تخریب نہیں تعمیر ۔۔۔۔۔۔۔مگر کیسے؟

اس مرتبہ محرم میں حکومت نے پہلے سے کہیں زیادہ سیکیورٹی انتظامات کئے کہ کہیں شیعہ کے جلوسوں کو کوئی ملک دشمن طاقت نقصان نہ پہنچا دے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے جلوسوں کی مانیٹرنگ بھی ہوتی رہی اس بارشیعہ مذہب پر ماضی کی طرح حملے نہ ہوئے چند ایک واقعات ہوئے مگر نہ ہونے کے برابر ،دس محرم گزر گیا وزیراعظم نواز شریف،پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ودیگر ملک کے وزرائے اعلیٰ نے سکھ کا سانس لیا اور وفاقی صوبائی حکومتوں نے انتظامیہ کو محرم پر خصوصی اقدام کرنے پر مبارک باد بھی دے ڈالی مگر سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا محرم میں امن رہا یا نہیں؟ کیاحکومت کی طرف سے یہ سیکیورٹی انتظامات شیعہ مذہب کے تحفظ کیلئے ہی تھے یا مسلمانوں کیلئے بھی۔۔۔۔؟؟؟ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ انتظامات صرف شیعہ کیلئے ہی تھے کیونکہ ملک بھر میں اس مرتبہ بھی سابقہ سال کی طرح توہین صحابہ کرامؓوتوہین اہلبیت عظامؓ کے واقعات رو نما ہوئے اور بات لڑائی جھگڑوں،قتل وغارت گری تک پہنچ گئی مگر حکومت نے گذشتہ سال سانحہ راولپنڈی سے سبق نہ سیکھا اور ملک میں اس بار بھی سانحات رونماء ہوئے شیعہ کی طرف سے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی سرعام کی گئی سرگودھا کے علاقہ فروقہ چک 73 جنوبی میں غیر قانونی جلوس نکالنے پر اسوقت حالات خراب ہوگئے جب شیعہ کی طرف مساجد پر آتشیں اسلحہ سے لیس شیعہ لوگوں نے حملے کردئیے جس کے نتیجے میں 2افراد شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے(جبکہ حکومت کی طرف سے اسلحہ کی نمائش پر پابندی تھی) سوال یہ ہے کہ یہ اسلحہ کس طرح؟کیوں؟کہاں سے آگیا؟کیا ان اسلحہ اٹھانے والے دہشت گردوں کیلئے بھی ملک میں کوئی قانون ہے ؟ان کی پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ انہوں نے قانون کو ہاتھ میں کیوں لیا؟ ملالہ کو سر پر اٹھانے والے میڈیا نے ابھی تک حقیقت آشکارا کیوں نہیں کی؟کیا حکومت نے شہید اور زخمی ہوجانے والوں کی خبر لی ان کے لئے امداد کا اعلان کیا؟کیا کہیں مسلمانان پاکستان پر ان جلوسوں کے ذریعے رعب ڈالنے انہیں گھروں میں مبحوس کرنے کی گریٹ گیم تو نہیں ہو رہی؟کہیں یہ سانحہ روالپنڈی کا تسلسل تو نہیں؟کیا پاکستان کو مصر،عراق اور شام بنانے کے پلان پر عمل تو نہیں ہورہا؟آخری اطلاعات تک نامزد ملزمان گرفتار نہیں ہوسکے جن کی پشت پناہی سیاسی منتخب ایک یا دو نمائندے کر رہے ہیں اسی طرح کے قانون کی خلاف ورزیاں احمد نگر چٹھہ، علی پور چٹھہ ،شیخوپورہ، ضلع راجن پور کے قصبے فاضل پور،چنیوٹ،کندیاں شریف ودیگر اضلاع اور دیگرصوبوں میں بھی ہوئیں ذرائع کے مطابق PTV ہوم پر 10:45 بجے پروگرام شام غریباں سے خطاب کرتے ہوئے معروف شیعہ ذاکر نے خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر ؓ ،اورماسوائے حضرت علی ؓ تمام صحابہ کرامؓ کی گستاخی کی ،کیا حکومت نے سرکاری ٹی وی پر اس واقعہ کانوٹس لیایا ارباب اقتدار کوعلم ہی نہیں ہوا ؟ان واقعات کی مذمت اور ملزمان کے خلاف کاروئی کا مطالبہ مختلف دینی حلقوں کی طرف سے کیا جارہا ہے ان حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت صحابہ کرام ؓ کی توہین کا سلسلہ بند کروانے کیلئے فوری قانون سازی کرے ،گستاخ کیلئے سزائے موت اور غیرمسلم اقلیت کا قانون پاس کیا جائے،تمام مسالک و مذاہب کے مذہبی جلسوں ،جلوسوں کوعبادت گاہوں یا چاردیواری تک محدود کیاجائے ان حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے گستاخان صحابہ کو پروٹوکول دینے سے باز رہے ایسا کرنا سراسر مسلمانان پاکستان کے حقوق پر ڈاکہ زنی ہے جسے کسی قیمت پر قبول اور برداشت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ 3 فیصد اقلیت کو 97فیصد اکثریت پر جبرا مسلط کرنا جمہوریت سے بھی بغاوت ہے اور ملک اس وقت جمہوریت کے رحم وکرم پر ہیدینی حلقوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے لہذٰا پاکستان کو سنی سٹیٹ قرار دیا جائے، حالیہ گستاخی کے واقعات کے مجرموں کو فیالفور سزا دی جائے ،دوسری طرف جب حکومت عملی اقدام نہ کرے اور یک طرفہ ٹریفک چلائے گی تو نتیجہ کیا نکلے گا ؟ آئیے اس پر روشنی ڈالتے ہیں گجرات میں تھانیدار اے ایس آئی فراز حیدر نے صحابہ کرام ؓ کی گستاخی کرنے پر جھنگ کے باسی مبینہ ملزم طفیل حیدر کو اسی کی کلہاڑی (جس سے وہ توہین سے منع کرنے والے لوگوں پر حملے کر رہا تھا)سے اس پر وار کرکے اسے قتل کردیا اسی طرح مقدس اوراق(قرآن) جلانے کے الزام میں مبینہ ملزموں میاں بیوی کو اہل علاقہ نے مشتعل ہوکر زندہ جلادیا ۔ (روزنامہ جنگ لاہو6نومبر،روزنامہ اسلام لاہور7نومبر)مجھے ذاتی طور پر یہ سن کر انتہائی دکھ ہوا ایسا ناسازگار واقعہ عیسائی اقلیت پر پیش آیا اسلام اقلیتوں کے حقوق کا حقیقی ترجمان ہے راقم ذاتی طور پر قانون کو ہاتھ میں لینے کے حق میں قطعا نہیں ہے اور اس واقعہ کو ماورائے عدالت قتل سمجھتا ہے مگر مندرجہ بالا واقعات کیوں پیش آئے ؟اس کا ذمہ دار کون ہے؟ میرے نزدیک یہ واقعات سابقہ حکومتوں اور موجودہ حکومت کی نااہلی کا زندہ وجاوید ،شرم ناک ثبوت ہے جنھوں نے اکثریت اہلیان پاکستان کے پرزور مطالبے کے باوجودقانون سازی نہیں کی،اگر یک دم تحفظ پاکستان کا قانون پاس ہو سکتا ہے تو توہین صحابہ کرنے والوں کے لئے قانون پاس کیوں نہیں ہوسکتا؟آخرایسا کرنے سے کون سی قیامت آجائے گی؟ کون ہے جو یہ نہیں چاہتا جو اس ملک میں صحابہؓ اور اہل بیتؓ کی توہین کرنے والے گستاخوں کے لئے قانون نہ بنے ؟کون اس میں رکاوٹ ہے؟ حکومت اور سیاستدان ان چہروں کو قوم کے سامنے لائیں جوملک میں سیاست کی آڑ میں گستاخوں ،فرقہ پرستوں کا دفاع کر رہے ہیں۔

