اردو کا نعتیہ ادب اور ڈاکٹر عزیز احسن کا تنقیدی شعور

’’اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر عزیز احسن کا پی ایچ ڈی (اردو) کا مقالہ ہے جو کتابی شکل میں مارچ ۲۰۱۳ء میں منظر عام پر آیا۔اسے نعت ریسرچ سنٹر کراچی نے بزم یوسفی کراچی کے تعاون سے شایع کیا ہے۔عزیز احسن نے انتساب تمام اساتذہ کے نام کیا ہے جو کسی بھی عظیم شاگرد کی عظمت کی دلیل ہے کہ ’باادب با مراد‘۔عزیز احسن کا تحریر کرنا ہے کہ
شہر ابیات میں خامے کا سفر نازک ہے
مدح سرکارؐ دو عالم کا ہنر نازک ہے

تاہم اس ہنر کو کمال احتیاط سے عزیز احسن نے برتا ہے۔تقدیم کے مطابق ۱۹۸۱ء میں پہلی بار عزیز نے ایک نعتیہ انتخاب ’جواہر النعت‘ کے نام سے مرتب کیا۔۱۹۸۳ء میں ’پاکستان میں نعت گوئی‘ شایع ہوا۔۱۹۹۴ء میں جب عزیز احسن کو حج کی سعادت نصیب ہوئی تو ان کی یہ دعا قبول ہو گئی کہ دین کی خدمت کے لیے ان کا قلم مختص رہے۔اپریل ۱۹۹۵ء میں ’نعت رنگ‘ کا پہلا شمارہ منصہ شہود پر آیا اور سید صبیح رحمانی کے ساتھ نعتیہ ادب کے حوالے سے انتقادی سرگرمیاں شروع کیں جو ہنوز جاری ہیں۔

عزیز احسن شاعر ہیں اور صرف نعت لکھتے ہیں۔زندگی کے سات عشرے گزار چکے ہیں اور ماشاء اﷲ پاکستان کے ہم عمر ہیں۔وہ ان سکالرز میں سے ہیں جو ڈگری کے لیے نہیں پڑھتے بلکہ شوق کے لیے اپنا علمی سفر جاری رکھتے ہیں۔انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد پی ایچ ڈی کی۔ماشا ء اﷲ ان کے تین نعتیہ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔انھوں نے پیش گفتار میں نعت پر کیے گئے کام کی تفصیل بیان کی ہے جس کے مطابق تاحال نعت پر تنقید کے حوالے سے دو مقالے سامنے آئے ہیں جن میں ڈاکٹر عاصی کرنالی اور ڈاکٹر افضال احمد کے مقالے شامل ہیں۔ان دو مقالات میں نعت پر تنقید کے موضوع پر کچھ روشنی ڈالی گی ہے۔

محسن کاکوری سے قبل کسی شاعر نے نعتیہ شاعری میں ایسا کمال فن حاصل نہیں کیا کہ ناقدین اس کی شاعری کو تنقیدی مطالعے کے لیے درخوراعتنا گردانتے۔محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری پر تنقید شرعی حوالوں سے کسی نعت کے متن کو پرکھنے کی پہلی سنجیدہ کوشش تھی۔انہی پر محمد حسن عسکری نے ۱۹۵۹ء میں تنقیدی مضمون لکھا۔اس کے بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب ’اردو کی نعتیہ شاعری‘ ۱۹۷۴ء مں شایع ہوئی۔یہ پاکستان میں اپنے موضوع کے اعتبار سے اولین کوشش قرار پائی۔پاکستان میں اسی(۱۹۸۰ء) کی دھائی میں نعتیہ شاعری کو فروغ ملا اور کئی نعتیہ انتخاب سامنے آئے۔

