وحشت کے پجاری

جہالت کے علمبردار،معاشرے کے ناسور،وحشت و بربریت جہاں می رقصم،آگے کا پتہ نہ پیچھے کی خبر،جنون اور پاگل پن کی حد تک بڑھااحساس فتح مندی،مگر درحقیقت جہالت جہالت اور ذیادہ بے جا نہ ہو گا اگر کہہ دوں کہ ذلالت کہ جس کی نہ کوئی حد ہے نہ حساب، لگا دو حد مجھ پہ بھی،کردو فتویٰ صادر مجھے بھی کسی بھٹے یا تندور میں پھینکنے کا،ہر گلی محلے میں موجود کسی بھی فتویٰ ساز فیکٹری سے کسی کے بھی قتل کا فرمان جاری کرانا اب کون سا مشکل،مجھے سچ کہنا ہے اور کہوں گا تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کریں گے،یہاں گلے کٹ رہے ہیں،مسجدوں میں نمازیوں کی بوٹیاں اڑ رہی ہیں گاڑیوں کے پیچھے باندھ کے گھسیٹا جا رہا ہے،انسانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا جا رہا ہے ،ہمارے کرتوتوں پہ شیطان بھی شرما کے پناگاہ کی تلاش میں اور ظلم یہ کہ سب کچھ مذہب کے نام پر کون سا مذہب وہ مذہب جو دنیا جہاں کے انسانوں کے لیے امن اور سلامتی کا پیغام لیکر آیا ،جو وہ اندھیرے مٹا گیا کہ لوگ زندہ اپنی بچیوں کو منوں مٹی کے نیچے دفن کر دیتے تھے مگر یہ کیا یہاں تو زندہ انسانوں کو بھٹوں میں جلایا جا رہا ہے،وہ سب کیا تھا اور یہ سب کیا ہے،وہ جہالت کا دور تھا مگر آج، دو نوجوان میاں بیوی کو زندہ بھڑکتی آگ میں پھینک دیا گیا وہ مر گئے اور ان کے چار معصوم بچے وہ کدھر جائیں گے کیا جذبہ ایمانی سے سرشار بد دماغ ان ماں باپ کے انتظار میں بلکتے بچوں کو ساتھ لے گئے اب ان کی تعلیم و تربیت ان کے کھانے پینے رہنے سہنے کا بندو بست کون کرے گا،کہیں کفر کے فتوے تو کہیں حلال جانوروں کی طرح جیتے جاگتے انسانوں کو لٹا کر ان کی گردنوں پہ چھری ان کے کٹے سروں سے فٹ بال کا کھیل اور کہیں دھکتے انگاروں میں ڈالاجا رہا ہے وہ بھی زندہ انسانوں کو ،ان عقل کے اندھوں کو ذرا بھی نہیں اندازہ کہ انسانی جان کی قیمت کیا ہے کاش وہ رحمت اللعالمینﷺ کا یہ فرمان ہی کہیں سے پڑھ سن لیتے کہ مجھے ایک انسان کی جان کعبہ سے بھی زیادہ عزیز ہے ،کسی مسلم سنی شیعہ اہل حدیث دیو بندی بریلوی ،حنفی مالکی حمبلی شافعی کی نہیں صرف ایک بے گناہ انسان کی جان اور قیمتی کعبہ سے وہ کعبہ جو پوری مسلم دنیا کا قبلہ ہے وہ کعبہ جو دنیابھر میں پھیلی ان لاکھوں مساجد کی ماں ہے جہاں مسلمان صبح شام دن میں پانچ بار رکوع و سجود کے لیے حاضر ہوتے ہیں،اس کعبہ کو سامنے رکھ کے کہا کہ مجھے ایک انسان کی جان کعبہ سے زیادہ عزیز ہے،اب آپ دوسری طرف ڈھٹائی اور بے حیائی کا اندازہ کریں کہ چند ان پڑھ اور جاہل مولوی دلہے جب چاہتے ہیں جس پہ چاہتے ہیں توہین رسالتﷺ کا کیس بنوا دیتے ہیں،ذاتی انائیں اور دشمنیوں کا بدلہ لینے کا سب سے آسان طریقہ آج یہ بن گیا ہے کہ چند افراد اکٹھے کرو