خیرپور:ٹریفک کا المناک حادثہ....ذمے دار کون؟

منگل کی صبح سندھ کے علاقے خیرپور کے قریب ٹھیڑی بائی پاس پر ہونے والے ہولناک ٹریفک حادثے میں ایک بڑی تعداد میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی خبر سے ہر درد مند پاکستانی کا دل بے چین اور رنجیدہ ہے۔ اب تک کی اطلات کے مطابق اس المناک و خوفناک حادثے میں 59 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے ہیں۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق مسافر کوچ 69 مسافروں کو لے کر سوات سے کراچی جا رہی تھی کہ تیز رفتاری کے باعث کراچی سے آنے والے کوئلے سے بھرے ٹرک سے ٹکرا گئی۔ حادثہ اتنا شدید تھا کہ حادثے کے بعد بس میں آگ لگ گئی۔ امدادی ٹیموں کے اہلکاروں نے حادثے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر سول ہسپتال خیر پور منتقل کیا۔ ڈی آئی جی موٹروے پولیس اے ڈی خواجہ کا کہنا ہے کہ خیرپور ٹریفک حادثہ سڑک خراب ہونے کے باعث پیش آیا، تاہم بس اوور لوڈڈ تھی، جس میں 69 مسافر سوار تھے۔ موٹر وے پولیس نے گھوٹکی کے قریب بس کا چالان بھی کیا تھا۔ سڑک زیر تعمیر ہونے کے باعث کئی کئی فٹ گڑھے ہیں، بس کی رفتار اور گڑھوں کے باعث بس اچھل کر سڑک کی دوسرے طرف گئی اور ٹریلر سے ٹکرا گئی۔ حادثے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کا کہنا تھا کہ صبح چار بجے بس تیز رفتاری سے سڑک پر دوڑ رہی تھی کہ اچانک ڈرائیور کو پتہ چلا کے آگے سڑک بند ہے۔ موڑ کاٹنے کی کوشش میں بس بے قابو ہوکر سڑک کی دوسری جانب موجود ٹریلر سے ٹکرا گئی۔ ذرائع کے مطابق حادثے میں جاں بحق ہونے والے 43 افراد کا تعلق وادی سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں سے ہے، جبکہ دو مردان کے رہنے والے ہیں۔ دوسری جانب خیرپورٹھیڑی بائی پاس کے قریب مسافرکوچ اور ٹرک میں حادثے کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر اہم شخصیات نے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ صدر ممنون حسین نے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا اور متعلقہ حکام کو زخمیوں کو فوری امداد اور طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ گورنرسندھ عشرت العباد نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کمشنر سکھر کو فوری اقدامات کرنے کی ہدایت جاری کی۔ جبکہ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے حادثے میں جاں بحق افراد کی میتیں خیرپور سے سکھر منتقل کرنے کے لیے سی 130 طیارہ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ سندھ اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے خیرپور بس حادثہ کو انتہائی المناک قرار دیتے ہوئے متاثرین کو فوری معاوضہ دینے اور زخمیوں کو علاج معالجہ کی سہولت دینے کا مطالبہ کیا۔ صوبائی وزیر جام مہتاب ڈہر کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات میں ڈرائیور کی غفلت کا پتہ چلا ہے۔ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن کا قومی شاہراہ پر ہونے والے المناک ٹریفک حادثات کے حوالے سے کہنا تھا کہ روڈ سیفٹی کے لیے سندھ اسمبلی کی قرارداد پر عمل نہیں ہوا۔ اسپیکرسندھ اسمبلی کی رولنگ پر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ چیف سیکرٹری سندھ سے قرارداد پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کا معلوم کیا جائے گا۔ قائد حزب اختلاف شہریار مہر دیگر اپوزیشن ارکان نے صوبائی حکومت سے نیشنل ہائی وے کا ترقیاتی کام فوری مکمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی شاہراہ پر پچاس کلومیٹر پر ایمرجنسی سینٹر قائم کیے جائیں، جبکہ بعض ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ بس حادثے کا کمشنر سکھر نے دو گھنٹے بعد نوٹس لیا۔ ڈپٹی کمشنر خیرپور سوئے ہوئے تھے، انہوں نے بس حادثے کا کوئی نوٹس نہ لیا۔

