محراب و منبر، مؤثر ترین میڈیا

ہر دور کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن سے عہدہ برا ہونا اس عہد کے اقوام و ملل کی ایک بنیادی ذمہ اری ہوتی ہے۔ آج (Media) میڈیا کا دور ہے۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور وائس میڈیا کے ذریعے ہم اپنی آواز، تاثرات اور افکار کو لمحوں میں زمین کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں۔ میڈیا اور زرائع ابلاغ کی فہرست میں ٹی وی، ریڈیو، اخبارات یاجدید ترین سوشل میڈیا کو شامل کیا جا تا ہے۔ لیکن آج ہم آپ کی توجہ ایک ایسے ”میڈیا“ کی افادیت کی طرف مبزول کرا رہے ہیں کہ جسے عمومی طور پر روایتی میڈیا کی فہرست میں شمار تو نہیں کیا جاتا لیکن عملا اور حقیقتا ایک مؤثر ترین میڈیا (ذریعہ ابلاغ)ہے۔ اور وہ ہے ”محراب و منبر“۔ انسانیت سازی، خود شناسی اور خدا شناسی کے حوالے سے جو کردار اس میڈیا (ذرائع ابلاغ)نے ادا کیا ہے وہ ایک تابناک اور زندہ جاوید حقیقت ہے۔

بحیثیت مسلمان اگر ہم غور کریں تو ہماری ہر مسجد میں حسن و رعنائی کا مرقع اس کا محراب و منبر ہوتا ہے۔ بعض مقامات پر تو اس کی تزئین و آرائش اسلامی فن تعمیر کا عظیم نمونہ نظر آتا ہے۔اگرچہ عملا محرابِ مسجد کا آغاز دور نبویﷺ کے بعد ہوا لیکن معنا آج بھی اس مبارک دور کی خوبصورت دستاویز کے طور پر نبی محتشم ﷺ کی ”جائے نماز اور محراب و منبر“ مسجد نبوی شریف میں زیارت گاہ خاص و عام ہیں۔ روضہ رسولﷺ کی جبین ناز پہ آج بھی یہ حدیث منقش ہے کہ ”میرے گھر اور منبر کے درمیا کی جگہ جنت کے باغوں میں سے باغ ہے“

بعد از ہجرت کھجور کے ایک تنے کو منبر نبویﷺ کی سعادت عظمیٰ نصیب رہی اور بعدازاں باضابطہ لکڑی کا منبر بناکے مسجد شریف میں رکھا گیا۔ یہی وہ متبرک مقام ہے جسے”محراب و منبر“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور یہاں سے ہی آپﷺ کی زبان اطہر سے خطبات کی صورت میں اسلام کی پاکیزہ اور آفاقی تعلیمات کا پرچار ہوتارہا۔ بیشمار حوادثات زمانہ آئے لیکن اس کے باوجود آج تک مسلمانوں نے محراب و منبر کی افادیت اور عظمت پر حرف نہیں آنے دیا۔ہر دور کی طرح آج بھی وقت کے طاغوت لرزہ بر اندام ہیں تو محراب و منبر سے اٹھنے والی حق گوئی و بیباکی آواز سے کیونکہ وہ آگاہ ہیں کہ یہ یہ ہر دور کا طاقتور”میڈیا“رہا ہے۔ یہ محراب و منبر ہر دور کے مسلمانوں کے علمی و عملی احوال کا عینی گواہ بھی ہے اور عکاس بھی۔قرون اولیٰ کے ابتدائی ادوار میں یہی محراب و منبر امت کی یکجہتی، افراد کی تربیت اورامت مسلمہ کو امت واحدہ بنانے کا ذریعہ رہا۔لیکن یہ بھی ہماری اسلامی تاریخ کا افسوسناک باب ہے جسے دل پہ ہاتھ رکھ کر ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے کچھ ادوار میں اسی محراب و منبر سے دوران ِخطبات ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا آغاز بھی ہوا جس سے امتِ مسلمہ فرقوں میں بٹی اور ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا۔

وہ لوگ جو وارثان محراب و منبر ہیں اُن پر ایک بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ اس نسبت کی وجہ سے اپنی قدر کو پہچانیں کیونکہ بقول حضرت علی ؓ ”کفیٰ باِلمَرءِ جَہلا ان لا یَعرِفَ قدرہ“ (نہج البلاغہ) کہ ’’کسی آدمی کی جہالت اس سے بڑھ کے کیا ہوگی کہ وہ اپنی قدر کو خود نہ پہچانے“۔ اصول فطرت یہ ہے کہ جب لوگ اپنی قدر کو خود پہچانتے ہیں۔ اپنے فرائض منصبی سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور رضائے الہی کیلئے انہیں بجا لاتے ہیں تو بالآخر بہت کم شکایت کا موقع ملتا ہے کہ ”لو گ ہماری قدر نہیں کرتے“۔

