گورنمنٹ کالج، ناظم آباد میں میری خدمات کے بارہ سال

یکم اکتوبر ۱۹۹۷ء کو میں حاجی عبداﷲ ہارون گورنمنٹ کالج میں ۲۷۳سال اور ۷ ماہ خدمات انجام دینے کے بعد گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد میں آیا۔ اس وقت کالج کے پرنسپل پروفیسر مظہر الحق تھے۔ حاجی عبد اﷲ ہارون کالجوں کی دنیا میں کالے پانی کی حیثیت رکھتا تھا۔ کالجوں کے منتظمین جس کو سزادینا چاہتے اس کو اس کالج میں بھیج دیا کرتے تھے۔ اگر متعلقہ شخص کی پرچی بھاری بھرکم ہوتی تو وہ یہاں سے کسی دوسرے کالج میں چلا جاتا ورنہ تمام عمر اسی کالج میں گزاردیتا۔ منتطمین تو سزا کے طور پر لوگوں کو یہاں بھیجا کرتے لیکن یہ تو سکون و آرام اور بے فکری کی دنیا تھی۔یہاں کے تمام ہی پرنسپل نیک اور ہمدرد تھے جس کے باعث لوگ یہاں اطمینان و سکون کے ساتھ یہاں وقت گزارا کرتے۔میری زندگی کی تعلیمی خدمات کا زیادہ عرصہ اسی کالج میں گزرا۔ پرنسپل کے ساتھ ساتھ جو اساتذہ یہاں رہے وہ بھی انتہائی نفیس انسان تھے۔ اس کالج میں اپنی خدمات کی کہانی کسی اور وقت تحریر کروں گا۔ یہاں گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد جہاں میری خدمات یکم اکتوبر ۱۹۷۷ء میں شروع ہوئیں اور ۲۵ مارچ ۲۰۰۹ء تک جاری رہیں یعنی ایک دیہائی سے ڈیر سال سے پر زیادہ پر محیط ہیں کا احاطہ مقصود ہے۔ یہ تحریر میں سیدمقصود علی کاظمی جو اِس وقت کالج کے میگزین’’روایت‘‘ کے مدیر اعلیٰ ہیں کی فرمائش پر تحریر کررہا ہوں۔ اس حیثیت سے یہ میرے جانشین بھی ہیں۔ جب مِیں اس کالج میں تھا تو یہی ذمہ داری اس وقت کے پرنسپل پروفیسر سید خورشید حیدر زیدی نے مجھے سونپی تھی اورمیں نے کالج کے دو میگزین چیف ایڈیر کی حیثیت سے مرتب کیے۔ اس کی تفصیل نیچے درج کروں گا۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ کراچی میں حاجی عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کالج سے ٹرانسفر انتہائی مشکل کام تھا ۔ میری رہائش لیاری سے پہلے دستگریر سوسائیٹی میں پھر نارتھ کراچی میں ہوچکی تھی میں مسلسل اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح نذدیک کے کالج میں ٹرانسفر ہوجائے ۔ ۱۹۹۰ میں مجھے ایک پرچی مل گئی اور میرا مکمل ٹرانسفر تو ممکن یہ ہوسکامگرڈیٹیلمنٹ پر گورنمنٹ کالج برائے سائنس و کامرس ، فیڈرل بی ایریا بلاک ۱۶ میں ٹرانسفر ہوگیا ۔ یہ عارضی تھا چنانچہ ایک سال بعدجوں ہی حکومت تبدیل ہوئی تمام ڈیٹیلمنٹ ختم کردئے گئے اور ہم لوٹ کے بدھو گھر کو آئے واپس حاجی عبداﷲ ہارون گورنمنٹ کالج پہنچ گئے۔ خدمت کا عمل جاری رہا ساتھ ہی ٹرانسفر کی کوشیشیں بھی۔ مَیں اساتذہ کی انجمن سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسو سی ایشن (SPLA) سے نہ صرف منسلک تھا بلکہ کچھ کچھ سرگرم بھی ر ہتا تھا ،میں کئی سال’ سپلا‘ کی الیکشن کمیٹی کا رکن رہا ۔ سید ریاض احسن مرحوم جو ’سپلا ‘کے کرتا دھرتا اور اساتذہ برادری کے فعال رہنما تھے سے میرے مراسم دوستانہ اور مشفقانہ تھے۔ اس کی ایک وجہ تو میرا سپلا کے الیکشن کمیشن کا رکن ہوناتھا دوسرا تعلق ریا ض احسن کی دو بہنو ں کا لائبریری پروفیشن سے وابستہ ہونا تھا۔ مَیں پہلے ہی سید ریاض احسن سے یہ بات کہہ چکا تھا کہ مَیں اب حاجی عبداﷲ ہارون گورنمنٹ کالج سے ٹرانسفر چاہتا ہوں۔ انہی دنوں گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے لائبریرین سمیع اﷲ کا انتقال ہوگیا اور گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد میں جگہ خالی ہوگئی اب میں نے کوشش کی کہ میرا اس کالج میں ٹرانسفر ہوجائے۔ ریاض احسن نے وعدہ کیاکہ میں آپ کا ٹرانسفر کرادوں گا آپ اس کالج کے پرنسپل جو کے قدرِ سخت مزاج انسان ہیں سے بات کر لیں کہ وہ آپ کو جوائن کرالیں گے۔ چنانچہ میں گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد آیا اور پروفیسر مظہر الحق صاحب سے ملاقات کی اور مدعا بیان کیا کہ میں یہ خواہش رکھتا ہوں ۔ کیا آپ مجھے جوائن کرالیں گے۔ اس سے قبل میرے دوست سید ناظر علی مظہر صاحب سے میرے بارے میں انہیں کچھ بتا چکے تھے۔ مظہر صاحب لیاری گونمنٹ کالج میں رہ چکے تھے ۔ انہوں نے یقین دھانی کرائی کہ وہ جوائن کرالیں گے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔

