جھڑی میلہ : اہمیت وافادیت اورکسان طبقہ

شمالی ہندوستان کے بڑے کسان میلوں میں سے ایک” جھڑی میلہ “ہے جوہرسال کی طرح اس سال بھی جوش وجذبے کیساتھ منایاجارہاہے ۔یہ میلہ جموں شہرسے 20کلومیٹرکی دوری پرواقع جھڑی کے مقام پرلگتاہے جوکہ ایک ہفتے تک جاری رہتاہے ۔اس سال میلے کاافتتاح مورخہ 6 نومبر2014کوڈویژنل کمشنرجموں شانت منونے ڈپٹی کمشنرجموں اجیت کمارساہواورمیلہ آفیسروایس ڈی ایم مڑھ سنیناشرماکی موجودگی میں کیا۔آج کسانوں کے جھڑی میلہ کاچوتھاروزہے ۔یہ میلہ جھڑی کے مقام پرہرسال کارتک پورنیماکے موقعہ پر 550سال قبل یعنی 15ویں میں کسانوں کے حقوق کےلئے جدوجہدکرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دینے والے ایک عظیم کسان باواجیتوکی یادمیں لگتاہے ۔کئی صدیوں سے چل رہے اس میلے کی کسانوں کےلئے تاریخی اہمیت ہے ۔میلے میں لاکھوں کی تعدادمیں ریاستی اوربیرونی ریاستوں کے عقیدت مندکسان شرکت کرتے ہیں ۔باواجیتوکاجنم کٹرہ کے نزدیک واقع گاﺅں اگھارجیتومیں ہواتھا،اس گاﺅں کی زمین فصل کےلئے زیادہ زرخیزنہ تھی اس لیے باواجیتوکواپنے کنبے کاپیٹ پالنے میں دشواری آرہی تھی ۔15ویںصدی میں ریاست میں جاگیردارانہ نظام رائج تھااورجاگیردارکسانوں کوزمین فصل اُگانے کےلئے دیتے تھے اورپھرکسانوں سے لینڈریونیویافصل کاکچھ حصہ لیتے تھے ۔ اس لیے باواجیتونے بھی سوچاکہ وہ زرخیززمین تلاش کرے گااورجاگیردارسے معاہدہ کرکے فصل اُگانے کےلئے زمین حاصل کرکے اپنے کنبے کی پرورش کرے گا۔باواجیتونے اپنے گاﺅں کے گردونواح کے مختلف مقامات پرجاکرزرخیززمین کی تلاش کی لیکن ہرجگہ اسے بنجرزمین ہی ملی۔بالآخرایک دِن وہ جموں سے 20کلومیٹردوری پرواقع کانہ چک نامی علاقہ میں پہنچ گیا۔یہ جموں خاص سے 20کلومیٹردوردریائے چناب کے نزدیک کاعلاقہ تھا۔وہاں پرقریب ہی جھڑی کے مقام پرباواجیتونے زرخیززمین کاٹکڑادیکھاجوکہ بنجرتھامگرباواجیتونے سوچاکہ وہ اس پرسخت محنت کرکے جنگل میں منگل کردے گا۔جس زمین کے ٹکڑے کوباواجیتونے پسندکیاوہ بیرمہتہ سنگھ جوکہ جموں ریاست کاوزیرتھاکی جاگیرکاحصہ تھا۔جھڑی میں زمین کاایک ٹکڑازمینداری کرنے کےلئے حاصل کرنے کے سلسلہ میں باواجیتوبیر مہتہ سنگھ سے ملاقات کی اوران سے زمین کاٹکڑااپنے حق میں واگذارکرنے کی گذارش کی ۔بیرسنگھ مہتہ نے باواجیتوکی اس درخواست کوقبول کرلیالیکن اس نے باواجیتوکوزمین دینے کےلئے اس کے سامنے ایک شرط رکھی ۔شرط کے مطابق باواجیتوکوزراعتی پیداوارکاایک چوتھائی حصہ کوبطورلینڈریونیوبیرمہتاسنگھ کودیناتھا۔باواجیتونے اس شرط کومان لیااورزرعی پیداوارکاایک چوتھائی حصہ بطورلینڈریونیوبیرمہتہ سنگھ کودینے اورباقی حصہ اپنے پاس رکھنے پررضامندی ظاہرکردی۔