جناب وزیراعظم صاحب !نہایت ادب سے بغیر کسی تعصب کے آپ کی خدمت میں گذارش ہے کہ جب حکومت مجرمانہ غفلت برتے گی تو پھرہر کوئی قانون کو ہاتھ میں لے گا باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ آجتک کسی گستاخ رسول کو سزا نہیں دی گئی قانون ہونے کے باوجود عمل نہیں ہواتو پھر آپ ہی بتائیں کہ مسلمان عوام کیا کریں ،جبکہ آئے روز ان کے ایمان پر حملے ہوں،انکے جذبات مجروح ہوں،انھیں دیوار کے ساتھ لگا یا جارہا ہوتوپھر اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوگایعنی کہ آپ حکمران خود عوام کو قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور کررہے ہیں تو خیر کہاں سے آئے؟

جناب وزیراعظم صاحب !اور پنجاب کے خادم اعلیٰ صاحب ! جب آپ یہ عملی اقدام کرلیں گے تو پھر کوئی مسیحی جوڑے کو ایسے بے دردی سے زندہ نہیں جلائے گا اور پھر نہ ہی آپ کو ایسے مقتولین کے بچوں کوحکومتی خزانے سے 50 لاکھ روپے،10ایکڑ زمین کی امداد کا اعلان(روزنامہ جنگ لاہور7نومبر) کرنے کے کی ضرورت ہوگی اور پھر کوئی تھانیدار اپنے ایمان پر حملے ،جذبات مجروح ہونے کے بعد کسی مبینہ ملزم کو اس طرح تھانے میں قتل نہیں کرے گا کیونکہ عوام کو پتا ہوگا کہ ان مبینہ گستاخوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی حکومت،قانون ،انتظامیہ متحرک ہیں توپھر عوام سیدھے قانون کے دروازے کو کھٹکھٹائیں گے قانون خود انکی سزا متعین کرے گا۔ اسوقت تک ایسے واقعات کے ذمہ دار حکمران ہی تصور کئے جائیں گے جب تک عملی اقدام نہیں ہو جاتے۔آخر میں پھر خدارا قوم کوتخریب کی بجائے تعمیر کے راستے پر لانے کیلئے، قوم کے جذبات مجروح ہونے کا سلسلہ تمام مذاہب ومسالک کی طرف سے بند ہونا چاہیے اور حکمران یک طرفہ ٹریفک کا چلانا بند کرکے موثر قانون سازی کے بعد اس پر عمل کروا کر امن کوقائم ،تعصب،مذاہب کے درمیان جنگ وجدل،فرقہ واریت کا خاتمہ کرسکتے ہیں مگر اس کے لئے خلوص نیت اور خدمت اسلام و خدمت پاکستان کا جذبہ شرط اول ہے۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 246819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.