عزیز احسن نے اپنی کسی تحریر کا اقتباس اور کوئی شعر اس تحقیقی مقالے میں اس لیے شامل نہیں کیا کہ بقول ان کے یہ ’مقالہ نگاری کے اصولوں کے خلاف ہے‘۔میری ذاتی رائے ہے کہ اپنی تخلیقات اور تنقیدی کتابوں کو شامل تحقیق کرنا چاہیے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ان کو خود تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں اور دوسروں کو تنقید کرنے کا ایک موقع فراہم کرتے ہیں۔اس طرح آپ کے فن اور تخلیق میں مزید بہتری آتی ہے۔عزیز احسن کا تحریر کرنا ہے کہ ’نعت پر تنقید کے میدان میں مردان کار اس لیے قدم نہیں رکھتے کہ خوف فساد خلق اور نعت کے لیے شرعی اور شعری تقاضوں کا خوف دامن گیر رہتا ہے‘۔ان کا یہ احساس درست ہے۔

عزیز احسن نے مقالے کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔پہلا باب تنقید کے گردوگھومتا ہے۔دوسرے باب میں قرآن و سنت میں نعت کے متن کی صحت کے لیے جو اصولی اشارے پائے جاتے ہیں،ان کا ذکر ہے۔تیسرے باب میں فارسی اور اردو کے شعراء کا تنقیدی شعور منعکس کیا گیا ہے۔باب چہارم میں ان تحریروں کی جانچ پڑتال ہے جو نعتیہ شعری مجموعوں میں مقدمہ ، تقریظ یا دیباچوں کی شکل میں لکھی گئی تھیں۔باب پنجم میں نعتیہ انتخابوں اور تحقیقی مقالوں میں شامل تنقیدی آراء کا احوال ہے۔باب ششم میں ’نعت رنگ‘ اور دیگر کتابی سلسلوں ، مجلوں اور رسائل میں شایع ہونے والے تنقیدی مضامین کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔باب ہفتم نعتیہ شاعری کے حوالے سے وجود میں آنے والی تنقیدی کتب کا مطالعہ ہے اور باب ہشتم میں تنقید نعت کے چند نمونے پیش کرکے مدحت مصطفٰیؐ کے تخلیقی اور تنقیدی اصول متعین کیے گئے ہیں۔

عزیز احسن کا اظہار ہے کہ انھوں نے اپنی تحقیق کے دوران ان تحریروں پر زیادہ توجہ دی ہے جن میں ’کلیم ‘سے زیادہ ’کلام‘ پر گفتگو کی گئی تھی۔کیونکہ بقول ان کے تنقید کی بنیادی شرط ہی لکھے ہوئے حرف پر بات کرنے سے پوری ہوتی ہے۔مقالہ نگار نے مقالے میں چاروں تنقیدی اصول تقابل ، تجزیہ ، امتیاز اور تعیین قدر کو استعمال کیا ہے۔مذہبی شاعری میں معروضیت کے فقدان پر بھی عزیز احسن نے بات کی ہے اور ان کے مطابق اس کی تین وجوہات ہیں جن میں شاعر سے عقیدت ، موضوع کا احترام اور مسلکی شدت پسندی شامل ہیں۔ویسے ان میں تیسرا زیادہ خطرناک ہے اور اکثر فرقہ پرست اسی کو استعمال کرتے ہیں۔پاکستان جیسے عدم برداشت کے سماج میں معروضیت خواب و خیال ہی ہے۔

باب اول میں مقالہ نگار نے جہاں تنقید کی تعریف طے کرنے کی کوشش کی ہے وہیں اردو میں تنقید ی روایات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’تنقید کا مطالعہ پورے ادب کا مطالعہ ہے‘ اور ’متخیلہ کی حامل ہر تحریر ادب کے زمرے میں آئے گی‘۔یہ باب ایک اچھی collection ہے جس میں بے شمار اصطلاحات کی تعریفیں بھی دی گی ہیں۔عزیز احسن کا کہنا بجا ہے کہ ’اردو میں زیادہ صحیح لفظ نقد یا انتقاد ہے جس کا مفہوم پرکھنا یا جانچنا ہے اور ہر وہ شخص جو یہ خدمت انجام دیتا ہے اسے نقاد کہتے ہیں‘۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ تنقید اب غلط العوام ہو چکا ہے جسے محقق، نقاد اور ریسرچ سکالر بھی استعمال کرتے ہیں۔