ستمبر ۱۹۹۷ء میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا میرے والد ۵ ستمبر کو اﷲ کو پیارے ہوگئے میں اس غم اور پریشانی میں مبتلا تھا۔ انہیں دنوں سید ریاض احسن نے میرے ٹرانسفر آڈر جاری کرا لیے۔ مجھے اس بات کو علم نہیں تھا اس کی وجہ اپنے ذاتی معاملات میں پریشانی تھی۔ اس دوران میرے ایک ہم پیشہ مستحسن کلیم شیروانی جو لیاری کالج میں لائبریرین تھے کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اپنا ٹرانسفر لیاری کالج سے گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد میں جاری کرائے اور خاموشی سے مظہر الحق صاحب کے پاس پہنچ گئے اورجوائن کرنے کے لیے کہا۔ مظہر صاحب مستحسن سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے مستحسن سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں صمدانی صاحب سے وعدہ کرچکا ہوں اس وجہ سے آپ کو جوائن نہیں کراسکتا۔ میرے یار نے بہت کوشش کی مظہر صاحب کو مختلف لوگوں سے کہلوایا بھی لیکن پروفیسر مظہر الحق واقعی زبان کے پکے اور بہ اصول انسان ہیں انہوں نے مستحسن کو کالج میں گھس نے نہیں دیا۔ وقت گزرتا گیا ایک دن سید ریاض احسن نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ کیاآپ نے ناظم آباد کالج جوائن کر لیا ۔ یہ بات میرے فرشتوں کے علم میں بھی نہیں تھی کہ میرے ٹرانسفر آڈر جاری ہوچکے ہیں ۔ میرا جواب جو ہونا چاہیے تھا وہی تھا کہ مجھے علم ہی نہیں کہ میرا ٹرانسفر ہوچکا ہے مَیں نے انہیں اپنے والد کے انتقال کے بارے میں بھی بتا یا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ٹرانسفر آڈر کئی دن قبل جاری کرادیے تھے اورسپلا کے اطہر مرزا کو دے دیے تھے۔ اطہر مرزا نے مجھے نہیں بتا یا اور وہ میرے ٹرانسفر آڈر اپنے پاس رکھے رہے ۔ نہیں معلوم کیوں؟ میں نے اولین فرصت میں اطہر مرزا سے رابطہ کیااور سید ریاض احسن کا پیغام پہنچایا، وہ فرمانے لگے کہ ہاں وہ آڈر میرے پاس ہیں آپ میرے گھر آکر لے جائیں میں اسی رات ان کے فیلٹ پر گیا اور آڈر وصول کیے۔ صبح ۴ اکتوبر کو پروفیسر مظہر الحق صاحب کے آفس پہنچا اور ٹرانسفر آڈر ان کی خدمات میں پیش کیے۔ انہوں نے ہی مجھے مستحسن کلیم شیروانی کی ان کے پاس آمد اور ٹرانسفر آڈ ر کی تفصیل سے مجھے کیا۔ اس طرح ۳ اکتوبر ۱۹۹۷ء کومیں نے حاجی عبداﷲ ہارون گورنمنٹ کالج کو ۲۳ سال ۷ماہ اور تین دن بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہا اور۴ اکتوبر ۱۹۹۷ء سے گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد میں اپنی خدمات کا آغاز کیا جو میری ریٹائر منٹ ۲۴ مارچ ۲۰۰۹ء تک جاری رہیں۔

