پيغمبر اكرم (ص) كى بخشش و عطا اور اس کے ثمرات

دين اسلام ميں جس صفت اور خصلت كى بڑى تعريف كى گئی ہے اور معصومين (ع) كے اقوال ميں جس پر بڑا زور ديا گيا ہے وہ جود و سخا كى صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنيا سے عدم رغبت كا نتيجہ ہوا كرتى ہے اور يہ بات ہم كو اچھى طرح معلوم ہے كہ انبياء كرام (ع) سب سے بڑے زاہد اور دنيا سے كنارہ كشى اختيار كرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت كى صفت بھى زہد كے نتيجہ كے طور پر ان كى ايك علامت اور خصوصيت شمار كى جاتى ہے _
اس خصوصيت كا اعلي درجہ يعنى ايثار تمام انبياء (ع) خصوصاً پيغمبر (ص) كى ذات گرامى ميں ملاحظہ كيا جاسكتا ہے _
آنحضرت (ص) نے فرمايا :
''ما جبل اللہ اولياءہ الا على السخا ء و حسن الخلق''
سخاوت اور حسن خلق كى سرشت كے بغير خدا نے اپنے اولياء كو پيدا نہيں كيا ہے _
سخاوت كى تعريف :
سخاوت يعنى مناسب انداز ميں اس طرح فائدہ پہنچانا كہ اس سے كسى غرض كى بونہ آتى ہو اور نہ اس كے عوض كسى چيز كا تقاضا ہو
اسى معنى ميں سخی مطلق صرف خدا كى ذات ہے جس كى بخشش غرض مندى پر مبنى نہيں ہے انبياء (ع) خدا '' جن كے قافلہ سالار حضرت رسول اكرم (ص) ہيں جو كہ خدا كے نزديك سب سے زيادہ مقرب اور اخلاق الہى سے مزين ہيں'' سخاوت ميں تمام انسانوں سے نمايان حيثيت كے مالك ہيں _
علماء اخلاق نے نفس كے ملكات اور صفات كو تقسيم كرتے ہوئے سخاوت كو بخل كا مد مقابل قرار ديا ہے اس بنا پر سخاوت كو اچھى طرح پہچاننے كے لئے اس كى ضد كو بھى پہچاننا لازمى ہے _
مرحوم نراقى تحرير فرماتے ہيں :'' البخل ہو الامساك حيث ينبغى البذل كما ان الاسراف ہو البذل حيث ينبغى الامساك و كلا ہما مذمومان و المحمود ہو الوسط و ہو الجود و السخا ء'' بخشش كى جگہ پر بخشش و عطا نہ كرنا بخل ہے اور جہاں بخشش كى جگہ نہيں ہے وہاں بخشش و عطا سے كام لينا اسراف ہے يہ دونوں باتيں ناپسنديدہ ميں ان ميں سے نيك صفت وہ ہے جو درميانى ہے اور وہ ہے جودوسخا_
پيغمبر اكرم (ص) كو مخاطب كرتے ہوئے قرآن نے كہا ہے :
''لا تجعل يدك مغلولة الى عنقك و لا تبسطہا كل البسط فتقعد ملوما محسورا ''
اپنے ہاتھوں كو لوگوں پر احسان كرنے ميں نہ تو بالكل بندھا ہوا ركھيں اور نہ بہت كھلا ہوا ان ميں سے دونوں باتيں مذمت و حسرت كے ساتھ بيٹھے كا باعث ہيں _
اپنے اچھے بندوں كى صفت بيان كرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :
''و الذين اذا انفقوا لم يسرفوا و لم يقتروا و كان بين ذالك قواما''
اور وہ لوگ جو مسكينوں پر انفاق كرتے وقت اسراف نہيں كرتے اور نہ بخل سے كام ليتے ہيں بلكہ احسان ميں ميانہ رو ہوتے ہيں _
مگر صرف انہيں باتوں سے سخاوت متحقق نہيں ہوتى بلكہ دل كا بھى ساتھ ہونا ضرورى ہے مرحوم نراقى لكھتے ہيں : ''و لا يكفى فى تحقق الجود و السخا ان يفعل