دور حاضر میں ہمارے پاس ہر طرح کے میڈیا تک رسائی ضرور ہے لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پاس مؤثر ترین میڈیا (ذریعہ ابلاغ) محراب و منبر ہے۔ اگر کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا کوئی آدمی آپ کو مل جائے اس سے پوچھ گچھ کیجئے کہ کس مکتبہ فکر سے تعلق ہے اور کیسے منسلک ہوا؟ پایچ فیصد سے بھی کم لوگ ہوں گے جو آپ کو بتائیں کہ گوگل، فیس بک، ریڈیو یا ٹی وی دیکھ کر میں متاثر ہوا۔ پچانوے فیصد کی inspiration کا سبب محراب و منبر سے اٹھنے والی آواز ہو گی۔

اسلام ایک آفاقی دین کی حیثیت سے ذریعہ ابلاغ کے طور پر زبان کے لحاظ سے بہت Flexibleہے۔ آغازِ اسلام میں ”محراب و منبر“سے صدائے دلنواز بلند کرنے کیلئے اسلام کی زبان صرف عربی تھی۔ جب ایران و عراق فتح ہوئے تو اسلام کی دوسری بڑی زبان ”فارسی“ بن گئی۔ جب اسلام کی شعاعیں برصغیر تک پہنچیں تو ”اردو“ معرض وجود میں آئی۔ پھر جب مسلمانوں نے برطانیہ و یورپ کی طرف ہجرت کی تو اسلامی کی تیسری بڑی زبان ”انگریزی“ بن گئی۔ اگرچہ اب کئی اور علاقائی زبانوں میں بھی اسلامی لٹریچر دستیاب ہے لیکن مذکورہ چاروں زبانیں اسلام کے لٹریچر اور تحقیقی حوالہ جات کے لحاظ سے بین الاقوامی زبانوں کا درجہ پا چکی ہیں۔ ہماری ایک بہت بڑی ذمہ داری آنے والی نسلوں کو با عمل مسلمان رکھنا ہے۔ ان ہی کی زبان میں ایسے ”وارثان محراب و منبر“ تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جو وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر دور حاحاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔ اسلام کی فطری اور خوبصورت تعلیمات کو نسل نو کی پیدائشی زبان میں اِن کے قلب و ذہن میں جا گزیں کر سکیں۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اولا و ارثانِ”محراب و منبر“ اِن کی کی افادیت اور اہمیت کو دل میں جگہ دیتے ہوئے اللہ اور اس کے پیارے رسولﷺ کی محبت لوگوں کو دلوں میں جا گزیں کر کے انہیں صحیح العقیدہ مسلمان بنائیں۔ اسلام کے پیغام ِمحبت کو اس طرح عام کریں کہ کچھ گم کردہ راہ لوگوں کی اپنے ہم مذہب مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ کاروائیوں کی وجہ سے اسلام کے ماتھے پر دہشت گردی کا جو الزام لگ گیا وہ دھل جائے۔ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق،حکمت و دانائی کے ساتھ، دلائل و براہین سے مزین اور پر اثر گفتگو کے ذریعے اصلاحِ انسانیت کا فریضہ سر انجام دیں۔ دور حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر تحقیق و جستجو کر کے ان کی بہترین راہنمائی کریں۔ مسلمانوں کو حوصلہ دیں اور انہیں نا امیدی اور مایوسی کی دلدل سے نکال کر ایک باعمل، باوقار اور حوصلہ مند مسلمان بن کے زندہ رہنے کا سلیقہ سکھائیں۔ بزرگان دین میں سے کسی کی بھی اہانت سے ہر حال میں گریز کریں۔ منفی کی بجائے مثبت پہلوؤں پر گفتگو کریں۔ہمیشہ سے اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں میں انتشار اور افتراق کی فضاء پیدا کر کے اپنے مذموم مقاصد پورے کرتی رہی ہیں۔ لیکن آج ہمیں دور جدید کے فتنوں سے آگاہ اور بالغ نظر ہونے کی ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی دعوت میں وسعت پیدا کریں۔ یہی وہ رستہ ہے جس سے قوموں کی عظمت رفتہ بحال ہوا کرتی ہے۔ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے انسانوں کی اصلاحِ احوال اور ہر دور کے فتنوں کی سرکوبی اسی محراب و منبر کے ”میڈیا“ کو استعمال کر کے کی۔ بقول اقبال
کبھی تنہائی کو ہ و دمن عشق
کبھی سوز و سرور و انجمن عشق
کبھی سرمایہء محراب و منبر
کبھی مولا علیؓ خیبر شکن عشق
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219627 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More