حاجی عبدا ﷲ ہارون گورنمنٹ کالج میں ۲۳ برس گزانے کا تجربہ اور مختلف پرنسپل صاحبان سے معاملات طے کرنے کے طو ر طریقے مجھے اچھی طرح آچکے تھے۔ دوسری بات یہ کہ میں طبیعتاً صلاح جو ، نرم مزاج ۱ور ہر ایک سے اچھے تعلقات رکھنے کے فلسفے پر عمل پیرا رہا ہوں۔ اپنی اسی سوچ اور عمل کو میں یہاں بھی بروئے کار لایا۔ پرنسپل صاحب کے بارے میں بہت سی باتیں جن میں منفی زیادہ تھیں سن چکا تھا۔ لیکن میرا تجربہ بالکل مختلف رہا۔ مظہر صاحب محنتی، ایماندار، مخلص اور کالج کے معاملات کواحسن طریقے سے انجام دینے کی جدوجہد میں تھے۔ وہ کالج کے بعض اساتذہ کا ٹیوشن اور پریکٹیکل میں دلچسپی لینا پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ وہ از خود بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانی کاموں کے علاوہ ٹیبولیشن رجسٹر ہر وقت اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ یہ کوئی بری بات نہیں تھی۔ یہ کام سب اساتذہ ہی کیا کرتے تھے اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔ میں نے اپنے آپ کو مظہر صاحب سے اختلاف اور کسی بھی قسم کی کشیدگی سے دور رکھا۔میری ذمہ داریوں کے حوالے سے مظہر صاحب نے جو پہلی بات مجھ سے کہی وہ یہ تھی کہ لائبریری میں الماریوں کی اوٹ میں ایک گوشہ بنا ہوا ہے جہاں پر بعض دوست فارغ وقت میں بیٹھا کرتے ہیں۔ وہ کیا کرتے ہیں ؟ نہ تو میں نے ان سے معلوم کیا اور نہ ہی انہوں نے مجھے بتایا ۔صرف اس قدر کہا کہ اس سر گرمی کو لائبریری سے ختم کردیا جائے۔ میرے لیے یہ پرنسپل کا حکم تھا۔ میں نے رفتہ رفتہ اس گوشہ کو ختم کردیا ویسے بھی وہ اساتذہ جن کی اس جگہ بیٹھک تھی میرے ساتھ ان کے قریبی اور بے تکلفانہ تعلقات نہیں تھے۔ میں خود سامنے بیٹھا کرتا تمام لوگ اسی جگہ آکر بیٹھا کرتے۔ مظہر صاحب نے میرے ہر مشورہ کو جو میں نے لائبریری کی ترقی کے لیے دیا ہمیشہ اہمیت دی۔ جتنی رقم کتابوں کی خریداری کے لیے طلب کی انہوں نے وہ فوری دے دی۔ لائبریری سے منسلک ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو مجھ سے بہت پہلے اساتذہ امتحانی کاموں کے لیے استعمال کیا کرتے تھے میرے کہنے پر مظہر صاحب نے وہ کمرہ لائبریری میں شامل کرنے کی اجازت دی اور پھر یہ کمرہ میرا آفس بن گیا۔