عزیز نے الفاظ و محاورات،شعر اور شاعری پر بھی حوالوں سے بات کی ہے ۔اس میں ناسخ کی اردو کے لیے خدمات اور مرزا داغ دہلوی کے مقرر کردہ شعری معیارات اہم اور قابل غور ہیں۔اس باب کا اہم حصہ ’اردو نعتیہ ادب میں تنقیدی آراء کا جائزہ ‘ ہے۔عزیز احسن کے مطابق ڈاکٹر فرمان فتحپوری نے ’نکات الشعراء‘ سے ’آب حیات ‘ تک کل ۶۷ تذکروں کی فہرست فراہم کی ہے لیکن ان تذکروں میں بیشتر نے نعت گو شعراء کا ذکر نہیں کیا ہے۔اردو نعتیہ ادب کا حوالہ اردو ادب کے ابتدائی نقوش میں کمیاب ہے اور اس کی وجہ غزل ہے۔لیکن میں صرف اس ایک وجہ کو نہیں مانتا۔ہمارا سماج جوں جوں عمل سے دور ہوا ہے تو اس میں مرثیہ اور نعت نے عروج حاصل کیا ہے۔

عزیز احسن تحریر کرتے ہیں کہ ’اردو نعتیہ شاعری پر تنقیدی رائے دینے کا رواج اس لیے عام نہیں تھا کہ اردو میں نعتیہ شعری سرمایہ اتنا نہیں تھا کہ نقادوں کی توجہ اس طرف مبذول ہوتی‘۔باب دوم اور سوم کا اس مقالے کے عنوان کے ساتھ گہرا تعلق بنتا ہے۔اس کو اگر علیحدہ کردیا جائے تو بات مکمل نہیں ہوتی۔یہ پل کا کام بھی کررہا ہے اور یہ اس مقالے کو ایک فکری اور نظریاتی جہت بھی بخشتا ہے۔نعت کو قرآن اور حدیث سے جدا کیا ہی نہیں جاسکتا اور ان کے بغیر نعت بے جان ہے کیونکہ نعت کو فکری غذا انہی سے ملتی ہے۔عزیز کی اپنی شاعری قرآن اور حدیث سے باہر نہیں۔یہ دو ابواب ان کی نظریاتی یکسوئی کو بھی بیان کرتے ہیں۔

باب چہارم میں مقالہ نگار نے کچھ دلچسپ حقائق بھی بیان کیے ہیں۔اس باب میں انھوں نے کتب نعت میں دیباچوں اور تقاریظ کے تنقیدی معیار پر بات کی ہے۔ان میں ڈاکٹر خورشید حسن رضوی ، سحر انصاری ، ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی ، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی ،ڈاکٹر ارشادالحق قدوسی ، احمد ندیم قاسمی ، کلیم عاجز ، احسان دانش ، محمد ایوب، عاصی کرنالی اور راجا ظفرالحق کی تنقید ی آراء تقاریظ اور دیباچوں کی صورت میں سامنے لائی گی ہیں اور عزیز احسن نے ان تنقیدی آراء پر اپنی رائے بھی دی ہے۔اس باب کے دوسرے حصے میں ’کتب نعت میں مقدمات کی تنقیدی اہمیت‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس میں ’صحیفہء نور‘ کے نام سے لطیف اثر کے نعتیہ مجموعے پر ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی رائے لکھی ہے جو مقالہ نگار کے مطابق بے ربط ہے اور صدیقی صاحب کی نہیں لگتی۔ایسا ممکن ہے۔کیونکہ بہت سے لوگ خود ہی پیش لفظ یا پیش گفتار لکھ کر کسی بڑے آدمی کا نام لکھ دیتے ہیں تاکہ کتاب فروخت ہوسکے۔اور ان کو بھی کوئی اہمیت دے۔

