعد ہمارا اگلا پڑاﺅ تقریباً2بجے دادومیں تھا، یہاں ہمارے پہنچنے کی اطلاع”قلندر ہوٹل”میں شاید پہلے ہی کردی گئی تھی ہوٹل پہنچے تو انواع و اقسام کے کھانے میزوں پر سجے ہوئے تھے۔تازہ اور خوش ذائقہ کھانا اور اسپیشل چائے کے باعث لطف دوبالا ہوگیا۔ظہرانہ ، نماز اور چائے پانی سے فارغ ہوکردوبارہ عازم سفر ہوئے ،دادو سے گورکھ ہل کا فاصلہ تقریباً 94کلو میٹر ہے۔

واہی پانڈی کے مقام پر سب گاڑیاں رکی اور حنیف بھٹی نے بتایا کہ کیونکہ یہاں سے آگے گورکھ تک کا سفر کافی مشکل اور خطرناک ہے، صرف 4 بائی فور کی جیپ ہی اوپر جائی جاسکتی ہے لہٰذا یہاں سے آگے ہمارا سفر بھی جیپ پر ہوگا۔لہٰذا ہم سب اپنی اپنی گاڑیوں سے پوٹھوہار جیپ پر منتقل ہوئے ۔ ہمارے جیپ کاڈرائیور اشفاق گو کہ بلوچ تھا لیکن سندھی بھی روانی سے بولتا ہے۔ انتہائی ماہر اور منجھا ہواڈرائیور ہے ۔کئی خطرناک موڑ پر جب سانسیں رکنے لگتیں تو اس کی مہارت کو داد دینے کو جی چاہتا تھا۔یہاں سے دوگھنٹے پر محیط دشوار گزار اوربل کھاتے خطرناک کھائیوں کا سفر ہے جو گورکھ کی چوٹی تک آپ کو لے جاتا ہے۔یہ ناہموار سنگل روڈ آپ کو ایسے خشک موسمی برساتی چشموں کی جانب لے جائے گا جسے سندھی میں نائی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دونوں اطراف سیاہ چٹانیں واقع ہیں جن میں پہاڑی لوگوں چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں۔ مختلف اقسام کے پودے اور جھاڑیاں بھی اس راستے پر دیکھی جاسکتی ہیں۔جیسے جیسے آپ ہل اسٹیشن کے قریب پہنچتے ہیں ہر گزرتی پہاڑی آپ کو پہلے سے زیادہ لمبی لگتی ہے۔ ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک پوائنٹ موجود ہے جسے مقامی ڈرائیور پنجی تریح (سندھی زبان میں 35) کہتے ہیں کیونکہ یہ واہی پنڈی سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہاں فائبرگلاس کے شیڈز کے نیچے بینچوں کے پاس عام طور پر ڈرائیورز روک کر تازہ دم ہوتے ہیں اور اپنی گاڑیوں کو کو چیک کرتے ہیں کیونکہ اس پوائنٹ کے بعد سے بلندی کی جانب چکردار سفر شروع ہوجاتا ہے۔یہ خطرناک راستہ دیکھنے میں کسی بڑے سانپ کی طرح لگتا ہے جو پہاڑی کی طرف جارہا ہو۔ ڈھلوان شاہراہ پر ایسے متعدد خطرناک مقامات ہیں جہاں سے ایک منجھا ہوا ڈرائیور ہی گزر سکتا ہے۔یہاں تک کہ ماہر ڈرائیورز بھی ”خیوال لاک“ موڑ سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں کیونکہ یہاں سے اوپر جاتے ہوئے ٹریک پر چار خطرناک خم کھائے ہوئے موڑ ہیں، یہاں کوئی باقاعدہ شاہراہ نہیں تھی تو لوگ اکثر گاڑی سے اتر کر پیدل ہی اوپر روانہ ہوجاتے تھے اور گاڑی گزارنے کا خطرہ اکیلے ڈرائیور کو اٹھانا پڑتا تھا۔ایک بار جب آپ یہاںسے گزر جاتے ہیں اور بلند بڑھ جاتی ہے تو درجہ حرارت میں اچانک تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔کچے پکے اور بل کھاتے خطرناک راستوں سے ہوتے ہوئے بلا آخرہم غروب آفتاب سے کچھ قبل گورکھ ہل کی چوٹی پر پہنچ گئے۔یہاں پہنچ کر سیاح راستے کی دشواریاں بھول کر خوشگوار موسم بلد و بالا پہاڑ اور خطرناک کھائیوں کے سحرانگیز مناظر میں کھو جاتے ہیں۔یہاں پہنچ کر حقیقتاً آپ کو احساس ہوگا کہ واقعی یہ سندھ کا مری ہے ۔دستیاب معلومات کے مطابق گورکھ ہل اسٹیشن کو 1860 میں اس وقت کے انگریز سیاح جارج نے دریافت کیا تھا مقامی لوگوں کا کہنا ہے کے گورکھ ایک ہندوعورت گرکھ کا نام تھا جو بگڑ کر گورکھ بن گیا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گورکھ بلوچی زبان کا لفظ ہے جسکی معنی ٹھنڈا مقام ہے تاہم گورکھ ہل اسٹیشن کی ترقی و تعمیر کا منصوبہ پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو کی اہم ترجیحات میں شامل رہا تھا یہی سبب ہے کے محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور اقتدار1989 میں اس منصوبے کو شروع کیا تھا اور انکے ہی دوسرے دور حکومت میں گورکھ کی ترقی کے لئے عملی اقدامات کئے گئے۔

