(خانقاہی نظام٭٭٭حقیقت یا فسانہ) (آخری قسط)

جن ہستیوں کو اسلام کی ظاہری تعلیمات میں سے وافر حصہ نصیب ہوا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں تحقیق و جستجو کا فریضہ سرانجام دیا وہ مفسرِ قرآن، شارح حدیث، فقیہ، متکلم (علم عقائد کے ماہرین)اور محدث وغیرہ کے القاب سے پہچانے گئے اور جوبرگزیدہ ہستیاں ظاہری علم و عمل کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس اور باطنی فیوض و برکات سے بھی بہرہ ور ہوئیں وہ غوث، قطب، مجدد، ابدال، قطب ِوحدت، فرد، اور قیوم وغیرہ کے مناصب جلیلہ پر فائز ہوئیں۔ یہ اصطلاحات مستند کتب تصوف میں مذکور ہیں جن کا تعلق خالصتا باطنی کیفیات اور روحانی منازل سے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فقط حرف شناس اور ظاہر بیں نگاہ ان کو سمجھنے سے قاصر ہو بہر کیف یہ ایک حقیقت ہے جو کہ”قد افلح من تزکی“ ٰ اور”فَفِرُّوا الی للّٰہ“ کی عملی تعبیر ہے جسے کما حقہ سمجھنے کیلئے کسی عارف باللہ اور شیخ کامل کی صحبت اور تربیت شرط ہے۔
پھر آگے چل کر علوم ظاہریہ میں اعمال و احکام کے استخراج اور استنباط کے نتیجے میں شریعت کے چار بڑے بڑے مذاہب فقہ وجود میں آئے

حنفی۔شافعی۔ مالکی اور حنبلی۔ اسی طرح باطنی علوم و معارف اور مجاہدات و مشاہدات کے حوالے سے بھی طریقت کے چار بڑے بڑے سلاسل طریقت قائم ہوئے قادری۔ چشتی۔نقشبندی۔اور سہروردی۔ ان چاروں مذاہب فقہ اور سلاسل طریقت کو یکجا کر لیا جائے تو اس کا نام ہے ” اہل السنۃوالجماعت“ جس کا ثبوت اجمالا قرآن اور تفصیلا احادیث نبویﷺ میں موجود ہے۔ (اور اسی طرح شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ فقہ جعفریہ کو مانتے ہیں)۔

جملہ سلاسل طریقت کا مقصود اور منشا ایک ہی ہے البتہ اپنے سالکین اور مریدین کی تربیت کے حوالے سے ذکر و فکر، لطائف، مراقبات، مجاہدات اور مشاہدات کے طریقوں میں ذوق و وجدان کی بناء پر کسی حد تک اختلاف ضرور ہے۔جس طرح ظاہری بدن کے امراض کے علاج کیلئے کئی طریقہ ہائے علاج ہیں مثلا ایلوپیتھک۔ہومیوپیتھک۔یونانی طب اور ہربل و چائنی طریق علاج وغیرہ۔ اگر کسی کے پاس بھی کوئی بخار میں مبتلا مریض چلا جائے تو طریقِ علاج مختلف ہونے کے باوجود ہر ایک کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ مریض کا بخار اتر جائے۔ اسی طرح بیشمار روحانی اور قلبی بیماریاں ہیں مثلا تکبر، عجب، غفلت، حسد، بغض اور کینہ وغیرہ۔ اگر ان بیماریوں کا علاج نہ کیا جائے تو نہ صرف عبادات کیف و سرور اور لذت سے خالی ہوتی ہیں بلکہ کئی معاشرتی فسادات کا بھی سبب بنتی ہیں۔ تصوفِ اسلامی کا بنیادی مقصد باطن کی اصلاح کرکے قرب الہی کا حصول اور ان روحانی امراض سے چھٹکارہ پانا ہے۔ تمام مذکورہ سلاسل طریقت میں سالکین کی تربیت کے حوالے سے قدر مشترک ذکر الہی، اطاعت رسول ﷺِعبادات کی پابندی اور آہ سحرگاہی ہے۔ بقول اقبال
عطارؒ ہو، رومیؒ ہو، رازیؒ ہو، غزالیؒ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