پروفیسر محمد مظہر الحق گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کے چار سال اور چار ماہ (۲۷ اگست ۱۹۹۶ء ۔ ۳۰ دسمبر ۲۰۰۰ء) پرنسپل رہے،آپ کو کراچی کے اولین ایگزیکٹیو ڈ سٹرکٹ آفیسر (E.D.O)ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ کی تعلیمی خدمات ۴۶ سالوں پر محیط ہیں۔ آپ نے ۱۹۶۲ء میں لیکچرر کی حیثیت سے درس و تدریس کا آغاز کیا،گورنمنٹ کالج ’ژوب‘ بلوچستان، گورنمنٹ کالج ، کو ئٹہ، گورنمنٹ سائنس کالج، لیاری ، ڈی جے گورنمنٹ سا ئنس کالج کراچی کے وائس پرنسپل اور گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آبادمیں پرنسپل کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں، ۲۰۰۲ء میں بحیثیت ایگزیکٹیو ڈ سٹرکٹ آفیسر ریٹائر ہوئے۔پرنسپل کی حیثیت سے آپ نے کالج کی بہتری کے لیے کیا جو اقدامات کیے ان کے بارے میں آپ نے ایک انٹر ویو میں واضح کیا کہ ’’میں جب پرنسپل کی حیثیت سے اس کالج میں آیا تو اس وقت کراچی کے حالات ہر اعتبار سے بہتر نہیں تھے۔ یہ میرے لیے ایک چیلنج تھا کہ میں ایسے حالات میں اور پھر اس کالج کے خصو صی حالات میں تمام مسائل سے کیسے خوش اسلوبی سے نمٹوں۔کالجوں میں سب سے اہم اور گھمبیر مسئلہ داخلوں کا تھا ۔ اس وقت داخلوں کی سینٹرل پالیسی متعارف نہیں ہوئی تھی ، ہر کالج اپنے طور پر داخلہ دیا کرتا تھااور سارا پریشر پرنسپل پر ہوا کرتا تھا۔میں نے اولین فیصلہ یہ کیا کہ داخلے صرف میرٹ پرہوں اور اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے میں نے اپنے آپ کو پوری طرح تیار کرلیا، اس فیصلے پر عمل کے دوران میں کئی بار شدید دباؤ کی کیفیت سے بھی دوچار ہوالیکن میں کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لایااور اصولی طور پر داخلے اپنے دور میں ہمیشہ میرٹ کی بنیاد پر دیے۔میرے اس اقدام سے کالج کے تعلیمی ماحول پر خوشگوار اثرات مر تب ہوئے۔میری دوسری ترجیح یہ تھی کہ کالج میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھر پور توجہ دی جائے۔ اس دور میں ہم نصابی سرگرمیاں کراچی کے کالجوں میں مفقود ہوچکی تھیں بوجوہ کالج پرنسپل صاحبان سوائے بورڈ اور یونیورسٹی کے اسپورٹس میں حصہ لینے کے لیے طلبہ بھیجتے تھے۔کالج کی حدود میں کسی قسم کی ہم نصابی سرگرمی کا انعقاد ناممکن ہو چکا تھا۔ میں نے ایک عرصہ کے بعد اس سلسلے کو کامیابی سے جاری کیا اور پھر یہ سلسلے دیگر کالجوں میں بھی شروع ہو گئے۔ہم نصابی سرگرمیوں میں کھیل کے مقابلوں کے علاوہ حمد، نعت، تقریری مقابلے، بیت بازی، مقابلہ معلومات عامہ وغیرہ کے انعقاد پر خصو صی توجہ دی، بین الجماعتی مقابلوں کے علاوہ بین الکلیاتی مقابلوں کے انعقاد کو ممکن بنایا، مجھے یہ بتاتے ہوئے بڑا فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کالج کے طلبہ نے پورے ملک میں ہونے والے ہم نصابی مقابلوں میں بھر پور شرکت کی اور نمایاں مقام حاصل کیا ،کراچی کے مختلف کالج ہر سال اس بات کا انتظا ر کیاکرتے تھے کہ اس کالج میں سالانہ پروگرام منعقد ہوں،اس کالج کو اس حوالے سے ایک خاص مقام حاصل ہوا، کالج کے طلبہ نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے، اس دور کے بعض طلبہ اب ملک کی سطح پر معروف ہیں۔ امتحانات میں نقل کے رجحان پر قابو پانے کے اقدامات کیے، امتحانی سینٹر پر سخت نگرانی کی، اساتذہ کو بھی پابند کیا کہ وہ بھی کالج میں جب بھی امتحانی سینٹر قائم ہو اپنے اس قومی فرض کو ایماندری سے انجام دیں اور ایسا ہوا، میرے دور میں یہ کالج کراچی بھر میں مشہور ہو گیا تھا کہ یہاں امتحان کے دوران بہت سختی ہوتی ہے۔ ایک اور قد م یہ بھی اس حوالہ سے کیا کہ کالج میں ہونے والے عملی امتحانات میں جو بے قاعدگیاں تھیں انہیں دور کرنے کی پوری کوشش کی، عملی امتحان کا پروگرام واضح الفاط میں اور نمایاں جگہ لگانے کو یقینی بنا یاتاکہ طلبہ کو بر وقت یہ معلوم ہوسکے کہ انہیں کس دن امتحان دینے آنا ہے۔طلبہ سے براہِ راست مخاطب ہوا کرتا تھا ،تمام کلاسیں مقررہ وقت پر ہوں اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی۔کالج لائبریری عرصہ دراز سے ایک چھوٹے سے ہال میں چلی آرہی تھی، میرے دور میں لائبریری کے لیے مزید ایک کمرے کا اضافہ ہوا جس کے باعث طلبہ کو ریڈنگ روم کی سہولت میسر آئی، میں نے کتب کی خریداری پر کبھی قدغن نہیں لگائی ، میری طرف سے پوری آزادی تھی کہ جس قدر لائبریری بجٹ موجود ہے کتا بیں خریدی جائیں اور ایسا ہوا کہ ہزاروں روپے کی کتابیں خریدی گئیں۔یہ وہ بڑے بڑے اقدامات تھے جو میں نے اس کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ اس کالج کی بہتری کے لیے ، اس کالج کی ترقی کے لیے جو بھی ممکن ہو کروں‘۔مجھے مظہر صاحاحب کی ان باتوں میں سچائی اور کالج کے لیے کچھ بہتر کر گزنے کی امنگ نظر آئی۔