بیرسنگھ مہتانے باواجیتوکوجھڑی گاﺅں میں اسے زمین دے دی۔باواجیتونے بیرسنگھ مہتہ کی طرف سے دی گئی زمین پرسخت محنت کی اورشاندارفصل اُگائی ۔بیرسنگھ مہتہ کواس کے اہلکاروں نے باواجیتوکی شاندارفصل ہونے کی اطلاع دی اورصلاح دی کہ وہ باواجیتوسے فضل میں سے زیادہ حصہ دے۔بیرسنگھ مہتہ نے صلاح کواپنے حق میں پایا،اس لیے اس نے باواجیتوکو لینڈریونیوسے متعلق نیامعاہدہ کرنے کاحکم دیا۔نئے معاہدہ کے مطابق باواجیتوسے کہاگیاکہ وہ فصل کاتین چوتھائی حصہ بطورلینڈریونیودے اورایک حصہ اپنے پاس رکھے۔قدیم اوروسطی ہندوستان میں عام طورسے غریبوں پرامیروں کابوجھ اس طرح ہوتاتھاجس طرح بیرسنگھ مہتاباواجیتوپراپنابوجھ ڈال رہاتھا۔بیرسنگھ مہتانے باواجیتوپراپنے حکم نامے کوتسلیم کرانے کےلئے دباﺅڈالا۔اس وقت جاگیرداری نظام تھااورعام طورپرکسان بطورسماجی گروہ حکومت کے تئیں وفادارتھے۔قدیم اوروسطی ہندوستان کی سماجی تشکیل میں کسانوں کافیصلے لینے کے عمل میں کوئی عمل دخل نہ تھا،اس لیے بیر سنگھ مہتہ نے کسانوں کے تئیں اپنے رخ میں رتی بھربھی تبدیلی نہ کی ۔ باواجیتونے بیرسنگھ مہتہ سے گذارش کی کہ وہ پرانے معاہدے کے تحت ہی اپناحصہ حاصل کرے مگرمہتہ نے باواجیتوکی گذارش نہ مانی۔باواجیتو نے بیرسنگھ مہتہ کوسمجھانے کی کافی کوشش کی اورکہاکہ اس نے سخت محنت کرکے یہ شاندارفصل اُگائی ہے لہذاوہ نئے معاہدے کے مطابق لینڈریونیوادانہیں کرے گا۔باواجیتونے کہاکہ زیادہ فصل رکھنے کاحق وہ خودہے کیونکہ اس نے کھیتوں میں سخت محنت کی ہے ۔لیکن بیرسنگھ مہتانے باواجیتوکے جذبات کونہ سمجھااوراس کی بات نہ مانی اورباواجیتوکونئے معائدے پردستخط کرنے کےلئے کہا۔باواجیتومہتاکے دباﺅمیں بالکل نہ آیا۔باواجیتونے بیرسنگھ مہتا سے کہاکہ اگراس نے اس پرزیادہ دباﺅڈالاتووہ اپنی جان کی قربانی دے دے گا۔پھر بیرسنگھ مہتانے نئے معاہدے کوتسلیم کرانے کےلئے مزیددباﺅڈالااوراپنے سپاہیوں کوحکم دیاکہ وہ زبردستی باواجیتوکی فصل کواُٹھالے۔جب بیرسنگھ اپنے آدمیوں کے ساتھ باواجیتوکے گاﺅں جھڑی پہنچاتواس نے باواجیتوسے کہاکہ وہ معاہدے سے زیادہ فصل دے ،اورتین چوتھائی حصہ دے اورایک حصہ اپنے پاس رکھے۔اس پرباواجیتونے کہاکہ وہ ایسانہیں ہونے دے گااس کےلئے چاہے اسے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔باواجیتواپنی فصل پرچڑھ کربیٹھ گیااورجب اس نے بیرسنگھ مہتاکے مظالم کے سامنے اپنے آپ کوبے بس پایاتواس نے بیرمہتاسنگھ کے مظالم کاپردہ فاش کرنے کےلئے جان کی قربانی دینے کافیصلہ کرلیا۔باواجیتونے اپنے آ پ کودرانتی (کٹار)کے ساتھ شہید کردیا،اس کاخون فصل پربہا۔کہاجاتاہے کہ باواجیتوکی ایک بیٹی کوڑی بوابھی تھی۔