ذلك بالجوارح ما لم يكن قلبہ طيبا غير منازع لہ فيہ'' سخاوت كے تحقق كيلئے صرف سخاوت كرنا كافى نہيں ہے بلكہ دل كا بھى اس كام پر راضى ہونا اور نزاع نہ كرنا ضرورى ہے _
سخاوت كى اہميت :
اسلام كى نظر ميں سخاوت ايك بہترين اور قابل تعريف صفت ہے اس كى بہت تاكيد بھى كى گئي ہے نمونہ كے طور پر اس كى قدر و قيمت كے سلسلہ ميں رسول خدا (ص) كے چند اقوال ملاحظہ فرمائيں_
''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانہا متدلية على الارض فمن اخذ منہا غصنا قادہ ذالك الغصن الى الجنة ''
سخاوت جنت كا ايك ايسا درخت ہے جس كى شاخيں زمين پر جھكى ہوئي ہيں جو اس شاخ كو پكڑلے وہ شاخ اسے جنت تك پہنچا دے گى _
قال جبرئيل: قال اللہ تعالي : ان ہذا دين ارتضيتہ لنفسى و لن يصلحہ الا السخاء و حسن الخلق فاكرموہ بہما ما استطعم '
رسول خدا (ص) نے جبرئيل سے اور جبرئيل نے خدا سے نقل كيا ہے كہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ايك ايسا دين ہے جس كو ميں نے اپنے ليئے منتخب كر ليا ہے اس ميں جود و سخا اور حسن خلق كے بغير بھلائي نہيں ہے پس اس كو ان دو چيزوں كے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تك ہوسكے عزيز ركھو _
''تجافوا عن ذنب السخى فان اللہ آخذ بيدہ كلما عثر'' سخى كے گناہوں كو نظر انداز كردو كہ خدا ( اس كى سخاوت كى وجہ سے ) لغزشوں سے اس كے ہاتھ روك ديتا ہے _
سخاوت كے آثار
خدا كى نظر ميں سخاوت ايسى محبوب چيز ہے كہ بہت سى جگہوں پر اس نے سخاوت كى وجہ سے پيغمبر اكرم (ص) كفار كے ساتھ مدارات كا حكم ديا ہے_
1 _ سخی کی وجہ سے پیغمبر اسلام کا غصہ کم ہو گیا
امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے كہ يمن سے ايك وفدآنحضرت (ص) سے ملاقات كيلئے آيا ان ميں ايك ايسا بھى شخص تھا جو پيغمبر (ص) كے ساتھ بڑى باتيں اور جدال كرنے والا شخص تھا اس نے كچھ ايسى باتيں كيں كہ غصہ كى وجہ سے آپ (ص) كے ابرو اور چہرہ سے پسينہ ٹپكنے لگا _
اس وقت جبرئيل نازل ہوئے اور انہوں نے كہا كہ خدا نے آپ(ص) كو سلام كہا ہے اور ارشاد فرمايا: كہ يہ شخص ايك سخى انسان ہے جو لوگوں كو كھانا كھلاتا ہے _ يہ بات سن كر پيغمبر (ص) كا غصہ كم ہوگيا اس شخص كى طرف مخاطب ہو كر آپ (ص) نے فرمايا : اگر جبرئيل نے مجھ كو يہ خبر نہ دى ہوتى كہ تو ايك سخى انسان ہے تو ميں تيرے ساتھ بڑا سخت رويہ اختيار كرتا ايسا رويہ جس كى بنا پر تودوسروں كے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _
اس شخص نے كہا : كہ كيا آپ (ص) كا خدا سخاوت كو پسند كرتا ہے ؟ حضرت نے فرمايا : ہاں ، اس شخص نے يہ سن كے كلمہ شہادتيں زبان پر جارى كيا اور كہا، اس ذات كى قسم جس نے آپ (ص) كو حق كے ساتھ مبعوث كيا ہے ميں نے آج تك كسى كو اپنے مال سے محروم نہيں كيا ہے
2_سخاوت روزى ميں اضافہ كا سبب ہے :