اس باب کے اختتام پر مقالہ نگار کی رائے ہے کہ نعتیہ کتب میں شامل مقدمے ، دیباچے اور تقاریظ افراط وتفریط کا شکار ہو سکتی ہیں۔(میں تو کہتا ہوں کہ ’ہیں‘)۔اس لیے کسی شاعر کی تخلیقی کاوش کے بارے میں دی جانے والی آراء کو معروضی انداز میں پڑھنے اور محتاط طریقے سے کسی کتاب کے متن کو پرکھنے کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ہر کتاب کو شعری اور شرعی سطح پر پرکھنے کا عمل بہت زیادہ معروضیت کا متقاضی ہے۔عزیز احسن کا موقف صحیح ہے کیونکہ یہ ایک محقق کی سوچ ہے۔نعتیہ ادب دینی ادب ہے اور اس کو بہرحال شرعی حوالے سے ہی پرکھا جانا چاہیے۔صرف شعری حوالہ بھی درست نہیں کیونکہ نعت صرف ایک صنف سخن نہیں بلکہ اس کا ہمارے دین سے براہ راست تعلق بھی ہے۔

باب پنجم ۱۱۰ صفحات پر مشتمل ایک طویل باب ہے جو ’انتخاب ہائے نعت میں چھپنے والے مقدموں ، دیباچوں اور تحقیقی مقالوں میں تنقیدی آراء کے جائزے‘ پر مشتمل ہے۔ اس کے پہلے حصے میں ’انتخاب ہائے نعت میں شامل مقدموں اور دیباچوں کی تنقیدی نہج کا تعین‘ کیا گیا ہے۔۱۹۹۵ء تک ۲۸۵ چھوٹے بڑے نعتیہ انتخاب میں سے مقالہ نگار نے صرف دس کا انتخاب کرکے ان پر بحث کی ہے۔ان میں ۱۹۷۵ء کے ’خیر البشرؐ کے حضور میں‘ سے لے کر ۱۹۹۹ء تک کے ’مہکا مہکا حرف‘ شامل ہیں۔ان میں ’ارمغان نعت‘ از شفیق بریلوی ،’مخزن نعت‘ از محمد اقبال جاوید ، ’نعت کائنات‘ از راجا رشید محمود ، ’مستند نعتیہ کلام‘ از قاری محمد اسحاق ملتانی، ’جمال اندر جمال‘ از قمر وارثی ، ’انتخاب نعت‘ از عبدالغفور قمر ، ’شہر نعت‘ از آصف بشیر چشتی، ’ایوان نعت‘ از سید صبیح رحمانی شامل ہیں۔

باب پنجم کے دوسرے حصے میں نو تحقیقی مقالوں میں مختلف شعراء کے کلام پر دی جانے والی آراء کی تنقیدی اساس کا تعین کیا گیا ہے۔ان مقالات میں ’لکھنو کا دبستان شاعری‘ از ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی ، ’اردو کی نعتیہ شاعری ‘ از ڈاکٹر فرمان فتحپوری، ’اردو میں نعتیہ شاعری‘ از ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق، ’اردو میں نعت گوئی‘ از ڈاکٹر ریاض مجید ، ’اردو حمد ونعت پر فارسی روایت کا اثر‘ از ڈاکٹر عاصی کرنالی ، ’اردو نعت کے جدید رجحانات‘ از ڈاکٹر شوکت زریں چغتائی ،’اردو نعت کا ہیئتی مطالعہ‘ از ڈاکٹر افضال احمد انور ، ’اردو نعت گوئی اور فاضل بریلوی‘ از ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی ، ’مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری‘ از ڈاکٹر سراج احمد بستوی شامل ہیں۔ان میں بعض آراء اشعار پر بھی ہیں جو قابل توجہ ہیں۔