نو تعمیر ”گورکھ ریسٹورنٹ اینڈ سمر ہٹ“ میں گرم گرم چائے پی کر ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے کیلئے ہم پہاڑ کے ایک ٹیلے پر پہنچ گئے۔ پرہیبت اور مہیب بلند و بالا پہاڑ اور غروب ہوتا ہواسورج فطرت کی عظمتوں اور رفعتوں کی یاد دلاتے ہیں۔ یہاں کی سانس روک دینے اور سحر طاری کردینے والی خوبصورتی دنیا کے تمام غموں کو بھلانے کے لیے کافی ہے۔اندھیرا پھیلنے کے ساتھ ہی ہوا میں خنکی بڑھنی لگی تو ہم بھی سامنے پہاڑ کے دامن میںگیسٹ ہاﺅس میں اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے ۔ سامان رکھ کر غسل و غیرہ کرنے کے بعد تازہ دم ہوکر واپس نیچے ”ریسٹورنٹ پہنچے تو ایک بھرپور عشائیہ ہمارے انتظار میں تھا۔
کھانے کے بعد چائے کی محفل سجی تو جنگل میں منگل کا سماءنظر آنے لگا۔ چٹکلے نوک جھوک اور گروپ فوٹو کا دور چلا۔

اس دوران گورکھ ہل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے علی مرادجمالی سے بھی ملاقات ہوئی خوش اخلاق اور نفیس طبیعت کے مالک ہیں۔ گورکھ ڈیویلپمنٹ پروجیکٹ سے متعلق معلومات دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ریسٹورنٹ ٹک شاپ اور اس سے متصل پہاڑ کے ٹیلے میں 8روم کا گیسٹ ہاﺅس 3ماہ کے مختصر مدت میں تعمیر کی گئی ہے ، جبکہ ریسٹونٹ کے بلکل سامنے والی پہاڑ پر ایک فیملی ریسٹورنٹ کی تعمیر بھی زیر غور ہے ۔ حکومتی عہدیداران کے لیے ایک ہیلی پیڈ بھی بنایا جائے گا۔مقامی میڈیا میں کوریج کے باعث یہاں سیاحوں کی آمد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، رش کے باعث ویک اینڈ پرمقامی افراد کے داخلے پر پابندی کا بھی سوچ رہے ہیںتاکہ دور دراز سے آنے والے سیاح بھرپور طریقے سے محظوظ ہوسکے۔

