سیاسی بے وزنی کا احساسِ زیاں

قومی انتخاب کے بعد سے ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کو لے کر صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ اس کی تائیدمیں مسلمانوں کے ارکان پارلیمان یا اسمبلی کی مختصر تعداد کا بکھان کیا جاتا ہے ۔ دانشورحضرات خاص طور پر بی جےپی کی حکومت والی ریاستوں میں مسلم وزیروں کی تعداد کو لےکر کفِ افسوس ملتے ہیں ۔ ایسے میں جبکہ کانگریس یاان علاقائی جماعتوں کی صوبائی حکومتوں میں جو مسلمانوں کے ووٹ سے انتخاب میں کامیاب ہوئی ہیں مسلم وزراء بےدست و پا ہیں اگر بی جے پی کسی نجمہ یا کسی نقوی کو وزیر بنا بھی دے تو اس سے کیا فرق پڑتاہے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے مسلمان اس بات پر احتجاج کریں کہ ہندو احیاء پرست مسلم نوجوانوں کو نوراتری کے تہوار میں شرکت سے کیوں منع کرتے ہیں۔ یہ ملت کے کرنے کا کام تھا کہ وہ اپنے نوجوانوں کو اس مشرکانہ فعل سے روکتے لیکن جب ہم ناکام ہو گئے تو ہمارے دشمنوں نے یہ کردیا۔ اس کیلئے ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ بی جے پی کی حکومت میں مسلمان وزیر کے موجود نہ ہونے پر ہمیں افسوس کرنے کے بجاے خوش ہونا چاہئے اس لئے کہ یہ باعث خیر ہے۔کم ازکم کم ازکم ملت کا کوئی فرد امت کی بیخ کنی میں براہِ راست ڈھٹائی کے ساتھ ملوث نہیں ہے ۔

نام نہاد سیاسی بے وزنی پر بلاوجہ جذباتیت کا شکار ہونے کے بجائے معروضی انداز میں اس بنیادی سوال پرغور ہونا چاہئے کہ آخر یہ کیا بلا ہے؟ اس سلسلہ میں چند ثانوی نوعیت کے سوالات بھی جنم لیتے ہیں مثلاً کیا یہ افتاد صرف مسلمانوں پرآن پڑی ہے؟ یا دیگر لوگ بھی اس کا شکار ہوے ہیں؟ کیا ایسا پہلی بار ہوا ہےیا پہلے بھی ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بے وزنی کے کیا نتائج مرتب ہوسکتے ہیں؟ یعنی اس سے کون سی مصیبت آجائیگی یا کون سےمواقع بے وزن امت کو محروم کردیا جایئگا؟ یہ صرف ایک نفسیاتی احساس ہے یا حقیقت کی دنیا میں اس کا کوئی ٹھوس وجود بھی ہے؟
ذرائع ابلاغ میں ساری توجہ آخری سوال پرمرکوزہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے مسلمانوں کے دینی تشخص کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ ان کیلئے شریعت پر عملدرآمد مشکل ہو جایئگا۔ شعائر اسلام پر حملے تیز تر ہوجائیں گے۔عدم تحفظ میں اضافہ ہوگا یعنی فسادات ہوں گےیا بیجا گرفتاریوں کے سبب مسلمان خوف و دہشت کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور کردئیے جائیں گے۔ معیشت کو تباہ و برباد کرکے انہیں خوشحالی سے محروم کردیا جائیگا اوروہ بدحالی کے گڑھے میں ڈھکیل ئیے جائیں گے۔ ان کے مطالبات عدم توجہ کی نذر ہو جائیں گے اور کوئی دادرسی نہیں ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے بے شمار اندیشوں کا شکار کرنے کے بعد اس حالتِ زار کیلئے ذمہ دار افراد کی نشاندہی کرکے ان پر لعنت ملامت کی جاتی ہے اور جن لوگوں سے اختلاف ہوتا ہے یا جو ناپسند ہوتے ہیں ان کے خلاف سارا نزلہ اتار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ فسادات اور بیجا گرفتاریوں کا سلسلہ اس دور میں بھی جاری رہا جب ہماری تعداد اچھی خاصی تھی ۔ مسلمانوں کی دادرسی کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔جہاں تک معاشی بدحالی کا سوال ہے سرمایہ دارانہ نظام میں یہ عذاب عام ہے۔سرمایہ داری غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بناتی ہے سرمایہ دارانہ نظام استحصال مذہبی تفریق و امتیاز کی قائل نہیں ہے ۔ ہندو مسلم سارے اس چکی میں پس جاتے ہیں نام نہادسیاسی وزن کسی کام نہیں آتا ۔