ذرائع کے مطابق حادثے سے متعلق ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے رپورٹ تیار کی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بس بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے چلائی جا رہی تھی، جبکہ اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ بس میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار تھے۔ ریجنل بس اتھارٹی حکام کے مطابق ریکارڈ کی چھان بین کی جا رہی ہے، تاکہ اس بات کا پتا لگایا جا سکے کہ پہلے کبھی فٹنس سرٹیفکیٹ بنایا گیا یا نہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹریفک حادثات عام ہیں اور ان کی عمومی وجوہات مخدوش سڑکیں، ٹرانسپورٹ کی خراب حالت، ڈرائیوروں کی غفلت، تیز رفتاری سے گاڑیاں چلانا اور گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنا ہوتی ہیں۔ پاکستان بھر میں دن بدن ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح باعث تشویش ہے، جس کی بدولت لاتعداد قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں اوسطاً 15 سے 30 افراد روزانہ ٹریفک حادثات کا شکار ہو کر اپنی قیمتی جانیں گنواتے ہیں اور متعدد افراد ہمیشہ کے لیے معذور بھی ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ ہونے والے ٹریفک حادثات کی تعداد اندازاً تین لاکھ بتائی جاتی ہے، جن میں سالانہ 13ہزار افراد موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور پچاس ہزار سے زاید زخمی ہوجاتے ہیں۔ چند روز کے بعد ہی ملک خیر پور ٹریفک حادثے کی طرح کسی بڑے سانحے سے دوچار ہوجاتا ہے، جس میں ایک بڑی تعداد جاں بحق ہوتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں حادثات کے بڑھتے واقعات کی سب سے بڑی وجہ یہاں قانون پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ ٹریفک قوانین کا احترام نہ کرنے کا چلن حادثات میں بے پناہ اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ ٹریفک قوانین سے عدم آگاہی بھی حادثات کا بنیادی سبب ہے،ڈرائیور حضرات کی اکثریت ان پڑھ افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔جبکہ بہت سی گاڑیاں فٹنس کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں، جس طرح اطلاعات ہیں کہ خیر پور حادثہ کا شکار ہونے والی گاڑی بھی بغیر فٹنس سرٹفیکیٹ کے چلائی جارہی تھی، متعلقہ محکمہ ناکارہ گاڑیوں کو رشوت کے عوض فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کردیتا ہے۔ ڈرائیور حضرات کا اوور اسپیڈنگ اور اوور ٹیکنگ کا شوق بھی جان لیوا حادثات کا سبب بنتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ٹریفک حادثہ یا تو ڈرائیور کی غلطی، گاڑی کی خرابی، روڈ کی تعمیرمیں کمی و کوتاہی یا پھر سڑک کو استعمال کرنے والے کی غلطی سے وقوع پذیر ہوتا ہے، لیکن ہم ٹریفک حادثے کو اس انداز میں لیتے ہیں، جیسے اس نے ہونا ہی تھا۔ حالانکہ ٹریفک کے حوالے سے بہترین قوانین بنا کر ان پر عمل کر کے حادثات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے، جیسا کہ کئی دوسرے ممالک میں ٹریفک کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر اس قدر عمل ہوتا ہے کہ اگر ٹریفک حادثہ ہوبھی جائے، تو بھی جانی نقصان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

ہم نمونے کے طور پر بیرون ملک میں ہونے والے ٹریفک حادثات کے چند بڑے واقعات پیش کرتے ہیں۔ نومبر 2012 میں ایک ٹریفک حادثے کے دوران چین میں 46 گاڑیاں آپس میں ٹکرائیں، جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ نومبر 2012چین میں شنگھائی کمانگ ایکسپریس وے پر 7 آئل ٹینکر سمےت 70 سے زاید گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرائیں، جس کے نتیجے میں 9افراد ہلاک ہوئے اور 19زخمی ہوئے۔ مارچ 2012ریاست کولاریڈو امریکا کے شہر ڈینور میںایک مصروف شاہراہ پر 104 گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہوا۔ اسی طرح امریکی ریاست ٹیکساس میں نومبر 2012 ڈیڑھ سو سے زاید گاڑیاں آپس میں ٹکرائیں، جس کے نتیجے دو افراد ہلاک ہوئے۔ فروری 2014 میں امریکی ریاست پنسلوانیا میں ہائی وے پر بدترین ٹریفک حادثہ پیش آیا، جس میں 100 سے زاید گاڑیاں آپس میں ٹکراگئیں، جس کے نتیجے میں 25 افراد زخمی ہوئے۔ کوئی شخص بھی ہلاک نہیں ہوا۔ ستمبر 2014 ایمسٹرڈیم ہالینڈ میں دھند کے باعث ڈیڑھ سو کاریں آپس میں ٹکرائیں، جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوئے۔ فروری 2014 میں کینڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک ٹریفک حادثے میں سو گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں،جس کے نتیجے میں 3 افراد زخمی ہوئے، کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے ملک میں ہونے والے حادثات کو سامنے رکھیں تو حقیقت انتہائی بھیانک ہے، کیونکہ یہاں ایک ایک حادثے میں ساٹھ ستر افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ٹریفک قوانین پر عمل کرتے ہوئے گاڑیوں کو اس وقت تک سڑک پر آنے کی اجازت نہیں ہوتی جب تک ان کو فٹنس سرٹیفکیٹ نہ جاری کردیا جائے اور وہاں پاکستان کی طرح سرٹیفکیٹ رشوت کے نتیجے میں بھی نہیں حاصل کیا جاسکتا۔ اسی طرح دوسرے ممالک میں گاڑی میں سفر کرتے وقت بیلٹ باندھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ گاڑیوں میں اوور لوڈنگ پر بھی سخت پابندی ہے اور ایک اہم بات یہ کہ وہاں فوری طور پر امدادی کارروائی کر کے زخمیوں کو طبی امداد پہنچا دی جاتی ہےں، اسی صورت میں سیکڑوں گاڑیاں ٹکرانے کے باجود جانی نقصان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ان میں سے کسی قانون پر عمل نہیں ہوتا، ٹریفک کے حوالے سے اگر کوئی قانون موجود بھی ہے تو اس پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے ٹریفک قوانین کی پابندی انتہائی ضروری ہے۔ اگرحکومت چاہتی ہے کہ ملک میں ٹریفک حادثات کنٹرول ہوجائیں تو اس حوالے سے سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ان پر سختی سے عمل کرانا ہوگا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 639787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.