عاصی کرنالی کا یہ تحریر کرنا ہے کہ ’نعت گوئی میں تین رویے پائے جاتے ہیں۔حصول ثواب اور نجات طلبی کے لیے نعت کہنا، جذبہ عشق اور واردات قلبی کا بیان(عہد حاضر میں) اور حضورؐ کو ایک مثالی انسان کے طور پر پیش کرکے ان کے اتباع کی دعوت دینا۔عزیز احسن کے مطابق عاصی کرنالی پہلے محقق ہیں جنھوں نے اپنے مقالے میں نعت پر باقاعدہ تنقید کا باب باندھا۔عاصی کرنالی نے ’احد اور احمدؐ‘ میں تفریق نہ کرنے والوں کو بھی لائق تنقید گردانا ہے جو ایک درست موقف ہے۔انھوں نے نقاد کے لیے بھی کچھ معیارات مقرر کیے ہیں۔یہ کہ’ نقاد کو کبھی یہ طے نہیں کرنا چاہیے کہ جو کچھ اس نے لکھ دیا ہے وہ قطعی ہے،حرف آخر ہے ، قول فیصل ہے اور عدالتی فیصلہ ہے(ویسے عدالتی فیصلے کے خلاف بھی رٹ دائر کی جا سکتی ہے)۔ادب میں رائے ہوتی ہے ،محاکمہ نہیں۔نقاد کی رائے میں جھول اور خامی بھی ہوسکتی ہے۔اسے اختلاف رائے کو عالی ظرفی سے قبول کرنا چاہیے اور اپنی رائے پر نظرثانی کرلینی چاہیے۔تنقید کرتے وقت غصے اور جذبات پر قابو ہونا چاہیے‘۔ویسے جامعات میں بیٹھے نقادان فن اس کو کم ہی مانیں گے۔

عزیز احسن نے ڈاکٹر شوکت زریں کے مقالے کو ایک تنقیدی کاوش قرار دیا ہے۔شوکت زریں نے حالی کی مسدس کو جدید نعت کا پہلا نقش تسلیم کرکے نعتیہ موضوعات کی ہمہ رنگی کو جدید نعت کا بنیادی رویہ قرار دیا ہے۔اور علامہ اقبال کو دور جدید کے سب سے اہم اور ممتاز نعت گوکے طور پر پیش کیا ہے۔اس باب کے اختتام پر عزیز احسن تحریر کرتے ہیں کہ ان مقالات میں مقالہ نگاروں نے کلام سے زیادہ کلیم کے احوال پر زوردیا ہے۔تاہم محققین کی تنقیدی آراء میں تنقیدی بصیرت کا بھرپور اظہار ہوا ہے جس نے نعتیہ ادب میں خالص تنقید کے فروغ کی راہ ہموار کردی ہے۔ڈاکٹر شوکت زریں اورڈاکٹر افضال احمد کے مقالوں کے عنوانات بھی تنقیدی رجحان کی عکاسی کررہے ہیں۔اسی لیے ان مقالوں میں تنقیدی مواد زیادہ ہے۔

باب ششم مقالے کا سب سے طویل باب ہے جو ۱۳۲ صفحات پر محیط ہے۔اس باب میں عزیز احسن نے ’نعت رنگ‘ اور دیگر کتابی سلسلوں، مجلوں اور رسائل میں شائع ہونے والے تنقیدی مضامین کا جائزہ لیا ہے۔تاہم کچھ ہی رسائل پیش نظر رکھے جاسکتے تھے۔کیونکہ قیام پاکستان کے بعد شائع ہونے والے ایسے مجموعے اور مضامین ان گنت ہیں۔ان میں کچھ نقادان فن کی دلچسپ باتوں کو بھی عزیز احسن نے بیان کیا ہے۔جیسے شمیم احمد کا خیال ہے کہ ’قیام پاکستان کے بعد اس کے نصب العین کو پس پشت ڈال دیا گیا تو شعراء نعت کہنے کی طرف مائل ہوئے(حالانکہ حالی ،اقبال،ظفر،ماہر،محسن کاکوروی سب قیام پاکستان سے پہلے کے عظیم نعت کو شاعر ہیں)۔کیونکہ ان میں اپنے مرکز کی طرف لوٹ آنے کا جذبہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔(کاش ایسا ہوتا)