شعائر اسلام پر سرزمینِ ہند میں دو بڑے حملے ہوے ۔ اول شاہ بانو مقدمہ کے فیصلے میں شریعت کے اندر دراندازی نیز بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کے تعمیر کی تحریک ۔ ان دونوں کی داغ بیل ایسے وقت میں پڑی جب مرکز میں بی جےپی برسرِاقتدار نہیں تھی اور نہ ہی کانگریسی حکومت کی قیادت نرسمھاراؤ جیسے فرقہ پرست کے ہاتھ میں تھی بلکہ پنڈت جی اور ان کے نواسے راجیو جی دہلی کے تخت پر فائز تھے۔ شاہ بانو کے معاملے میں مسلمانوں کی عوامی تحریک کامیاب رہی اور بابری مسجد کی بابت ناکام ہوئی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کیلئے بی جےپی اور کانگریس یکساں ذمہ دار ہیں ۔ اگر بی جے پی اس کو توڑنے کیلئے قصوروار ہے تو کانگریس اسے روکنے میں کوتاہی برتنے کی سزاوار ہے اس طرح گویا یہ کانگریس اور بی جےپی کی مشترکہ کارروائی تھی جس سے دونوں نے سیاسی فائدہ حاصل کیا۔
عدم تحفظ کے باب میں جہاں تک فرقہ وارانہ فسادات کا سوال ہے ان میں یقیناً گجرات کافسادسرفہرستہے اور اسےدیگر فسادات پر فوقیت حاصل ہے لیکن آسام کا فساد بھی کوئی معمولی سانحہ نہیں تھا ۔ دونوں مقامات پر مرنے والوں کی تعداد یکساں تھی۔ گجرات میں جس طرح سیاسی مفاد کے پیش نظروزیراعلیٰ نریندر مودی نے اس آگ کو بھڑکایا اور اسے حق بجانب قراردے کے ریاستی انتخاب میں کامیابی حاصل کی اسی طرح آسام میں کانگریس نے فسادیوں پر کارروائی نہیں کی گویا انہیں عام معافی دے کر اپنی سیاسی دوکان چمکائی۔ مسلمانوں کی آبادی کا سب سے بڑا تناسب آسام میں ہے گزشتہ انتخاب میں مسلمانوں نے آسام کے اندر خود اپنی پارٹی بنا کر غیر معمولی کامیابی درج کرائی اورسب سے بڑی حزب اختلاف بن گئے۔ برسر اقتدار جماعت کانگریس بھی مسلمانوں کی ہمنوا ئی کا دم بھرتی ہے اس کے باوجود بوڈو لینڈ کے فسادات رونما ہوے اور لاکھوں مسلمان بے گھر ہوئے۔

اتر پردیش کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں گزشتہ انتخاب میں مسلمانوں نے اپنی غیر معمولی ذہانت و بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئےسب سے زیادہ مسلم ارکان اسمبلی کو کامیاب کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اترپردیش اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد آبادی میں کے تناسب سے زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پسندیدہ جماعت کو اقتدار مل گیا اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بی ایس پی پر بھی ان کا اچھا خاصہ اثر و رسوخ قائم ہو گیا۔ اس کے باوجود کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسی سنہرے دور میں اترپردیش کی تاریخ کا سب سے بھیانک فساد مظفر نگر میں رونماا ہوا؟ وہ بھی ایک ایےب وقت جبکہ مرکز میں کا نگریس کی حکومت تھی۔ جس میں ریموٹ کنٹرول ایک عیسائی خاتون کے اور اقتدار کی زمامِ کارایک مہذب سکھکےہاتھوں میں تھی۔ اقتدار کے گلیارے میں رہنے بسنے والےکسی قابلِ ذکر مسلم رہنما نےآج تک ان سنگین مسائل پر نہ پرزور احتجاج کیا اور نہ اپنا استعفیٰ پیش کیا بلکہاکثرو بیشتر اپنی جماعت اور حکومت کی صفائی پیش کرنے کے کارِ خیرمیں لگے رہے۔ مسلمانوں کی بازآبادکاری اور ان کو انتظامیہ کی ظلم و زیادتی سے بچانے کیلئے بھی یہ نمائندے آگے نہیں آئے۔ ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے تحفظ کا ان کی سیاسی نمائندگی سے (بلا تفریق پارٹی) کوئی براہِ راستتعلق نہیں ہے ۔ مصائب کی تپش میں یہ بھاپ بن کر اڑ جانے والاجھاگ ہے۔

