عالمی دہشتگرد، فتوے اور محرم الحرام

 پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی اور خودکش دھماکوں کے وقتاً فوقتاً ہونے والے واقعات کی ‘ٹائمنگ‘ کو دیکھا جائے تو ان واقعات میں سے اکثر تب ہی شروع ہوتے ہیں جب پاکستان کے اندرونی یا داخلی حالات میں کوئی ‘جوار بھاٹا‘ پیدا ہو۔ اور اس کا مقصد “غیر ملکی“ دہشتگردوں اور پاکستان کے خلاف جاری “عالمی سازش“ کے مؤجدوں اور اکا دکا آستین کے سانپوں کو اپنے عزائم و مقاصد و ٹارگٹ کو آسان بنانا ہے اور یہ دکھانا مقصود ہوتا ہے کہ پاکستانی ہی اپنے پاکستان کو “دہشتگردی“ کا گڑھ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ سب باتیں سوائے پاکستان کے خلاف میڈیائی٬ کاروکاری، کان ہاتھ کاٹنے کی ویڈیوز، مساجد میں خودکش دھماکوں، ملکی سرحدوں کی رکھوالی فوج پر اور اسکے ہیڈ کوارٹر پر حملے، سیکورٹی اداروں اور پولیس پر دستی بمبوں سے حملے، سانحہ گوجرہ وغیرہ جیسے واقعات کو اس تناظر میں بڑھا چڑھا کر اور لون مرچ لگا کر بیان کرنا اور بیان کرنے والے جن میں “جناح پور“ کا خواب پالنے والے ایم کیو ایم کے خود ساختہ جلاوطن الطاف حسین پیش پیش ہوتے ہیں کہ ملک میں “دہشتگردی“ کی جڑیں بہت گہری ہیں، ہمارے اپنے ہی اپنوں کو مار رہے ہیں، خودکش دھماکوں کی تعلیم دینے والوں کو نشان عبرت بنا دینا چاہیے وغیرہ جیسی باتوں کا ہر ‘ٹیلیفونک خطاب‘ میں بار بار اعادہ کرنا دراصل “حقیقی غیر ملکی دہشتگردوں“ یعنی بھارتی، افغانی، مصری، سوڈانی، یمنی، شامی اور ‘بلیک واٹر‘ کو جہاں بچانا ہے وہیں پر تیس ہزار فوجیوں کی آمد کے اعلان کو بخوشی ‘جی آیاں نوں‘ کہنا کے مترادف ہے اور ساتھ ہی بلواسطہ طور پر ان باتوں سے پاکستان سے “غداری“ کا اظہار بھی ہوتا ہے جونہی امریکی صدر اوبامہ نے افغانستان میں تیس ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا اسکے فوری بعد پاکستان کے شہروں روالپنڈی، پشاور، لاہور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں دہشتگردی کے واقعات میں سینکڑوں قیمتی جانیں دہشتگردی کا شکار ہوئیں۔ دہشتگردی کی لہر کے اس موقع پر وقوع پذیر ہونے کے پیچھے امریکی صدر اوبامہ کی نئی افغانستان پالیسی خصوصاً تیس ہزار فوجیوں کی آمد کے اعلان کو عین درست قرار دلوانا اور “عالمی رائے عامہ“ کو اوبامہ پالیسی بارے تحفظات کو کھڈے لین لگانے کا مقصد پوشیدہ ہونے کے خیال کو ہرگز بعید از عقل قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اسی طرح یہ بھی قابل غور امر ہے کہ دہشتگردی کی لہر میں حکومتی سطح پر بھی “خود کش دھماکوں“ کے خلاف فتوے لیے گئے جبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین جو کہ ملک کی داخلی و خارجی و سیاسی و عسکری و امن و امان کی صورتحال کو دیکھے بھالے بغیر ہمیشہ “بریکوں فیل“ ملاں ازم کے دوالے ہوتے ہیں، نے بھی “خود کش حملوں“ کے خلاف علماء سے فتویٰ نکلوایا۔ ایسا کرنے کے پیچھے کیا مقصد ہے؟ کیا ایسا کرنے سے پاکستان میں دہشتگردی بڑھے گی یا ختم ہو گی؟ یقینی طور پر بڑھے گی، وجہ یہ کہ جب “اسلام“ میں “خود کش حملے“ کا کوئی انسانی و اخلاقی و مذہبی جواز ہی موجود نہیں تو پھر “خود کش دھماکوں“ کے خلاف فتوے لینا کہاں کی دانشمندی ٹھہرتی ہے؟ ان فتوؤں سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعی ہی پاکستانی ہی اپنے مسلمان بھائیوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کسی “چور“ ہی کو بلا کر اس سے “فتویٰ“ لیا جائے گا جو کہ واقعی ہی “چور“ ہے۔ گویا ایسے فتوے پاکستان کے خلاف عالمی سازش کو اجاگر کرنے کی بجائے اسکی پردہ پوشی کرتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے فتوے دراصل پاکستان میں دہشتگردی کو بڑھانے کا مؤجب ہیں۔ یہ بات بھی اب ہر جگہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر بشمول ایم کیو ایم کے الطاف حسین کے ‘ٹیلیفونک خطابوں‘ میں دیکھنے کو مل رہی ہے کہ اب لفط ‘دہشتگرد‘ کا استعمال نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور اس کی جگہ لفظ ‘شدت پسند‘ پورے زور و شور سے ہر جگہ چیختا چنگھاڑتا ہے۔ اس لفظ کی تبدیلی سے بھی یہی دکھانا مقصود ہے کہ کسی نہ کسی طرح “اسلام“ کو “دہشتگردی“ سے نتھی رکھا جائے۔

ہماری دانست میں یہ فتوے دراصل “دہشتگردی“ کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ اور ان کے بل بوتے پر “عالمی دہشتگرد“ اپنی “دہشتگردی“ کو “فرقہ وارانہ دہشتگردی“ کا با آسانی روپ دلوانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ چونکہ محرم کا آغاز ہو چکا ہے اور عاشورہ قریب ہے، لہٰذا ہم حکومت، شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے خصوصی طور پر درخواست کرتے ہیں کہ وہ محرم میں امن و امان کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے ارد گرد بھرپور نظر رکھیں، پیشہ ورانہ اور شہری فرائض کو بخوبی ادا کریں۔ اور محرم کے دنوں میں امن و امان کی بحالی کے سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتیں۔ کیونکہ ہماری دانست میں فتوؤں نے “غیر ملکی دہشتگردوں“ کو “دہشتگردی“ کا “روڈ میپ“ دیا ہے اور وہ محرم میں اپنی دہشتگردی کو “فرقہ وارانہ دہشتگردی“ کا رنگ دینے میں باآسانی کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ضروری نوٹ: یہ کالم نجیب الرحمٰن صاحب نے جو ہماری ویب پر بھی کالم لکھتے رہے ہیں نے برائے معلومات مجھے ای میل کیا تھا۔ مجھے یہ اچھا لگا اس لیے میں نے اسے یہاں پوسٹ کر دیا ہے۔
NS
About the Author: NS Read More Articles by NS: 2 Articles with 2258 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.