میری رائے میں (سب نہیں) اکثر شعراء نعت صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کہتے ہیں یا پھر اپنی دہریت کو چھپانے کے لیے۔یہ شعراء نعت کی فنی باریکیوں سے واقف ہی نہیں ہوتے۔’اردو میں نعتیہ شاعری کے سات سو سال‘ حمایت علی شاعر یکا ایک مضمون ہے جس کو عزیز نے شامل تحقیق کیا ہے۔(حیرت ہے کہ ۱۹۷۸ء میں اردو سات سو سال کی ہوگئی اور ہم کو معلوم ہی نہ ہوا)۔یہ کچھ درست نہیں لگتا۔شہزاد مجددی کا یہ کہنا بجا ہے کہ جو بات بھی حضورؐ کی ذات سے منسوب کی جائے اور تلمیح کی صورت میں جزو شعر بنے،وہ صد فی صد مستند ہو۔بدقسمتی سے اردو نعت میں غیرمحتاط شعراء نے بہت سی ایسی روایات کو تلمیحاتی سطح پر عام کروادیا ہے جن کی اصل یا تو اسرائیلیات کی من گھڑت حکایات ہیں یاگمراہ فرقوں کے موضوعات۔(یہ کام تو ہمارے علماء بھی کررہے ہیں۔جمعہ کے اردو خطبوں میں ایسے ہی واقعات پیش کیے جاتے ہیں جن کا آپؐ اور آپؐ کے لائے ہوئے قرآن اور احادیث سے کم ہی واسطہ ہوتا ہے۔حکایات یا کہانیاں ہوتی ہیں)

ڈاکٹر نگرامی پر عزیز احسن نے تنقید کی ہے جن کے مطابق علامہ اقبال کی رباعی’وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے‘ میں علامہ نے ’وہی اول وہی آخر‘حضورؐ کی ذات کو کہا ہے ۔مقالہ نگار کا تحریر کرنا ہے کہ ڈاکٹر نگرامی نے شعر کی تفہیم میں چوٹ کھائی ہے۔ان کو نظم کے اشعار اور رباعی کے مصرعوں تک کی پہچان نہیں ہے۔تاہم میری رائے میں ہم کو دین کے معاملے میں علامہ اقبال کا بھی دفاع نہیں کرنا چاہیے کہ دین میں جو غلط ہے وہ غلط ہوگا چاہے اس کو اقبال نے ہی کیوں نہ کہاہو۔حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ضعیف ہے،معروف نہیں۔

باب ہفتم مقالے کا دوسرا طویل ترین باب ہے۔یہ باب ’نعتیہ شاعری کے حوالے سے وجود میں آنے والی تنقیدی کتب کاجائزہ‘ لیتا ہے۔اس باب میں عزیز احسن نے کہیں دبے پاؤں اور کہیں ببانگ دہل تنقید کی ہے اور خوب کی ہے۔تنقید پر تنقید کا اپنا ہی مزا ہے۔جمیل نظر کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’ان کے لہجے میں تنقیدی حلم کے بجائے غیر منطقی سوچ سے پیدا ہونے والی تلخی ہے۔نقاد کو اعتراض کا حق تو ہے لیکن کسی شاعر کے کلام پر اصلاح دینے کا حق قطعی نہیں ہے‘۔لیکن میری رائے میں ہے اور کچھ شعراء اس سے سیکھتے بھی ہیں اور یہ کام ہے بہت مشکل۔اس لیے اس طرح کے نقادوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ صرف اعتراض نہیں کررہے بلکہ اصلاح بھی کر رہے ہیں اور وہ بھی مفت۔