اس بابت مسلم لیڈرشپ کا معیار زیر بحث آسکتا ہے کہ اگر قابل اعتماد اور صاحبِ کردار افراد کو مسلمان ایوان پارلیمان میں منتخب کرکے روانہ کریں تو صورتحال بدل سکتی ہے گویا اس حالتِ زار کیلئے نہ وہ رہنما ذمہ دار ہیں جو اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں اور نہ وہ سیاسی جماعتیں جو انہیں ٹکٹ دیتی ہیں اور یرغمال بنا کر اپنے پاس رکھتی ہیں بلکہ خود امت ہی قابلِ گردن زدنی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک خیالی مفروضہ ہے اس لئے کہ آزاد ہندوستان میں مولانا ابوالکلام آزاد سے زیادہ بارسوخ اور لائق و فائق سیاسی رہنما تو کوئی اور پیدا نہیں ہوا۔ وہ کانگریس پارٹی کے صدر بھی رہ چکے تھے اور آزادی کے بعدوزیر تعلیم بنائے گئے تھے اس کے باوجود خود ان کی اپنی وزارت کے تحت اردو زبان کی بیخ کنی کی گئی اور وہ بے یارو مددگار دیکھتے رہ گئے۔ اپنے دورِ اقتدار میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعلیم گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار تک بحال نہیں کرسکے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ سب کانگریس کی فرقہ پرستی کے سبب ہوا تو اسے یاد کرنا چاہیے کہ جنتا دل کی سرکار میں کشمیری رہنما مفتی محمد سعید کو وزیر داخلہ بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس وقت وی پی سنگھ جیسا مسلم دوست وزیر اعظم تھا اس کے باوجود نہ کشمیر کے معاملے میں کوئی قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی اور نہ مسلمانوں کے دیگر مسائل ہوے۔ جنتا پریوار میں سید شہاب الدین جیسا پڑھا لکھا رکن پارلیمان موجود تھا۔ وہ مجلسِ مشاورت اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے صدر بھی تھے اس کے باوجود وہ کچھ نہ کرسکے؟گویا ایوان میں مسلم ارکان کی قابلیت کا فائدہ بھی تعداد کی مانندمحض ایک خام خیالی ہے۔

اب آئیے مسلمانوں سے باہر نکل کر دیکھیں ۔ہندوستان میں جو ۸۰ فیصد سے زیادہ ہندو رہتے ہیں کیا ان کا سیاسی وزن ہندوتوا وادی بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے بڑھ گیا ہے ۔ہندووں کی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں تو کانگریس کا یہ حال ہے کہ وہ حزب اختلاف کا رہنما نامزد کرنے کی بھی مجاز نہیں ہے۔ کمیونسٹ اپنی بقاء کی فیصلہ کن جنگ لڑ رہے ہیں اور دیگر علاقائی جماعتوں کا بھی حال اچھا نہیں ہے۔ جئے للیتا کا سیاسی مستقبل تاریک کرنے کی بھرپور کوشش کی جاچکی ہے اور مایاوتی کو بھی حاشیہ پر پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ جماعتیں ماضی میں بی جے پی کا ساتھ دے چکی ہیں مگر حال میں مخالف رہی ہیں اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ بی جے پی کی مخالفت کی قیمت چکا رہی ہیں لیکن ہریانہ وکاس پارٹی تو آخر تک ساتھ رہی لیکن اسے بھی بے وزن کردیا گیا ۔ شیوسینااپنے جائز مطالبات کے ساتھ بی جے پی سے الحاق کرناچاہتی تھی اور اس میں بھی کافی لچک پیدا کرچکی تھی مگر ہندوتوا وادی ہونے کے باوجود ایک منصوبہ بند سازش کے تحت اس کا وزن گھٹایا گیا۔ہندی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سےقبل جب اندرا جی کو بلکہ مرارجی بھائی کو بھی ایوانِ پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی تو یہی طرز عمل اختیار کیا گیا تھا۔ انتخابی سیاست میں رواداری محض ایک مجبوری ہوتی ہے ۔ جیسے ہی وضو آتا ہے تیمم ازخود غائب ہوجاتا ہے۔