اس کوجب اپنے باپ کی موت کی خبرہوئی تووہ ذہنی تناﺅکی شکارہوگئی اوراس نے اپنے والد کی موت کوسماجی ۔سیاسی ناانصافی قراردیا۔کوڑی بوانے جاگیردارانہ نظام اوربیرسنگھ مہتاپرلعنت بھیجی اورخوب کوسا۔اس نے مہتابیرسنگھ کے ظلم کیخلاف لڑنے کافیصلہ لیااورخودکوہلاک کرکے بیرمہتاسنگھ کے مظالم کیخلاف اپنااحتجاج درج کیا۔باواجیتوکی اس عظیم قربانی کے سلسلہ میں جھڑی کے مقام پرباواجیتوکی سمادھی بنائی گئی ہے ۔بڑے جوش وجذبے کے ساتھ منعقدہوئے جھڑی میلہ میں آنے والے عقیدت مندوں کوتمام ترسہولیات میسرکرانے کےلئے ضلع انتظامیہ کی جانب سے تمام طرح اقدامات اُٹھائے گئے ہیں ۔مورخہ 6 نومبرکومنعقدہوئے جھڑی میلہ کے میلہ آفیسرجھڑی سنیناشرماکے مطابق بجلی ،پانی ،صفائی کے خاطرخواہ انتظامات کیے گئے ہیں اورمیلے میںامن وامان کوبنائے رکھنے کےلئے 500 سے زیادہ پولیس اہلکاروں اورایس ڈی آرایف کی خصوصی ٹیم کوتعینات کیاگیاہے۔میلہ آفیسرکے مطابق سوچھ بھارت ابھیان کے تحت صفائی پرخصوصی توجہ دی گئی ہے اس کے لیے 800ٹائلیٹ اور8 عارضی باتھ روم شرائن کے پاس بھی قائم کیے گئے ہیں اوران کی صفائی کابھرپورانتظام رکھنے کےلئے رضاکاروں کی تعیناتی بھی کی گئی ہے۔اس کے علاوہ 150 کے قریب گاڑیاں بس سٹینڈسے جھڑی تک عقیدت مندوں کوپہنچانے کےلئے لگائی گئی ہیں۔اس میلے میں آرٹ اینڈکرافٹس،ہائی برڈپھلوںاورسبزیوں کی نمائش کے علاوہ میجک شو،سرکس ،موت کاکنواں، مختلف سرکاری محکموں مثلاًاگریکلچر،ہارٹیکلچر،سیری کلچر،رورل ڈیولپمنٹ،ہینڈی کرافٹس، انشورنس کمپنیوں ،ڈائریکٹوریٹ آف ایڈورٹائزنگ اینڈویژول پبلسٹی وزارت اطلاعات ونشریات نئی دہلی وغیرہ کی جانب سے لگائے گئے بیداری کیمپ لوگوں کی توجہ کامرکزہیں۔جبکہ جموں کے مشہورڈرامہ کلب نٹرنگ نے اپنامشہورڈرامہ ”باواجیتو“کے دوشوکیے جسے لاکھوں لوگوں نے نہ صرف دیکھابلکہ خوب سراہا۔اس کے علاوہ میلے میں کسانوں سے متعلق تمام تراوزار،مٹھائیوں ،چوڑیوں ،کپڑوں،کھلونوں،باواجیتوکی سی ڈیزاورکھیلوں سے متعلق سامان کی دکانیں بھی سجائی گئی ہیں۔جھڑی کے گردونواح میں گنے (Sugar cane)کی فصل کافی اچھی ہوتی ہے اورمقامی کسانوں کی طرف سے گنے کے سٹال بھی لگاتے ہیں جنھیں میلے میں آئے لوگ خوشی خوشی خریدکرگھروں کولیجاتے ہیں۔لوگ میلے میں باواجیتوکی زندگی پرمبنی لوک گیتوں”کارکوں“کوبھی سنتے ہیں اوران کاگن گان کرتے ہیں اورباواجیتو کی سمادھی پرپھول چڑھاکراورماتھاٹیک کرانہیں خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں ۔اب تک 4لاکھ سے زائدعقیدت مندمیلے میں شرکت کرچکے ہیںتوقع ہے کہ میلے کے اختتام تک 6لاکھ کے قریب زائرین جھڑی میلے میں شرکت کریں گے۔