کسانوں کے مسائل اور حکومتی اقدامات

پاکستان میں چھوٹے کاشتکار ملک کے کسانوں کی کل آبادی کا کم از کم تین چوتھائی ہیں اورزرعی شعبے میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے قطعات اراضی ہوتے ہیں جو بارہ ایکڑ سے زیادہ نہیں ہوتے اس لئے یہ مستقل خطرات میں گھرے رہتے ہیں۔ان کو بہت سے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔جن میں بیج،کھاد وغیرہ کی کمی ،قیمتوں کی بلند شرح،سودے بازی کی کم استعداد اور بڑے کسانوں کے حق میں حکومت کی بدلتی پالیسیاں شامل ہیں ۔یہ کسان زرعی پیداوار بڑھانے کے نئے طریقے اختیار نہیں کر سکتے۔ اپنی زرعی اجناس کو محفوظ کرنے کے لئے ان کے پاس سہولتیں ہوتیں جس سے ان کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ زیادہ تر چھوٹے پیمانے پر تجارتی روایتی زرعی طریقے اختیار کر تے ہیں جس کانتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ان کی آمدنی گھٹ جاتی ہے۔ وہ بچت نہیں کر سکتے اور غربت کے چکر میں گھر جاتے ہیں۔ اپنی مالی حالت کے پیش نظر یہ کسان ٹریڈرز پروسیجر اور بیجء ،کھاد فراہم کرنے والوں پر انحصار کرتے ہیں ۔ یہ تاجر کسانوں کو قرضے اس شرط پر دیتے ہیں کہ وہ فصل کاشت کرنے کے بعد اپنی زرعی جنس صرف انہی کے ہاتھ فروخت کریں گے۔

پنجاب جو پاکستان میں خوراک کی ضروریات پوری کرنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، یہاں چھوٹے پیما نے پر کاشت کاری کے بھی اپنے مسائل ہیں۔حکومت پاکستان کے بقول پنجاب میں کل فارموں کے 85فیصدی کے مالک چھوٹے کسان ہیں۔انہیں نہ صر ف غربت اور استحصال کے مسائل کا سامنا ہے بلکہ زرعی زمینوں کوسیر اب کرنے کے لئے پانی کی بھی کمی ہے جو ان کے لئے بہت بڑا چلنج بن چکی ہے۔پاکستان کے موجودہ نمو بارانی ماحول اور محدود بارش نے ان کے مسائل دو چند کر دیے ہیں کیونکہ ان کی فصلوں کو جس قدر پانی کی ضرورت ہوتی ہے موجودہ آبپاشی نظام اور بارشوں سے ان کی صرف15فیصد ضرورتیں ہی پوری ہوتی ہیں۔اس پس منظر میں آبپاشی والی کاشتکاری زرعی کفایت شعاری کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ کیونکہ یہ زیر زمین پانی کے وسائل استعمال کر تی ہے اور کم از کم 80 فی صد فصلیں دیتی ہے۔ چونکہ آبپاشی کے لیے دریاؤں ندی نالوں کا پانی محدود ہوتا ہے اور آبی ذخائر میں مٹی، ریت بھر جانے سے ان میں پانی ذخیر ہ کرنے کی استعداد کم ہو جاتی ہے۔ جس کی تلافی زیر زمین پانی استعمال کر کے کی جاتی ہے۔ اس طر ح زیر زمین پانی زراعت اور زرعی معیشت کے فروغ کے لیے انتہائی ناگزیر ہو گیا ہے۔ ٹیوب ویل لگنے سے کسان اپنی آبپاشی کی ضرورتیں بخوبی پوری کرنے لگے ہیں تاہم زیر زمین پانی کے بے ضابطہ استعمال سے بہت سے علاقوں میں سیم وتھور کا مسئلہ پیدا ہوا وہاں زیرزمین پانی کی سطح بھی کم ہو گئی۔ 1970ء کے بعد بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویل لگائے جن کی تنصیب کا زیادہ تر خرچہ واپڈا برداشت کرتا تھا۔ اس کے بعد بجلی کے ٹیوب ویلوں پر محصول بجلی یعنی ٹردف وصول کیا جانے لگا۔ اس سے فصلوں کو مناسب مقدارمیں پانی ملنا بند ہوگیا جس کا نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں برآمد ہوا۔اس مسئلے کے پیش نظرزرعی ٹیوب ویلوں کے لیا یکساں بجلی کے نرخ متعارف کرائے۔جس سے کسانوں کو یہ فائدہ ہوا کہ وہ جتنا مرضی ٹیوب ویل چلائں ی ان کی بجلی کے بلوں مں ے اضافہ نہں و ہوتا تھا۔ بجلی کے ٹیوب ویلوں کے فوائد کے باوجود ان کی تنصیب بڑے بڑے زمیند اروں تک محدود رہی۔ کیونکہ چھوٹے کسانوں کے لئے ان کی تنصیب کے اخراجات ناقابل برداشت تھے۔ان کی تنصیب میں ا ایک اور بڑی رکاوٹ کھمبوں سے ٹیوب ویل تک آنے والی بجلی کی تار ،ٹرانسفارمراور متعلقہ سازوسامان کا مہنگا ہونابھی تھا۔گزشتہ حکومت کے دور میں زیادہ تر بوجھ چھوٹے کسانوں کو ہی برداشت کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے بہت سے کسانوں نے کاشتکاری کو چھوڑ کر روزگار کے دیگر ذرائع ڈھونڈ لئے۔یہ معیشت کے لئے بھی دھچکاتھا کیونکہ پاکستان اپنی معاشی ضرروتوں کے لئے زراعت پر انحصار کرتا ہے۔