مسلمانوں ميں سخاوت كى بنيادى وجہ يہ ہے كہ وہ روزى كے معاملہ ميں خدا پر توكل كرتے ہيں جو خدا كو رازق مانتا ہے اور اس بات كا معتقد ہے كہ اس كى روزى بندہ تك ضرور پہنچے گى وہ بخشش و عطا سے انكار نہيں كرتا اس لئے كہ اس كو يہ معلوم ہے كہ خداوند عالم اس كو بھى بے سہارا نہيں چھوڑ سكتا _
انفاق اور بخشش سے نعمتوں ميں اضافہ ہوتا ہے جيسا كہ پيغمبر (ص) نے معراج كے واقعات بتاتے ہوئے اس حقيقت كى طرف اشارہ كيا ہے_
و رايت ملكين يناديان فى السماء احدہما يقول : اللہم اعط كل منفق خلفا و الاخر يقول : اللہم اعط كل ممسك تلفا''(1)
ميں نے آسمان پر دو فرشتوں كو آواز ديتے ہوئے ديكھا ان ميں سے ايك كہہ رہا تھا خدايا ہر انفاق كرنے والے كو اس كا عوض عطا كر _ دوسرا كہہ رہا تھا ہر بخيل كے مال كو گھٹادے _
دل سے دنيا كى محبت كو نكالنا :
بخل كے مد مقابل جو صفت ہے اس كا نام سخاوت ہے _ بخل كا سرچشمہ دنيا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت كا سب سے اہم نتيجہ يہ ہے كہ اس سے انسان كے اندر دنيا كى محبت ختم ہوجاتى ہے _ اس كے دل سے مال كى محبت نكل جاتى ہے اور اس جگہ حقيقى محبوب كا عشق سماجاتا ہے _
اصحاب كى روايت كے مطابق پيغمبر (ص) كى سخاوت
جناب جابر بيان كرتے ہيں :
''ما سءل رسول اللہ شيءا قط فقال : لا''(2)
رسول خدا (ص) سے جب كسى چيز كا سوال كيا گيا تو آپ (ص) نے '' نہيں '' نہيں فرمايا _
اميرالمؤمنين (ع) رسول خدا (ص) كے بارے ميں ہميشہ فرمايا كرتے تھے :

كان اجود الناس كفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لہجةو اوفاہم ذمة و الينہم عريكھة و اكرمہم عشيرة من راہ بديہة ہابہ و من خالطہ معرفة احبہ لم ارقبلہ و بعدہ مثلہ ''
بخشش و عطا ميں آپ (ص) كے ہاتھ سب سے زيادہ كھلے ہوئے تھے_ شجاعت ميں آپ (ص) كا سينہ سب سے زيادہ كشادہ تھا ، آپ كى زبان سب سے زيادہ سچى تھى ، وفائے عہد كى صفت آپ (ص) ميں سب سے زيادہ موجود تھى ، تمام انسانوں سے زيادہ نرم عادت كے مالك تھے اور آپ (ص) كا خاندان تمام خاندانوں سے زيادہ بزرگ تھا ، آپ كو جو ديكھتا تھا اسكے اوپر ہيبت طارى ہوجاتى تھى اور جب كوئي معرفت كى غرض سے آپ (ص) كے ساتھ بيٹھتا تھا وہ اپنے دل ميں آپ (ص) كى محبت ليكر اٹھتا تھا _ ميں نے آپ(ص) سے پہلے يا آپ كے بعد كسى كو بھى آپ (ص) جيسا نہيں پايا _
رسول (ص) مقبول كى يہ صفت تھى كہ آپ(ص) كو جو بھى ملتا تھا وہ عطا كرديتے تھے اپنے لئے كوئي چيز بچاكر نہيں ركھتے تھے_ آپ (ص) كے لئے نوے ہزار درہم لايا گيا آپ(ص) نے ان درہموں كو تقسيم كرديا _ آپ (ص) نے كبھى كسى ساءل كو واپس نہيں كيا جب تك اسے فارغ نہيں كيا ۔
مریم رباب
About the Author: مریم رباب Read More Articles by مریم رباب: 5 Articles with 4074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.