امیر حسنین جلیسی کی تنقید کو عزیز احسن نے تنقیص قرار دیا ہے۔تاہم ان کی تاریخی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔اسی ضمن میں مقالہ نگار نے بھی کچھ اشعار پر اصلاح دے ہی دی ہے۔امین راحت چغتائی کے مضامین کو شامل تنقید کرتے ہوئے عزیز نے تحریر کیا ہے کہ انھوں نے ’لولاک لما خلقت الافلاک‘ والی حدیث پر جرح کی ہے اور شفاعت کے مسئلے کو بھی زیر بحث لایا ہے۔دونوں نازک مسئلے ہیں تاہم ان کو شامل تحقیق کرنا ضروری بھی تھا۔تحسین فراقی کا یہ جملہ خوب لکھا ہے کہ ’فارسی اور اردو نعت کا اکثر حصہ سراپا نگاری کی نذر ہوگیا‘۔منظر عافی کے حمد ونعت کہنے کے اصول بھی شامل مقالہ کیے ہیں جن کے مطابق’معرفت کے نام پر ٹھیٹ بازاری عاشقانہ موضوعات کو حمد ونعت کا موضوع ہرگز نہ بنائیں۔حضورؐ سے تقابل کرتے ہوئے کسی بھی اﷲ کے نبی کی توہین یا تنقیص سے اپنی زبان اور قلم کو روکیں۔کوئی بھی حمد یا نعت کہہ کر ایک مفتی یا شیخ الحدیث کو ضرور سنائیں۔اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ وہ عالم کسی فرقے سے نہ ہو۔

رئیس احمد نعمانی کے بارہ میں عزیز احسن نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ ’ان کی تحریر کسی نقاد کی تحریر کے بجائے کسی مبارزت طلب پہلوان کی تقریر لگتی ہے‘۔ڈاکٹر کشفی کے قرات کے عمل اور قاری کی نفسیاتی کیفیت پر بحث کو بھی عزیز احسن نے شامل تحقیق کیا ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ
ہوائیں ماری ماری پھر رہی ہیں
ترانقش کف پا ڈھونڈنے کو

نعت کا شعر ہے۔اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ابہام کیوں؟واضح طورپر نعت کے لیے علیحدہ نام،استعارے اور تشبیہات کیوں نہیں۔اس کو غزل زدہ کیوں بنایا جائے۔عزیز احسن کا بارتھ کا حوالہ بھی میرے نزدیک درست نہیں کہ ’ادب فی نفسہ ابہام سے لبریز ہے‘۔فرانسیسی ادب ہوگا۔اردو اور پھر خاص طور پر نعتیہ ادب ابہام سے لبریز ہے،نہ ہوگا۔اسی طرح حسرت موہانی کی غزل ’نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے‘ کو نعتیہ قرار دینا بھی غلط ہے۔اسی طرح فیض کی شاعری میں نعتیہ آہنگ کیوں تلاش کیا جائے جو شراب کے نشے میں دھت ہوکر کسی رسیلی محبوبہ کے لیے لکھے گے ہوں۔

’غالب اور ثنائے خواجہ‘ از سید صبیح رحمانی سے عزیز احسن نے یہ درست اخذ کیا کہ غالب کی نعتیہ شاعری فارسی میں ہے۔تاہم غالب کی اردو غزلوں میں نعتیہ رنگ تلاش کرنے فضول ہیں۔ان غزلوں کا پس منظر بھی دیکھ لیجیے گا اور ماحول بھی۔نجار علیک کا ’سوء ادب فی حسن ادب‘ اگرچہ ہندوستان کے لیے لکھا گیا تاہم مسلمان شعراء کو ہندو ادیبوں کو خوش کرنے اور اسلامی عقائد میں پیوند لگانے کے شوق میں دین و دنیا تباہ کرنے سے باز رہنے کا مشورہ صائب ہے۔نقد نعت اور پاس شریعت کے لیے عزیز احسن نے چار کتب کا انتخاب کرکے تمام مسائل کو زیر بحث لایا ہے اور یہ اس باب کا اہم حصہ ہے۔