پروفیسر مظہر الحق صاحب نے اپنے جانشین کے طور پر پروفیسر خورشید حیدر زیدی صاحب کا انتخاب کیا۔ اپنے جانشین کے لیے مظہرالحق صاحب کا کہنا تھا کہ ’ میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنے جانشین کا انتخاب بالکل درست کیا۔ خورشید زیدی صاحب نے کالج کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور آ ج اگر کراچی میں گورنمنٹ کالج ، ناظم آباد اچھے معیاری کالجوں میں شمار کیا جاتا ہے تو اس میں یقینا خورشید
زیدی صاحب کااہم اور گرانقدر حصہ ہے‘۔ پروفیسر محمود احمدکا کہنا تھا کہ خورشید صاحب کے دور میں کالج نے ایک نیا جنم لیا ، کالج کی پرانی عمارت جسے پچاس سال ہوچکے تھے انہی کی کوششوں سے اس کی از سرِ نو تعمیر نہ صرف شروع ہوئی بلکہ اس کے دو حصے مکمل ہوئے ‘۔ پروفیسر ہمایوں اقبال نے اپنے ایک مضمون میں خورشید صاحب کے حوالے سے کہا کہ ’کالج کی موجودہ ترقی آپ ہی کی مرہون منت ہے، شعبہ حیوانیات کا میوزیم کراچی کے کالجوں میں خوبصورت اور کلیکشن کے اعتبار سے پر کشش ہے جس کا سہرا پروفیسر خورشید کو جاتا ہے‘۔ اسی طرح کالج کی پچاس سالہ لائبریری جو ایک قدیم اور پرانے ہال میں تھی خورشید صاحب کی علم دوستی اور کتاب سے محبت کے باعث نیا جنم لے سکی اوراسے ایک جدید لائبریری ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

خورشید صاحب کا وطن مرادآباد ہے ، پاکستان میں ہجرت کرکے ان کے خاندان نے سندھ کے شہر خیر پور کو اپنا مسکن بنایا۔ تعلیم اسی شہر میں حاصل کی ، جامعہ سندھ سے ماسٹرز کیا ۱۹۷۰ء میں لیکچرر کی حیثیت سے تدریس کا آغاز کیا خیر پور کے بعد کراچی تبادلہ ہوا ۔ ۲۰۰۰ء میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے پرنسپل ہوئے اور اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ وہ متحرک اور بے باک انسان ہیں ، ڈر و خوف ان کے پاس سے بھی نہیں گزرا، جیسے بھی حالات ہوں ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی پرنسپل شپ کا زمانہ کراچی میں سیاسی ہلچل کا تھا سیاسی جماعتوں کی زیر اثر طلباء تنظیمیں آپس میں مردِ مقابل تھیں ۔ ان سب سے نبرد آزماں ہونا معمولی بات نہ تھی۔ خورشید صاحب نے عقل و دانش سے کام لیتے ہوئے کالج کے معاملات کو خوش اسلوبی سے رواں دواں رکھا۔ یہ ان کی علمی و سیاسی بصیرت تھی۔خورشید صاحب مجلسی آدمی ہیں ۔ محفل سجانے اور محفل میں چھائے رہنے کے گر خوب جانتے ہیں۔ ان کی محفل میں موجودگی کسی کو بور ہونے نہیں دیتی۔ان اس خصوصیت
کے لیے الطاف حسین حالی ؔ کا یہ شعر ہی کافی ہے ؂
بہت لگتا ہے دل صحبت میں اُ س کی
وہ اپنی ذات سے اِک انجمن ہے

