انبیاء کا مبعوث ہونا کیوں ضروری ہے ؟

اس مطلب کی وضاحت کیلئے ہم کچھ عقلی دلائل پیش کررہے ہیں ۔

پہلی دلیل :
اس لئے کہ انسان کی پیدائش کا ہدف یہ نہیں ہے کہ ایک مدت تک اس دنیا میں رہے، اور اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرے اور ہر طرح کی عیش و عشرت یا دنیاوی ہزاروں دکھ درد اور پریشانیوں کے داغ کو اپنے سینہ پر برداشت کرکے رخت سفر باندھ کر فنا کے گھاٹ اتر جائے، اگر ایسا ہے تو انسان کی خلقت عبث و بے فائدہ ہوگی !

جب کہ خدائے تبارک و تعالیٰ کی ذات ایسے کاموں سے پاک اور مبرا ہے۔

انسان ، خداوند عالم کی بہترین و افضل ترین مخلوق ہے اور اس کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے ذریعہ کمالات و فضائل کے اعلیٰ مرتبہ پر پہونچ جائے تاکہ قیامت کے دن بہترین ثواب و جزا کا مستحق قرار پائے۔

لہٰذا پروردگار عالم کی ذات نے انسان کو نظم و قانون کا محتاج پایا تو ان کے لئے انبیاء (ع) کے دستور العمل بھی بھیجا تاکہ انسان کو تعلیم دیں اور انسان کو ضلالت و گمراہی کی تاریکی سے نکالیں ، یہ وہی احکام ہیں جو ساتھ قوانین اور انسان کی زندگی اور آخرت دونوں کو سدہارتے ہیں، لوگوں کو زیادتی اور زور و زبردستی سے روکتے ہیں اور انسان کی آزادی کے حقوق کے محافظ ہیں نیز انسان کو کمال و صراط مستقیم اور اللہ تک پہونچاتے ہیں ۔ کیا انسان کی ناقص عقل ایسا جامع دستور العمل اور منظم پروگرام لوگوں کے حوالے کر سکتی ہے ؟ ہر گز ممکن نہیں ، اس لئے کہ انسان کی عقل اور اس کی معلومات ناقص و محدود ہے،لوگوں کی عقل اچھے، برے جلوت و خلوت انفرادیت و اجتماعیت کے حالات پر کافی اور کامل معلومات نہیں رکھتی ہے ۔

اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے ابتدائے خلقت سے لیکر آج تک ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور بے حد دولتوں کا سیلاب بہاد یا کہ محکم و کامل اور جامع انسانیت کے لئے قانون بنائے لیکن ابھی تک نہ بنا سکا ، قانون تو بے شمار بنتے رہتے ہیں، لیکن کچہ ہی دنوں میں اس کی خامیاں اور غلطیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں لہذا یا تو لوگ اس کو پورے طور پر ختم کر دیتے ہیں یا اس میں تبدیلی اور نظر ثانی کے در پے ہو جاتے ہیں ۔

دوسری دلیل :
خود انسان کی طبیعت میں خود خواہی اور خود غرضی کے میلان پائے جاتے ہیں لہذا وہ ہر طرح کے فوائد کو اپنے اور اپنے اقارب کے لئے سب سے زیادہ پسند کرنے لگتا ہے لہذا نتیجتاً یہ عادت و فطرت مساوات کا قانون بنانے سے مانع ہوتی ہے ۔

جب بھی انسان ارادہ کرتا ہے کہ کوئی ایسا قانون بنائے جس میں ہوائے نفس اور خود خواہی نیز خود پسندی کا کوئی دخل نہ ہو، اپنے اور پرائے ایک صف میں کھڑے ہوں اور ہر ایک کو ایک نگاہ سے دیکھا جا رہاہو لیکن کہیں نہ کہیں طبیعت اور خواہش نفسانی تو غلبہ کر ہی لیتی ہے لہذا عدل و انصاف پر مبنی قانون کا سد باب ہو جاتا ہے ۔

تیسری دلیل :
قانون بنانے والے حضرات انسان کے فضائل اور روحانی کمالات کا علم نہیں رکہتے اور اس کی معنوی زندگی سے بے خبر ہیں وہ انسان کی فلاح اور بہبود، مادیات کے زرق و برق اور دنیا کی رنگینیوں میں تلاش کرتے ہیں جب کی انسان کی روحانی اور دنیاوی زندگی کے درمیان ایک خاص اور محکم رابطہ پایا جاتا ہے فقط خداوند عالم کی ذات والا صفات ہے جو اس دنیا و ما فیھاکا پیدا کرنے والا ہے اور انسان کی اچھائی و برائی سے خوب واقف اور با خبر ہے،نیز تمام موجودات پر احاطہ کئے ہوئے ہے کوئی بھی چیز اس کے دست قدرت سے باہر نہیں، وہی ہے جو بلندی کی راہ اور ہلاکت کے اجتناب سے بخوبی واقف ہے لہذا اپنے قانون و احکام بلکہ انسانیت کی باگ ڈور ایسے حضرات کے حوالے کرتا ہے جو لوگوں کے لئے نمونہ اور اس کی زندگی آنے والوں کے لئے مشعل راہ ہوتی ہے ۔

اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں خداوند عالم حکیم ہے کبھی بھی انسان کو حیرانی اور جہالت و گمراہی کے اتھاہ سمندر میں نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس کی مصلحت و لطف کا تقاضا یہ ہے کہ انبیاء کو قواعد و قانون کے ساتھ لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کرے ۔

انبیا ،اللہ کے خاص بندے اور بساط بشر کی ممتاز فرد ہوتے ہیں جو خدا سے جس وقت چاہیں رابطہ پیدا کر سکتے ہیں اور جس چیز کی حقیقت معلوم کرنا چاہیں اسے معلوم کر کے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں اس طرح کے رابطے کو ”وحی“ کہتے ہیں وحی یعنی اللہ اور اس کے خاص بندے کے درمیان رابطے کو کہتے ہیں ، انبیاء اپنی باطنی بصیرت سے دنیا کی حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور دل کے کانوں سے غیبی باتیں سنتے اور لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔
fateh ali
About the Author: fateh ali Read More Articles by fateh ali: 6 Articles with 5497 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.