اب تک تین لاکھ سے زائدعقیدت مندباواکے تالاب میں اشنان بھی کرچکے ہیں ۔عقیدت مندوں کامانناہے کہ اس تالاب کاپانی اپنے اندرشفایابی کی تاثیررکھتاہے ۔باواجیتوکی عظیم قربانی کی یادمیں منایاجانے والاجھڑی میلہ کسانوں میں ایک الگ طرح کاجو ش لیکرآتاہے اورکسانوں میں اپنے حقوق کےلئے لڑنے کےلئے تحریک بھی بخشتاہے۔ آج کسانوں کوجوحقوق ملے ہیں ان میں باواجیتوکی قربانی کابھی اہم رول رہاہے۔ ریاستی اورمرکزی سرکاروں کی طرف سے کسانوں کی بہبودکےلئے مختلف سکیمیں چلائی جارہی ہیں لیکن اب بھی بہت سے علاقوں میں کسانوں کےلئے سہولیات ناکافی ہیں اورکسانوں کوپور ے حقوق حاصل نہیں ہیں اس لیے آج بھی کسانوں کواپنے حقوق کےلئے منظم جدوجہدکرنے کی ضرورت ہے۔ باواجیتوکی قربانی نہ صرف کسانوں کوبلکہ ہرشخص کویہ درس دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف آوازبلندکرنے سے گریزنہیں کیاجاناچاہیئے اوراپنے حقوق کوحاصل کرنے کےلئے جنگ لڑنے سے پیچھے نہیں ہٹناچاہیئے چاہے حقوق کےلئے جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ جھڑی میلہ ہرسال آتاہے اورچلاجاتاہے ۔جھڑی میلہ روایت بن کررہ گیاہے۔کسانوں کوآج بھی بے پناہ مشکلات کاسامناکرناپڑرہاہے مگرباواجیتوجیساجذبہ ایثاررکھنے والے کسان موجودہ دورمیں کسانوں کے حقوق کی جدوجہدکرنے کےلئے سامنے نہ آرہے ہیں جس کی وجہ سے کسان سرکاراورسرمایہ داروں کے مظالم کے شکارہیں۔کسانوں کوچاہیئے کہ وہ باواجیتوکی قربانی کویادکرتے ہوئے اپنے حقوق کےلئے منظم جدوجہدکاآغازکریںاورکسانوں کےلئے مرکزی اورریاستی سرکاروں کی جانب سے شروع کی گئی سکیموں کافائدہ حاصل کریں ۔کسانوں کوچاہیئے کہ وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑیں،کسانوں کویہ دھیان میں رکھناچاہیئے جس وقت باواجیتوشہیدہوئے اُس وقت نہ ہی کسانوں کی بہبودکےلئے سکیمیں تھیں،نہ قانون بلکہ ظالمانہ جاگیردارانہ نظام تھااس دورمیں اپنے حقوق کےلئے لڑی گئی جنگ سے اگراُس وقت کے کسانوں کوفائدہ پہنچاتوآج کے کسان اگرقوانین،سکیموں اورجمہوری نظام حکومت ہونے کے باوجوداگراپنے حقوق کےلئے جنگ لڑکرحقوق حاصل نہ کریں گے تواس کی ذمہ داری کسان طبقہ پرہی عائدہوگی۔کسانوں کوچاہیئے کہ وہ باواجیتوکوصحیح معنوں میں خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے بلاجھجک اوربلاخوف اپنے حقوق کےلئے جنگ لڑیں ،راقم کویقین کامل ہے کہ کسان اگرآج کے دورمیں جدوجہدکاآغازکریں گے تووہ دِن دورنہیں ہوگاجب کسان اپنے حقوق کے حصول کی جنگ میں فتح یاب ہوں گے ۔
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53323 views Ehsan na jitlana............. View More