خورشید صاحب کی پرنسپل شپ میں مجھے لائبریری کی ترقی کے ساتھ ساتھ کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں میں بہت زیادہ مصروف عمل رہنے کا موقع ملا۔نہیں معلوم زیدی صاحب کو مجھ میں کیا خوبی نظر آئی اور میں نے بھی انہیں اپنا ہم مزاج محسوس کیا کہ انہوں نے مجھ جیسے شخص کو متعدد قسم کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔ لائبریری کے لیے خورشید صاحب نے میرے مشورہ پر کالج کی نئی بلڈنگ میں ایک وسیع ہال تعمیر کرانے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنایا۔کالج کی پچاس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ لائبریری کے لیے ایک وسیع ہال تعمیر ہوسکا۔ لائبریری کے علاوہ خورشید صاحب نے مجھے طلباء کی ہم نصابی سرگرمیوں کی نگرانی بھی سونپ دی۔ حالانکہ مجھ سے قبل یہ ذمہ داری کئی سالوں سے کالج کے سینئر اور معروف استادپروفیسر ربانی خان صاحب انجام دے رہے تھے۔ کہاں ربانی خان صاحب اور کہاں میں ۔ کیا ہوسکتا تھا۔ پرنسپل کا حکم اور خواہش۔ میں نے جو حکمت عملی اختیار کی اور خورشید صاحب نے سمجھتے بوجتے ہوئے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ یعنی میں نے ربانی خان صاحب کو ہر کام میں اپنا شریک رکھا۔ ربانی خاں صاحب بھی سمجھتے تھے انہوں نے بھی حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے میری ہر طرح سے معاونت کی اور میرے تمام کاموں میں شریک کار رہے۔ مجمع چھوٹا ہو یابڑا مجھے اس سے خطاب کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی یعنی میں تقریر کے فن سے واقف تھا۔ شاہد میری یہی خوبی خورشید صاحب نے پسند کی اور مجھے طلباء کی ہم نصابی سرگرمیویوں کا پروفیسر انچارج بنا دیا اور میں نے یہ ذمہ داری اپنے طور پر احسن طریقے سے انجام دی۔ اس حوالے سے بے شمار پروگرام منعقد ہوئے جن میں وزیروں ، سیکریٹری تعلیم، ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹراور بے شمار سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ان پروگراموں میں کالج کے تمام ہی اساتذہ ساتھیوں نے بھی بھر پور تعاون کیا۔

ایک اور ذمہ داری جو مجھے خورشید صاحب نے سونپی وہ کالج میگزین ’’روایت‘‘ کا چیف ایڈیٹر ہونا تھا۔ یہ ذمہ داری میرے لیے ایک بڑا چیلنج تھی۔ مجھ سے قبل یہ ذمہ داری کالج کے سینئر پروفیسران جن کا ادب میں قابل ذکر مقام ہے ادا کرچکے تھے ان میں ڈاکٹراسلم فرخی، پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام، پروفیسر مسیح الدین احمد صدیقی،پروفیسرایس ایم لطیف اﷲ، پروفیسر سراج الدین قاضی، ڈاکٹر حسن محمد خان شامل تھے۔ اب یہ کام مجھے کرنا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کہ کسی کام کو انجام دینے کی سچی لگن ہو، جذبہ صادق ہو، خلوص اور اخلاص کی چاشنی شامل حال ہو تو مشکل سے مشکل کام خوش اسلوبی سے پائے تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ یہی جذبہ کالج کے مجلہ ۲۰۰۴ء اور بعد میں مجلہ ۲۰۰۸ء جو کالج کا گولڈن
جوبلی نمبر بھی تھا میں شامل تھا جس کے باعث ہی میں اس مقصد میں کامیاب ہوا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؂
کام کچھ مشکل نہیں عزم مصمم چاہئے
پھول صحراؤں میں بے شک کھلا سکتے ہیں آپ

کالج کی پچاس سالہ تاریخ کو جمع کرنا ایک مشکل اور تحقیق طلب کام تھا۔ کالج کے پرنسپل پروفیسر سید خورشید حیدر زیدی کی حوصلہ افزائی و رہنمائی نے حوصلہ مند رکھا ، کالج کے ساتھیوں نے جو مجلہ کی تدوین میں میرے شریک سفر تھے بھر پور ساتھ دیا اور ہم نے یہ خصوصی شمارہ
مکمل آب و تاب سے شائع کیا۔ کہتے ہیں ؂
عزائم جن کے اونچے اور اونچا بخت ہوتا ہے
زمانے میں انہی کا ا متحان سخت ہوتا ہے

مجلہ’ روایت ‘کے گولڈن جوبلی نمبر سے قبل مجلہ برائے سال ۲۰۰۴ء بھی میری ادارت میں شائع ہوچکا تھا۔ اس مجلہ کے حوالے سے اچھی باتیں تو بہت سی ہیں ایک دلچسپ بات یہاں شامل کرنا مناسب لگ رہا ہے میرے پروفیسر انچارج ہم نصابی سرگرمیاں ، چیف ایڈیٹر مجلہ روایت اور کا لج مینجمنٹ کمیٹی جو دراصل طلباء کے والدین اور اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہے کا سیکریٹری مقرر ہونا اور کالج کے مختلف انتظامی امور میں پیش پیش ہونا بعض کرم فرماؤں کی نظر میں تیر بن گیا ۔ بظاہر اس کا اظہار بھی مشکل تھا۔ جب یہ میگزین شائع ہوا تو اور تو کچھ نظر نہ آیا میگزین کے سرِورق پر پاکستان کا نقشہ بیک گراؤنڈ میں چھاپا گیا تھاجس کے اوپر کا حصہ میگزین کے پشتہ اور اور اس کے گہرے نیلے رنگ میں چھپ گیا تھا۔ اسی جگہ پر کشمیرہے بس جناب اب کیا تھا۔ اس مسئلہ کو موضوع بنایا گیا ۔کرم فرماؤں نے ایک اخبار میں خبر لگوادی کہ گورنمنٹ کالج کے مجلہ سے کشمیر غائب۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے اورکیسے ہوسکتا تھا کہ کسی بھی کالج کے اساتذہ اس قسم کی سوچ بھی رکھتے ہوں۔ فوری طور پر تو میری پریشانی جائز تھی لیکن خوشید صاحب نے مجھ سے اس بابت کسی بھی قسم کی وضاحت یا باز پرس بھی نہیں کی اور اخبار کے ایڈیٹر کو فون کرکے اس کی طبیعت صاف کردی۔