باب ہشتم کو مقالے کا حاصل بھی کہا جاسکتا ہے جس کا عنوان ہے ’مذکورہ مباحث کی روشنی میں تنقید نعت کے مجوزہ اصول‘۔اس باب میں عزیز احسن نے مذکورہ مباحث کی روشنی میں نعت میں شعری معیار کی پرکھ کے اصول بھی بتائے ہیں۔ان معیارات میں الفاظ کا صحیح استعمال ،معانی، لغت،عروض،شعری جمالیات شامل ہیں۔شرعی معیارات کی پرکھ کے اصول میں علم بنیاد ہے۔ قرآن و حدیت و سیئر کا مطالعہ ضروری شرط ہے۔اسی سلسلہ میں مقالہ نگار نے موضوعات کی ایک فہرست بھی دی ہے جن کو نعت میں شامل کیا جاسکتا ہے۔یہ فہرست تمام نعت گو شعراء کے سامنے رہنی چاہیے ۔’ممنوعات نعت میں شرعی حدود کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔واقعہ معراج کو درست پیرائے میں بیان کرنا بھی ضروری ہے۔تاریخی استناد کی روشنی میں نعتیہ اشعار کو پرکھنا چاہیے۔حدیث قدسی سے کبھی بھی انحراف نہ کیا جائے۔خیال کا واقعہ بنا کر کبھی بھی پیش نہ کیا جائے‘۔

عزیز احسن نے نقاد کے لیے معروضیت کی شرط عاید کی ہے جو محققانہ انداز فکر ہے۔تاہم ’نقاد صرف شعر کے متن پر بات کرے‘ ممکن نہیں۔ہم جب بھی تخلیق پر بات کرتے ہیں تو تخلیق کے خالق تک ضرور پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اچھا شعر سامنے آتے ہی شاعر کی کھوج شروع ہوتی ہے اور اخلاق سے گرے ہوئے شعر کے لیے بھی اس کے شاعر کو تلاش کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ شعری محاسن کچھ شعراء کے ساتھ وابستہ ہوگئے ہیں۔اس طرح ہم صرف شعر پڑھ کر بتا دیتے ہیں کہ فلاں شاعر کا ہے یا ہوسکتا ہے۔علامہ اقبال ، مرزا غالب ، میر تقی میر،فیض احمد فیض کی شاعری پڑھ کر ممکن ہی نہیں رہتا کہ ہم ان شعراء کی بات نہ کریں۔کردار سے ہم متاثر ہوتے ہیں اور اچھے کلام کے ساتھ ساتھ اگر کلام کرنے والا بھی اچھا ہو تو ہمارا احترام اور اس سے توقعات بڑھ جاتی ہیں۔اس لیے تخلیق اور خالق کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔

۶۴۰ صفحات کی یہ ضخیم کتاب جو ایک ہزار سے زاید صفحات پر مشتمل مقالے کی کتابی صورت ہے ،کو ایک منظم اور مربوط شکل میں پیش کیا گیا ہے اور نعتیہ ادب میں تنقیدی زاویوں کو سامنے لاتا ہے۔کتاب کے عنوانات اور مباحث اتنے دلچسپ ہیں کہ کہیں بھی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔اور کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ کچھ یا بہت کچھ بھرتی کا ہے۔یہ ان سب کے لیے ایک سبق بھی ہے جو صرف ڈگری کے حصول کے لیے پڑھتے اور لکھتے ہیں۔کسی تحقیق کو شعوری طور پر اختیار کرنا بہت کم سکالروں کو نصیب ہے اور عزیز احسن ان میں سے ایک ہیں۔انھوں نے نعت اور تنقید نعت پر کام کو جاری رکھا ہوا ہے اور ہم ان کی عمر اور صلاحیتوں میں برکت کے لیے دعاگو ہیں۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51715 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More