ان سے اجازت لے کر ہم نے سامنے گورکھ کی چوٹی ’ بینظیر ویو پوائنٹ ‘کی جانب قدم بڑھا دیے، یہاں آپ جیپ پر بھی با آسانی پہنچ سکتے ہیں لیکن اگرآپ ایڈونچر اور ہائیکنگ کے شوقین ہیںتو پیدل جانے کالطف ہی الگ ہے ۔ سال کا ”سپر مُون “ اور چودھویں کا چاند ہونے کی وجہ سے آج کچھ زیادہ ہی روشنی تھی۔
گو کہ رات کا کھانا کھا کر ہم صرف چہل قدمی کی نیت سے یہاں آئے تھے ہمارا ارادہ تھا کہ رات کمروں میں سونے کے بعد صبح فجر کہ وقت یہاں آئیں گے لیکن یہاں پہنچ کراندازہ ہوا کہ کمروں میں سونا تو گویا ایسے ہی ہے ”جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے “ ....یہاں کا دلفریب منظر سانسیں روک دیتا ہے جبکہ ہر طرف موجود چھوٹی بڑی پہاڑی چوٹیاں اور ہل ٹاپ پر سرسبز میدان اور خطرناک کھائیوں کا نظارہ سحر سا طاری کردیتا ہے۔رات چڑھتے ہی سیاحوں کی مختصر خیمہ بستی آباد ہوجاتی ہے،ا ن خیموں سے نکلتی ہوئی رنگ برنگی روشنیاں اورکانوں میں رس گھولتے مدھرگیتو ں کی آواز ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور آسمان پہ تیرتے بادلوں نے ایک افسانوی سا ماحول بنارکھا تھاگورکھ ہل کے اس مقام کی خوبصورتی دیکھ کر تو ایک لمحے کے لیے آپ بھول ہی جاتے ہیں کہ آپ سندھ میں ہیںکیونکہ یہاں کا موسم میدانی علاقوں سے بالکل مختلف ہے،ان خوبصورت لمحات کو کیمرے میں محفوظ کرتے کرتے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا طلوع آفتاب سے کچھ قبل ہم گورکھ کے سب سے آخری پوائنٹ پر پہنچے سورج نکلنے میں شاید 30منٹ باقی تھے لہٰذا کمر سیدھی کرنے کیلئے فائبرگلاس کے شیڈز کے نیچے لوہے کی بینچ پر لیٹ گئے یہاں کافی ٹھنڈ محسوس ہوئی تو نیچے ٹائلوں پر لیٹنے کی کوشش کی ٹائلیں بھی ٹھنڈی تھیںبہر حال کانوں کو رومال سے اچھی طرح ڈھانپ کرلیٹ گئے، آنکھ لگے بمشکل 15منٹ ہوئے تھے کہ میرے ساتھ موجود سینئر فوٹو گرافر جنید بھائی اور نعمان لودھی نے ہمیں جگا دیا کہ سورج نکلنے ہی والاہے۔فوراً اُٹھ کر کیمرہ اور اسٹینڈ سنبھالا اور ”سن رائزنگ“ کے اس خوبصورت منظر کو محفوظ کرنے لگے، اس دوران پیچھے رہ جانے والے لوگ بھی پہنچ چکے تھے۔ رات چاند کی روشنی کے بعد صبح سورج کی روشنی میں گورکھ ہل کا حسن اور نکھر کر سامنے آرہا تھا۔شہری زندگی کی آلائشوںاور ہنگاموں سے دور اس بیاں بان میں پہنچ کر آپ محسوس کریں گے کہ یہ زندگی ہے۔یہاں جون ،جولائی کے مہینے میں بھی یہاں آپ جیکٹ پہننے پر مجبور ہوں گے۔گرمیوں میں جون، جولائی یہاں جانے کے لیے بہترین وقت ہے، جبکہ موسم سرما میں دسمبر اور جنوری بہترین مہینے ہیں، جب یہاں بہت زیادہ سردی ہوتی ہے، رات کو درجہ حرارت صفر سے نیچے جانے کے بعد پانی بھی جم جاتا ہے۔مقامی افراد ہم کو مشورہ دیتے ہیں کہ موسم سرما میں چوٹی تک نہیں جانا چاہئے یہاں تک کہ گورکھ کے مختلف حصوں میں مقیم قبائل بھی سردیوں کا وقت میدانوں میں گزارتے ہیں۔یہاں پہنچ کر اندا زہ ہوا کہ اگر حکومت بھرپور توجہ دے پانی اور سڑکوں کی تعمیر سے ہٹ کر ہل اسٹیشن کے لیے دیگر سہولتوں میں قدرتی گیس کی فراہمی، موبائل فون ٹاورز، ریسٹورنٹس، ہوٹلز اور چیئرلفٹ وغیرہ کی فراہمی پر غورکرے توگورکھ ایک کامیاب ہل اسٹیشن بن کر ہزاروں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ کر حکومت کے لیے آمدنی اور مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

گو کہ یہاں اب نوتعمیر ریسٹورنٹ آپ کی مہمان نوازی کیلئے موجود ہے لیکن آپ اپنے ساتھ ٹِن پیک خوراک بھی لے جاسکتے ہیں یا پہاڑی پر اپنا کھانا خود بھی پکا سکتے ہیں۔

گورکھ ہل کا سفر ایک یادگار تجربہ اور سنسنی خیز ایڈونچر ہے،اگر اپ ایڈونچر اور نئے جگہیں تلاشنے کے شوقین ہیں تو گورکھ ہل آپ کا منتظر ہے ۔
عبد الستار  کشف
About the Author: عبد الستار کشف Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.