میں کالج میں قائم اساتذہ و والدین کی انجمن جو کالج مینجمنٹ کہلاتی تھی کا فائیناس سیکریٹر بھی مقرر کردیا گیا۔ اس حیثیت سے کئی سال اس انجمن کے اجلاسوں کی کاروائی کو احسن طریقے سے چلاتا رہا۔ جس کی تفصیل مجلہ روایت بھی میں تفصیل سے موجود ہے۔کالج کی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے مشاعر ہ کا اہتمام تھا۔ مشاعرہ کا انعقاد پروفیسر خو رشید کا شوق تھا جسے ہم سب نے مل کر پائے تکمیل کو پہنچا یا۔ مشاعرے کے لیے بے پناہ جدوجہدکی گئی۔ شہر کراچی کے چیدہ چیدہ شاعروں کو مدعوں کیا گیاتھا یہ ایک کامیاب مشاعرہ تھا جس کا چرچا بہت عرصہ تک رہا۔صدارت پروفیسر سحر انصاری صاحب نے کی ۔مشاعرہ کا حال اردو کے ادیب سرور جاوید نے روزنامہ جنگ کی اشاعت یکم مئی ۲۰۰۶ء ’متاع نظر‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ کالم کا ذیلی عنوان تھا ’’گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے جشن طلائی پر مشاعرہ‘‘ تھا۔ سحر انصاری صاحب نے اس موقع پر کہا کہ ـ’کسی درس گاہ کے جشن طلائی کی تقریبات ہمیشہ خوش آیند ہوتی ہیں۔ کالج کے پرنسپل پروفیسر خورشید حیدر زیدی اس اہتمام کے لیے قابل مبارک باد ہیں۔ یہ اس کالج کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے بہت سے نام ور لوگ پیدا کیے ہیں۔ جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نام پیدا کیا ہے‘۔ یہ مشاعرہ شہر میں بہت مشہور ہوا اور کافی عرصہ تک اس کا چرچا رہا۔ اس کالج کے سابق طلبہ میں خودپروفیسر سحر انصاری صاحب بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ جماعت اسلامی کے سید منور حسن، پروفیسر عبدالماجد شیخ، سید قاسم جلالی، پروفیسر انیس زیدی، حسن فیروز، احمد دارا، سید مسرور احسن، ڈاکٹر ایثار احمد ابن صفی، پروفیسر ضیاء الرحمٰن ضیاء، ناظم الدین، کرنل شاہ علی، شعیب احمد بخاری، سید فیصل علی سبزواری، پروفیسر ضرار خان ، نیر سوز اور دیگر شامل ہیں۔

گور نمنٹ کالج برائے طلباء ناظم میں میری بارہ سالہ خدمات میں پروفیسر خورشیدحیدر زیدی کا مجھ پربھر پور اعتماد اوربھروسہ تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اگر کالج کی بہتری کے لیے کچھ کیا ہے تو وہ پروفیسر خورشیدحیدر زیدی کا ہی مرحون منت ہے۔ انہوں نے مجھے اس لائق سمجھا مجھے نہیں معلوم کہ میں ان کے اعتماد پر پورا اترا یا نہیں ۔ لیکن میں نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ مجھ میں جس قدر بھی صلاحیت ہے اسے کالج کے کاموں میں لگا دوں۔ میں خاموش طبع اور دھیما انسان ضرور ہوں لیکن جہاں بھی رہا اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کی کوشش کی۔میں خاموشی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرنے کا قائل ہوں ۔ اپنی ۶۶ سالہ زندگی میں کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔پڑھنا ، پڑھانا اور لکھنا میری زندگی کا سب سے اہم مقصد رہا ہے اور میں آج بھی اس پرعمل پیرا ہوں۔ لکھنے کی بات کے حوالے سے یہاں صرف اس قدر کہنا چاہوں گا کہ میری طبع شدہ تصانیف و تالیفات کی تعداد ۳۲ ہوچکی ہے، کچھ کتابیں پاکستان کے تقریباً تمام ہی تعلیمی بورڈوں اور کچھ جامعات میں بی اے کے نصاب میں شامل ہیں۔ ۳۰۰ سے زیادہ مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ اردو کی ایک معروف ویب سائٹ ’’ہماری ویب‘‘ پر میرے آن لائن مضامین کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ ہوچکی ہیں۔گور نمنٹ کالج برائے طلباء ناظم سے قبل مَیں حاجی عبداﷲ ہارون گورنمنٹ کالج میں ۲۳ سال رہا وہاں بھی اپنے شعبہ کے علاوہ کالج کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔ اس کا ذکر اس کالج کے حوالے سے کبھی کسی اور موقع پر کروں گا۔