ہر سلسلہ طریقت کی مستند کتب میں باطنی کیفیات کے حصول اور تزکیہ نفس کیلئے باطنی لطائف پر شیخ کی توجہ کے ساتھ ذکر الہی کی کثرت سے ایک خاص جذب و کیف نصیب ہو تا ہے جس کو لفظوں کا جامہ پہنانا محال ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کی عوارف المعارف، مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات شریف، داتا علی ہجویریؒ کی کشف المعجوب، سلطان الفقر سخی سلطان باھوؒ کے منظوم کلام، حضرت خواجہ محبوب الہیؒ کے ارشادات اور بیشمار دیگر سلاسل کی کتب تصوف میں باطنی لطائف میں سے عالم امر کے پانچ لطائف ”قلبی۔روحی۔ سری۔ خفی اور اخفی“ بیان فرمائے ہیں اور لطیفہ نفس اور قالبی (سلطان الاذکا) بھی ان سے ہی متعلق ہیں۔ وجود انسانی میں مخصوص مقامات پر ان لطائف پر ذکر کرنے سے ایک خاص جذب و کیف نصیب ہوتا ہے۔ اس کے بعد نفی اثبات اور مراقبات سے جو سکونِ قلب اور قرب الہی نصیب ہوتا ہے اس کا تعلق ایک خاص کیفیت سے ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے مکتوبات شریف میں لکھا ہے کہ تصوف کا تعلق کیفیت سے ہے اور اس کا لفظوں میں بیان کرنا محال ہے۔نظام ِخانقاہی کا خاصہ ہی یہ ہے کہ ہر بیعت طریقت کرنے والے سالک (مرید) کی باضابطہ تربیت کی جائے لیکن جب سے بقولِ اقبال زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آئے اور پیری مریدی ایک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر کمرشلائز ہوگئی تو یہ ساری باتیں بزرگوں کی کتابوں میں لکھی رہ گئیں لیکن سالکین کی عملی تربیت کا اہتمام خال خال ہی نظر آتا ہے۔اکثر و بیشتر مریدین سالہا سال یا نسل در نسل سے پیر صاحب کی خدمت میں نذرانے تو پیش کر رہے ہیں لیکن مرید کی حالت یہ کہ نہ عقیدہ کی پختگی اور درستگی، نہ پانچ وقت کا نمازی، نہ حلال و حرام کی تمیز، نہ گھروں میں اسلامی ماحول اور نہ ہی اولاد کی اسلامی تربیت۔ البتہ as a client پیر صاحب سے تعلق قائم ہے اور پیر صاحبان بھی اپنے بزرگوں کی کرامات اور ان کے احوال (اکثر وہ بھی بے سند) بتا بتا کر مریدین کو خوش اور مطمئن رکھتے ہیں اور مریدین بھی شش ماہی یا سالانہ ٹیکس ادا کر کے اور ہاتھ چوم کر اپنی ذمہ داری سے بری الزمہ ہو جاتے ہیں اور زندگی کی گاڑی بے راہروی کی شاہراہ پر گمراہی کی منزل کی طرف رواں دواں ہوتی ہے (الامان والحفیظ) ہماری فہم کے مطابق امت مسلمہ کے زوال کا ایک بڑا سبب نظام خانقاہی کا غیر فعال ہونا ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو گوشت پوست کے لحاظ سے دیگر جانوروں اور انسان میں کوئی خاص فرق نہیں لیکن یہی جذب و کیف اور قلب و باطن کی روشنی ہے جو اسے اشرف المخلوقات کے منصب سے آشنا کرتی ہے۔ اس کے بغیر عبادات بے روح، ذکر بے ذوق اور سجدے بے کیف۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے ان انوارات اور کیفیات کا منبع اور مرکز ذات مصطفیﷺ ہے۔ القائی اور انعکاسی طور پر یہ برکات نبوت دلوں سے دلوں تک منتقل ہوتی رہیں اور تا ابد ہوتی رہیں گی۔ (Golden Chain) شجرہ طریقت کا مفہوم ہی یہ ہے کہ کن کن ہستیوں کو کس سے فیض نصیب ہوا یہاں تک کہ یہ سلسلہ مختلف واسطوں سے نبی کریمﷺ تک پہنچتا ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ حضرت صدیق اکبرؒ کے واسطے سے جبکہ قادری۔چشتی اور سہروردی سلاسل حضرت علی المرتضیؒ کے واسطے سے نبی کریمﷺتک پہنچتے ہیں۔ شریعت اور طریقت لازم و ملزوم ہیں۔ حضرت امام مالک کا قول ہے ”من تصوف و لم یتفقہ فقد تذندق۔ و من تفقہ و لم یتصوف فقد تفسق۔ و من جمع بینہما فقد تحقق“ کہ ”جس نے طریقت کی راہ اپنائی لیکن ظاہری شریعت سے بے بہرہ رہا تو اس کے بے دین ہونے کا خطرہ ہے۔ جو شریعت پہ عمل کرے مگر طریقت سے نا بلد ہو تو اس کے فسق و فجور میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے اور جو کوئی ان دونوں کو جمع کرے تو وہی برحق ہے“۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ کے بڑے بڑے امام بشمول امام ابو حنیفہؒ و، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام مالکؒ شریعت کے امام ہونے کے باوجود کسی شیخ طریقت کے ہاتھ پر بیعت کرکے باطنی فیوض و برکات حاصل کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
آپؐکی نسبت نے سنوارا ہے مرا اندازِحیات
میں گر تیر ا نہ ہو تا، سگ ِ دنیا ہوتا
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219476 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More