بی جے پی کی نارواداری اور خودسری آج کل موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت کو برداشت کرنے کیلئےتیار نہیں ہے اس لئے دوست و دشمن سب کا صفایہ کرنے پر تلی ہوئی ہے لیکن بی جے پی کے اندر جھانک کر دیکھیں تو اڈوانی جی، مرلی منوہر جوشی اور کلیان سنگھ وغیرہ یہ سب تو بی جےپی کے رہنما ہیں ۔ ان لوگوں نے پارٹی کی خاطر اپنی زندگی جھونک دی اقتدار میں آنے کے باوجود ان کے سیاسی وزن کو کون سا روگ لگ گیا؟ آج کوئی ان کو پوچھ کرنہیں دیتا بلکہ ان کے قریب جانے سےخود بی جے پی والے خوف کھاتے ہیں ؟ اڈوانی کا حالیہ بہار دورہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آرایس ایس کے اثرات سے متعلق بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سنگھ کے اصرار کے باوجود بی جے پی نے مہاراشٹر میں شیوسینا پر این سی پی کو ترجیح دی۔ حالانکہ ریاست کا وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس اور مہاراشٹر بی جےپی کا سب سے بڑا رہنما و سابق صدرنتن گڈکری آرایس ایس کا پروردہ ہے۔ دونوں کو اپنی خاکی نیکر اور کالی ٹوپی پر ناز ہے اس کے باوجود وہ سرسنگھ چالک کے بجائے پردھان سنگھ سیوک کے اشاروں پر چلنے کیلئے مجبور ہیں کیا اسے سیاسی بے وزنی میں شمار نہیں کیا جائیگا؟
بی جے پی کے بزرگ رہنماوں کو بے وزن کرنے کیلئے یہ جواز پیش کیا گیا کہ ان کی عمر ۷۵ سال سے تجاوز کرگئی ہے لیکن ۸۷ سالہ لوکیش چندر کو انڈین کاونسل آف کلچرل ریلیشن کا سربراہ بنا دیا گیا ۔ ۔ آرایس ایس اپنے آپ کو ثقافتی تحریک کہتی ہے لیکن سنگھ کی کوکھ سے پیدا ہونے والی بی جے پی کوثقافتی روابط کی استواری کیلئے کوئی سنگھی دانشور میسر نہیں آیا۔ حکومت نے یہ ذمہ داری ایک ایسے کھدر دھاری پروفیسر کے حوالے کی جو بقول خود ساری عمر نہ صرف کانگریسی رہا ہےبلکہ اندرا گاندھی کا معتمد بھی تھا ۔ جس کا دعویٰ ہے کہ اس کے سوویت یونین کے کئی رہنماوں سے ذاتی تعلقات تھے ۔ اس خبط الحواس انسان نے اپنا سیاسی وزن بڑھانے کیلئے کہہ دیا نریندر مودی نے کارل مارکس سے زیادہ غریبوں کو متاثر کیا ہے ۔ وہ مہاتما گاندھی سے عظیم ہے بلکہ بھگوان کا اوتار ہے۔ ہمارے ملک میں سیاسی وزن کی حقیقت کو واضح کرنےوالا یہ واقعہ اپنی مثال آپ ہے۔