لائبریری کے لیے وسیع ہال کالج کی نئی تعمیر ہونے والی عمارت میں مختص کر دیا گیا۔ یہ اعزاز بلاشبہ پروفیسر سید خورشید حیدر زیدی کو ہی جاتا ہے ان کی عملی کوشش سے ہی یہ ممکن ہوسکا۔ لائبریری کی نئے ہال میں منتقلی خورشید صاحب کی موجودگی میں شروع ہوچکی تھی۔ لیکن اس کا باقاعدہ افتتاح اس وقت ہوا جب خورشید صاحب ریٹائرہو چکے تھے اور ان کی جگہ پروفیسر محمد ضرار خان صاحب کالج کے پرنسپل مقرر ہوگئے تھے پروفیسر ضرار صاحب بھی علم پرور اور کتاب دوست انسان ہیں اور ساتھ ہی مجھ پر مہربان بھی رہے انہوں نے پرنسپل بننے کے بعد میری حیثیت کو اسی طرح برقرار رکھا اور میں اسی طرح تمام امور کی انجام دہی کرتا رہا۔ ان کے دور میں لائبریری کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ اس وقت کے سندھ کے وزیر جناب سید شعیب احمد بخاری صاحب مہمان خصوصی تھے۔ پروفیسر محمد ضرار خان کی بڑائی تھی کہ انہوں نے لائبریری کی افتتاحی تختی پر اپنے نام کے ساتھ ساتھ میرا نام بھی لکھوایا۔ یہ ایک یاد گار اور تاریخی عمل ہے اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

پروفیسر ضرار خان صاحب جنہیں اس کالج کے طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ طویل عرصہ شعبہ کیمیاء میں استاد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۲۰۰۸ء میں پروفیسر خورشید کے جانشین ہوئے۔ وہ ایک سیدھے سادھے ، نیک سیرت، مذہبی ذہن کے مالک ہیں۔ کراچی کے پیدائشی اور ناظم آباد کے رہائشی رہے ۔کچھ عرصہ ہوا گلستان جوہر کو آباد کرچکے ہیں۔ اب جب کہ وہ اور میں ریٹائر ہوچکے ہیں کبھی موبائل پر اور کبھی بل مشافہ ملاقات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ان کے بڑے ہونے کی دلیل ہے۔

مجھے ۱۲ سال کے دوران کالج میں تقریباً تمام ہی اساتذہ ساتھیوں سے بے حد محبت ملی۔ یہاں جو بھی اساتذہ میرے زمانے میں رہے نیک، ملن سار، خیال کرنے والے اور کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے تھے۔ بعض ساتھی اب اس دنیا میں نہیں رہے ان میں احمد الدین شیخ ، ریاض مسعودشامل ہیں۔ خالد محی الدین مرحوم کا انتقال کالج میں ہی ہوا وہ کالج میں ٹیبل ٹینس کھیل رہے تھے شاید اسی وقت انہیں دل میں تکلیف محسوس ہوئی سب لوگ اس جانب دوڑے میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا میری گاڑی کالج گیٹ کے نذدیک ہی تھی انہیں میری گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹادیا اور ہم عباسی شہید اسپتال کی جانب چلے۔ مجھے ایسا محسو س ہوتا ہے کہ انہوں نے میری گاڑی میں ہی آخری سانسیں لیں اور وہ اﷲ کو پیاریے ہوگئے۔ اﷲ تعالیٰ تمام مرحوم اساتذہ کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔جی چاہتا ہے کے کالج کے ہر اس ٹیچر کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھوں جن سے میرا ساتھ رہا اور ان کی رفاقتیں میرے لیے یاد گار ہیں ۔ اس قرض کو بھی آئندہ کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ زندگی نے وفا کی تو ان دوستوں کی دوستی اوراپنے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو اپنا موضوع ضرور بناؤں گا۔(۲۵ نومبر ۲۰۱۴ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285492 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More