کنویں کا مینڈک

ایک مرتبہ ایک مچھلی طوفانی ریلے میں بہہ کر قریب کے گاؤں کے ایک کنویں میں جا گری وہاں اس کی ملاقات ایک کنویں کے مینڈک سے ہو گئی ،کنواں اگر چہ کافی بڑا تھا مگر سمندر کی وسعتوں کے آگے اس کی کیا حیثیت تھی ،مچھلی کچھ دن اس کنویں میں رہی تو اس کا دم گھٹنے لگا ،اس نے مینڈک سے پوچھا تمہا را اس تنک ماحول میں دم نہیں گھٹتا؟میں تو جہاں رہتی ہوں وہ اس سے بہت بڑا ہے۔مینڈک نے کنویں میں ایک چھوٹا سے چکر لگایااور بولا کیا جہاں تم رہتی ہو وہ اس سے بڑا ہے؟مچھلی بولی ارے نہیں بھائی وہ اس سے بہت بڑا ہے ! مینڈک نے کہا اچھا اس نے اس سے بڑا چکر لگایا اور پوچھا کہ اس سے بھی بڑا ہے ، مچھلی بولی وہ بہت بڑا ہے، اس کو سمندر کہتے ہیں،تم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ، مینڈک نے کہا اچھا ۔اس نے ایک اور بڑا چکر لگایا اور تھکا ہوا مچھلی کے پاس آیا کہ اس سے بھی بڑا مچھلی نے کہا ہاں، مینڈک نے ایک اور بڑا چکر لگایا اور پوچھا کہ اب بتاؤ، مچھلی سر پٹا کر بولی سمند ر تمہاری سوچ اور اندازے سے بھی بڑا ہے اس کا احاطہ کرنا بھی نا ممکن ہے اس میں کیسی کیسی مخلوق رہتی ہے تمہیں نہیں پتہ۔ اس میں لاکھوں بڑی بڑی مچھلیاں ،مگرمچھ، آبی جانور، رہتے ہیں اس کے اوپربڑے بڑے جہاز ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے آتے جاتے ہیں،یہ ہزاروں میل تک پھیلا ہوتا ہے۔مچھلی نے اپنی بات ختم کی تو مینڈک نے طنزیہ قہقہہ لگایا اور بولامیں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ سمندر اس کنویں سے بڑا ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ایک کہاوت بنی ہوئی ہے کہ کنویں کا مینڈک،یہ اس شخص ،یا ایسی سوچ رکھنے والے شخص کے لئے مثال دی جاتی ہے جس کو آتا جاتا کچھ نہیں مگر وہ خود کو بہت کچھ سمجھتا ہے، ہمارے ہاں ایسے افراد بہت پائے جاتے ہیں جن کے سامنے کتنی ہی اچھی چیز کا ذکر کرو، ان کے سامنے جتنی مرضی دلیلیں دے دو وہ اپنے آپ کو بہت ہوشہار اور چلاک سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ کوئی نہیں جاتنا۔بہت سے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جن کو کہانی سناو انہوں نے سنی نہیں ہوتی ،بات کرتے ہوئے کہیں، احادیث، یا قرانی ترجمے کا ذکر آجائے تو وہ یوں کہتے ہیں ہاں ہاں میں نے سنا ہے میں نے یہ سب پڑھا ہے، جب کہ حقیقت میں ان کو اس کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔کنویں کے مینڈک ہمارے معاشرے میں ہر ایک میدان میں پائے جاتے ہیں،ان کا تعلق کسی بھی خاندان، برادری، شہر، علاقہ، گاؤں، ملک،سے ہو سکتا ہے۔یہ کوئی انوکھی نسل نہیں ہوتی ہر دوسرا آدمی خود کو بہت بڑا سمجھتا ہے ،دراصل وہ سمندر کی وسعتوں سے واقف نہیں ہوتا۔ ہماری عملی زندگی میں یہی ہوتا ہے ہر شخص دنیا کو اپنے ہی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے سب ہی نے الگ الگ رنگوں کے چشمے اپنی انکھوں پر پہن رکھے ہیں ۔اور اسی سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ حدیث مبارکہ کے مطابق اصل فطرت پر ہوتا ہے ،اس کے والدین، اساتذہ، اور ماحول اس کو مختلف، سوچ، خیال، تعصبات میں مبتلا کر دیتے ہیں ،جب وہ دنیا کو عینک کے انہی رنگین شیشوں سے دیکھتا ہے تو اسے دنیا اپنی عینک کے شیشوں کے رنگ کی نظر آتی ہے،اور وہ اسے ہی خیال کر لیتا ہے کہ سارا جہاں اسی رنگ کا ہے، اگر وہ اپنی عینک اتار کر دیکھیں تو اسے کچھ الگ نظر آئے مگر سوچ اور خیال کی عینک ایسی ہوتی ہے جو اتارنا مشکل ہوتی ہے کیونکہ اتارنے سے حقیقت نظر آتی ہے جب کہ کوئی بھی حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ حق کو پہچاننے کے لئے حقیقت پسند بننا بہت ضروری ہے اس کے لئے لازم ہے کہ انسان اپنے دل و دماغ کے تمام دریچے کھول دے۔ وہ نفرتوں اور دشمنیوں سے آزاد ہو جائے، وہ بے لوث اور مخلص ہو جائے،جب تک انسان نفرت اور انتقام کی سوچ میں خود کو ڈالے رکھتا ہے تو اسے سوائے اپنے آپ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا،یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سچ اور حقیقت جاننے کے باوجود بھی لوگ ماننے کو تیار نہیں ہوتے،کیونکہ کنویں کا مینڈک کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کرتا کہ وہ کنویں میں رہتا ہے اس کی نظر میں وہی سمندر ہے اور وہ اس کا مالک ہے اس سے اگے کچھ بھی نہیں،یہ وہ تنگ نظر ی اور محدود سوچ ہے جو انسان کو اپنے ہی دائرے میں باندھ کر رکھ دیتی ہے ،ایسی محدود سوچ والے انسان اس معاشرے میں اپنے لئے تنگی کا باعث تو ہوتے ہیں مگر وہ معاشرے میں دوسرے انسانوں کے لئے بھی عذاب بنے ہوتے ہیں،کنویں کا مینڈک اصل میں اس تنک سوچ اور محدود ذہن رکھنے والوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو دوسروں کو حقیر اور خود کو اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہیں۔ان کے خیال میں ہوتا ہے کہ جو کچھ ہیں وہی ہیں بس باقی سب جو ان کے سامنے بے کار ہے۔نالائق ہیں، جو ڈگری ان کے پاس ہے وہ کسی کے پاس نہیں۔ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم حقیقت پسند نہیں اگر ہم سچ کو تسلیم کر لیں تو ہماری زندگی کے آدھے جھگڑے ختم ہو جائیں۔ہم بے جا ضد لگانا چھوڑ دیں، الٹی سیدھی باتوں پر بحث و تقرار کرنا چھوڑ دیں۔اپنے کنویں سے نکلنے سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔بس ایک بار کوشش کر کے دیکھیں پھر آپ کو خود اندازہ ہوگا کہ آپ نے زندگی کہاں گزاری اور کیوں برباد کی۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69329 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.