کسی فرد یا افراد پہ توہین قرآن یا رسالت کا الزام دھرو اور باقی سب کچھ ہجوم پہ چھوڑ دو،کیا یہ اسلام ہے کی خدمت ہے،کہیں لوگوں کو تندوروں میں جھونکا جا رہا ہے کہیں تھانے کے اندر بند ملزم کو کلہاڑیوں سے کچلا جا رہا ہے اور یہ سب کرنے والے غازی اور مجاہد جبکہ مرنے والے جہنمی،چند سال قبل گوجرانوالہ میں ایک فیکٹری ورکر نے اپنے مالک سے چھٹی مانگی اور کیلنڈر اس کے سامنے رکھا کہ مجھے فلاں فلاں تاریخ کو چھٹی چاہیے مالک نے انکار کیا کہ تم ابھی چھٹی کر کے آئے روز روز چھٹی نہیں مل سکتی اور کیلنڈر اٹھا کے ٹیبل سے صوفے پر پھینک دیا ،شومئی قسمت کیلنڈر پر کسی مسجد یا مقدس مقام کی تصویر تھی آناً فاناً اسی مزدور نے پوری فیکٹری میں مشہور کردیا کہ صاحب نے قرآن اور مسجد کی توہین کی ہے ،فیکٹری کے تمام مزدوروایک جگہ اکٹھے ہو گئے اور چھوٹی سی چنگاری یوں شعلہ بنی کہ بجائے اپنے صاحب سے پوچھتے جو پانچ وقت کا نمازی تھا کہ جناب حقیقت کیا ہے الٹا باہر بلا کر اسے لاٹھیوں ٹھڈوں ڈنڈوں اور راڈو ں سے مارنا شروع کر دیا اور اس وقت تک ایمانی حرارت ٹھنڈی نہ ہوئی جب تک وہ ٹھنڈا نہ ہو گیا جس کو اﷲ نے ان سب کے رزق کا ذریعہ بنایا تھا بعد میں انہی کی اکثریت دھاڑیں مار ما ر کر روتی دیکھی گئی،اس کے معاً بعد شیخو پورہ کی ایک مسجد سے اعلان ہوا کہ ایک عطائی ڈاکٹر نے قرآن کی توہین کی ہے فلاں جگہ اس کا کلینک ہے وجہ عناد ساتھ والے عطائی کا کام نہ چلنا تھی،لوگوں نے عطائی کو عیسائی سمجھا بس پھر کیا تھا ایک ہجوم تھا جس کے ہاتھ میں ڈنڈے اور پتھر تھے اور آناً فا ناً وہ بے چارہ ٹکڑوں میں بٹ گیا اور وہیں پہ اس کے پڑو سیوں نے آ کے بتایا کہ ظالمویہ نہ صرف مسلمان بلکہ حافظ قرآ ن بھی تھا،گورنر سلمان تاثیر کا واقعہ تو ابھی کل کی بات ہے حیر ت ہے کہ گورنر کے اس قاتل کو جس کا فرض گورنر کو بچانا تھا اسی کی اسے تنخواہ ملتی تھی اسے لوگوں نے ہار پہنائے ان لوگوں نے جو طالبان اور ان کی شریعت کے سب سے بڑے ناقد ہیں ،کسی نے نہیں پوچھا کہ ایک محافظ نے اپنا حلف یعنی اپنی قسم توڑی ،کیا کسی بھی فقہ کے مفتی نے سلمان تاثیر کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تھانہیں بالکل بھی نہیں ،پھر کیسے ایک شخص کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے طور پہ کسی کو واجبب القتل سمجھ لے،پنڈی میں ایک عیسائی لڑکی نے ایک مولوی کے منع کرنے کے باوجود کوڑا مسجد کی گلی میں پھینک دیا اور پھر اس بارہ سال کی بچی کی کتنی مشکل سے جان بچی یہ وہ اور اس کا خاندان جانتا ہے وہ مولوی جس نے شمسہ یا رمشہ نامی بچی پر توہین رسالتﷺ کا الزام لگایا لوگوں کو اس کے گھر اور خاندان کو جلانے پر اکسایا وہ آج بھی دندناتا پھر رہا ہے کوئی حد کوئی قانون اس پہ لاگو ہو