پروفیسرلوکیش چندر کیسااسی بساط پر کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے اس کے سیاسی وزن سے اگر صرف نظر بھی کیا جائے تو راجستھان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے والی وجئے راجے سندھیا کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جن کا تعلق برسرِ اقتدار بی جےپی سے ہے ۔ وہ اپنی ہی پارٹی کے صدر سے ملاقات کیلئے دہلی آتی ہیں اور دون تک وقت نہیں ملنے کے سبب بے نیل و مرام لوٹ جاتی ہیں۔ ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود ان کا بیٹا وزیر نہیں بن پاتا۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا واقعہ شیوراج چوہان کا ہے جو مدھیہ پردیش میں گجرات سے بڑی کامیابی درج کراچکے ہیں ۔ جب سریش پربھو نے وزیر ریلوے بننے کے بعد ٹویٹ کیا کہ وہ تمام لوگ جو ریلوے میں کام کرتے ہیں وزیر اعظم کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کریں توایسا لگا گویا انڈین ریلوے کسی فرد واحد کی نجی ملکیت ہے جو اس ادارے میں برسرِ روزگار سارے ملازمین کو وہ اپنی جیب سےتنخواہ دیتا ہے اس لئے ان سب کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ اپنے آقا و مالک کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کریں ۔

وزیر ریلوے کے اس شرمناک بیان پر ایک طنزیہ ٹویٹ کرنے کی جرأت مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج چوہان نے کردی اور لکھا کہ مجھے یہ پسند آیا جو آپ نے کہا کہ عزت مآب وزیراعظم کا خواب (کو پورا کریں)نہ کہ ہندوستانیوں کا۔ وہ (یعنی وزیراعظم) یقیناً آپ کی بھکتی پر خوش ہوں گے ۔ آپ (بلند) مقامات پر پہنچیں گے۔ اس بیان میں کہی جانے والی بات صد فیصد درست ہے ۔ اس کا اسلوب بیان نہایت مہذب اور ظریفانہ ہے ۔ اس بات کو کہنے والا ایک نہایت طاقتور سیاسی رہنما ہے اس کے باوجود اس کی بے وزنی کا یہ عالم ہے کہ بہت جلد یہ ٹویٹ ہٹا دیا جاتا ہے اور یہ پوچھے جانے پر کہ یہ فقرہ آپ نے کیوں کسا اور پھر کیوں اس سے رجوع کرلیا ؟ اس کا انکار کردیا جاتا ہے۔ صفائی کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ٹویٹراکاؤنٹ پر کسی نے وقتی طور پرقبضہ(ہیک) کرلیا تھا ۔ یہ ایسی کذب بیانی جو خود اپنے خلاف گواہی دیتی ہے اس لئے کہ اس قدرمختصر وقفہ کیلئے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کا ہیک ہوجانا اور اپنے آپ اس کا بحال ہوجانا ناقابل یقین جھوٹ ہے۔ سچ یہ ہے کہ چوہان صاحب ڈر گئے جو درحقیقت بے وزنی کی ایک علامت ہے۔

ان واقعات کی روشنی میں یہ باتاظہر من الشمس ہے کہ مغرب کاجمہوری نظام عوام وخواص کیلئے جس سیاسی وزن کا دعویٰ کرتا ہے وہ محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔ عوام کو خوش فہمی کا شکار کرکے ان کا استحصال کرنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے جس میں باشندگانِ وطن کو یہ کہہ کر بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ ساری سیاسی قوت ان کے ہاتھوں میں ہے جبکہ حقیقت میں قوت و طاقت کا سرچشمہ صاحبِ اقتدار کے پنجہ میں مرکوز ہوتاہے ۔ یہاں بھی حاکم ِ وقت کے آگےسارے لوگ عملاً بے وزن ہوتے ہیں ۔رہنماوں کے طرزِ عمل یا طور طریقوں سے کبھی کبھار غلط فہمی ضرور پیدا ہوتی ہے مگر اس سے حقیقتِ واقعہ میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ صاحبِ اقتداراندرا گاندھی ہو یا مرارجی دیسائی اور راجیو گاندھی ہو یا نریندر مودی ، ان تمام پر( واضح اکثریت والے) اقتدار کا نشہ یکساں طور پر اثر انداز ہوتا ہے اور بلا شرکت غیرے حکمرانی کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے ۔ اصحاب اقتدار کی بابت کسی مغربی مفکر کا قول ہے اقتدار بدعنوان بناتا ہے اور مکمل اقتدار بدعنوانی کی تکمیل کردیاا ہے لیکن اس نظام میں عوام کو لاحق ہونے والی خوش فہمیوں کا ازالہ ساغر صدیقی نے کیا خوب کیا ہے ؎
سمجھی ہے جس کو سایۂ اُمّید عقلِ خام
ساغرؔ کا ہے خیال بڑی تیز دُھوپ ہے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1239315 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.