موجودہ حکومت کئی پالیسیوں میں تبدیلی لائی ہے جس کا مقصد چھوٹے کسانوں کی زندگی کو آسودہ بنانے میں مدد دینا ہے۔ زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے 10.35روپے فی یونٹ کے یکساں ٹیرف مقرر کرکے حکومت نے کسان اتحاد کا درینہ مطالبہ پورا کردیا ہے۔چھوٹے کسانوں کو شمسی توانائی سے چلنے والے ٹو.ب ویلوں کی تنصیب کے لئے 80 فیصد سبسڈی بھی دی جائے گی۔سولر پینل پنجاب کے ان مخصوص علاقوں میں لگائے جائیں گے جہاں پانی کی سطح 50 سے 60 فٹ تک ہے۔ تجرباتی بنیادوں پر ابتدائی طور پر شمسی توانائی کے 100 ٹیوب ویل لگانے کا منصوبہ ہے جو ایک بار کامیاب ہوگیاتو اسے صوبے بھر میں پھیلا دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ30ہزارٹریکٹر وں،کھادوں اور زرعی آلات پر سبسڈی فراہم کی جائے گی۔ بجٹ میں کاشتکاروں کو کھادوں کی فراہمی کے لیے 30 بلین روپے سبسڈی دینے کی منظوری پہلے ہی دی جاچکی ہے۔

زرعی شعبے کی ترقی کے ضمن میں ایک اور اہم قدم گندم کی فی 40کلو گرام 1300روپے کی امدادی قیمت میں اضافے کا بروقت فیصلہ بھی ہے۔ گندم کی امدادی قیمت میں یہ اضافہ بین الاقوامی مارکیٹ میں گندم کی موجودہ قیمت سے زائد ہے۔ اس سے یقینا زرعی شعبہ کی حوصلہ افزائی ہو گی اور یکساں امدادی قیمت سے ملک بھر کے تمام کاشتکاروں کو ہموار سطح فراہم ہو گی اور کاشتکاروں کی زیادہ اراضی زیر کاشت لانے کیلئے حوصلہ افزائی ہو گی۔گندم کی درآمد پر 20فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے سے بھی کاشتکاروں کو بہت زیادہ فائدہ حاصل ہو گا۔ اسی طرح تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی سے عوام بالخصوص زرعی شعبہ کو فائدہ ہو گا جس سے کھاد بیج اور دیگر زرعی ضروریات کی لاگت میں کمی آئے گی اورکاشت کار برادری فی ایکڑ 3500تا 5000اضافی آمدن کمائے گی۔ اس طرح حکومت نے ملک میں زرعی شعبہ کی حوصلہ افزائی کیلئے جو عملی اقدامات اٹھائے ہیں جن کا مقصدکسان اتحاد کے مسائل اور تجاویز کی روشنی میں زرعی شعبہ میں اصلاحات لانا اور معیشت کی مرکزی حیثیت کو بہتر بنانا ہے۔ جس سے یقینا زرعی شعبے پر مثبت اور دیرپااثرات مرتب ہوں گے۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 67841 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.