ا نہ ہو گا نہ ہو سکتا ہے اس ملک میں ،بتائیے اس ملک کی اقلیتیں کدھر جائیں کیا یہ ایتھوپیا ہے ،افریقہ کا کوئی جنگل یا بھیڑیوں کا علاقہ کہ جہاں نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال نہ اس کے عقائد محفوظ ہیں نہ مذہب،یہ سب کیا ہے کیوں ہے اور کب تک رہے گا ہے کسی کے پاس ان سوالات کا جواب ،اگر کسی کے ذہن میں ہے کہ ریاست کر لے گی تو یہ وہم اپنے دل سے نکال دیجیے کہ جو ریاست لاؤڈ اسپیکر جسے میں ام الخبائث سمجھتا ہوں صرف اس پہ لگی پابندی پہ خالی عمل درآمد نہیں کروا سکتی وہ اور کیا کرے گی،اس کے لیے سول سوسائٹی میڈیا اور ہر حساس دل رکھنے والے شخص کواپنا رول پلے کرنا پڑے گا،درسوں اور مدرسوں میں کچرا بھیجنے کی بجائے اپنے لائق اور پوزیشن ہولڈر بچے بھیجنا پڑیں گے،گورنمنٹ اور کچھ نہ کرے مگر کم از کم ہر جامع مسجد کا نظام اپنے کنٹرول میں لیکر اس میں باقاعدہ پبلک سروس لیول کے امتحان سے سلیکٹ کرا کے امام اور خطیب رکھے جائیں ،سوائے مذہب اور فقہ کے زندگی کے ہر شعبے میں باقاعدہ تعلیم اور تربیت کا ایک نظام موجود ہے ایک ٹیچر ایک ڈاکٹر ایک آفیسر ایک وکیل اور ایک پٹواری تک کو بارہ چودہ سال تک بنیادی تعلیم دی جاتی ہے اس کے بعد اسے اس کے مخصوس شعبے میں نئے سرے سے آغاز کروایا جاتا ہے جیسے میڈیکل کالج میں ،قانون کی یونیورسٹی میں داخلہ ایف ایس سی اور بی ایس سی کے بعد ملتا ہے بالکل اسی طرح کا نظام مولوی حضرات کے لیے بھی وضع کیا جائے،علمائے کرام جن کی اکثریت پڑھی لکھی اور سمجھدار لوگوں پر مشتمل ہے کئی ایک نے تو اس ملک کو ایک بہترین بینکنگ کا نظام بھی دے دیا ہے ان سے معاونت کی جائے اس کے بعد ایک کڑے امتحان سے گذرنے کے بعد ہی کسی بھی شخص کو امام یا خطیب مقرر کیا جائے،ریاست ایک گزیٹڈ آفیسر کی طرح اس کے تمام معاملات کی ذمہ داری لے اس سے باز پرس کا بھی ایک نظام ہو تب جا کے ہماری اس روز کی جگ ہنسائی سے جان چھوٹے گی ،جب تک یہ سب اقدامات نہ کیے گئے تو یوں ہی کہیں بسوں میں شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو بھونا جاتا رہے گا اور کہیں ذاتی اناؤں کی خاطر اقلیتیں اور مسلمان بلا تفریق توہین رسالت ﷺکے قانون کی نظر ہو کہ ذلت کی موت مرتے رہیں گے ،بس کر دو خدارا اب بس کرد واسلام کی توہین اور اس سے مذاق بند کر دو اسلام کو چند پاگل اور مکروہ قسم کے ذہنوں سے کوئی خطرہ نہیں نہ یہ اتنا کمزور مذہب ہے بلکہ اصل خطرہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں سے خطرہ ہے،،،،اﷲ ہم سب پہ رحم کرے -

نوٹ۔کوئی بھی اس سے یہ مطلب ہر گز نہ لے کہ میں توہین رسالتﷺ کے مجرم کا حمایتی ہوں ایسے مجرم کی سزا بلاشک موت ہے مگر اس کا تعین ریاست کی ذمہ داری ہے کسی ایک فرد یا چند افراد کی ہرگز نہیں۔