غریب و سادہ رنگین ہے داستان حرم

۲۰ ھ امیر معاویہ ؓ کا انتقال ہو ا تو ان کا بیٹا یزیدانکا جانشین بناامیر معاویہ اپنی زندگی ہی میں یزید کے لئے بیعت لے چکے تھے۔ مدینہ کے کچھ بزرگوں نے والی عہد کے طور پریزید کی نامزدگی کو تسلیم نہیں کیا تھا ۔حضرت امام حسین ؓبھی اُن لوگوں میں شامل تھے یزید نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو اس کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ ان بزرگوں سے اپنے لئے بیت حاصل کرے کیونکہ ان کی بیعت کے بغیر وہ اپنی حکومت کو نا مکمل اور غیر مستحکم سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے حاکم مدینہ ولید بن عتبہ کو حکم بھیجا کہ ان بزرگوں سے اس کے لئے فوراََ بیعت لی جائے ولید نے حضرت امام حسین ؓ کو بلایا امیر معاویہ ؓ کی وفات کی خبر دی اور یزید کا حکم سنایا ۔ امام حسین ؓ نے فرمایا ’’بیعت ایک اہم معاملہ ہے ۔ مجھ جیسا آ دمی چُھپ کر بیعت نہیں کر سکتا اور نہ میرے لئے ایسا کرنا زیبا ہے۔ جبکہ عام لوگوں کو بلایا جائے گا تو میں بھی آ جاؤں گا ‘‘ ولید نیک فطرت اور امن پسند شخص تھاـ، راض ہو گیا اورحضرت امام حسین ؓ کو گھر جانے دیا۔

حضرت امام حسین ؓ دیکھ رہے تھے کہ خلافت کو ملوکیت میں بدلا جا رہا ہے وہ زید کی موروثی بادشاہت کو تسلیم کرنے پر ہر گز تیار نہ تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ یزید خلافت جیسے اہم اور اعلیٰ منصب کا اہل نہیں ہے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگوں کو اپنی مرضی سے خلیفہ منتخب کرنے کے حق سے محروم کر دیاہے اورخوف و لالچ کے زریعے یزید اپنے تخت کو استحکام بخشنے میں مصرو ف ہے ۔ حضرت امام حسین ؓ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ حضور نبی کریم ﷺ اور چاروں خلفاء راشدین ؓ نے امامت و خلافت کو جو اعلیٰ معیا ر قائم کیا ہے اس سے انحراف کیا جارہا ہے حکمران کے تقرراور امت کے معاملات کوطے کرنے میں مسلمانوں کا نہ کوئی عمل دخل ہے اور نہ ہی مشورہ شامل ہے۔حکومت پاکر یزید نے مسلمانوں کے بیت المال کو ذاتی جاگیر سمجھ لیا ہے۔ حاکموں پر تنقید کی آ زادی باقی نہیں رہی ۔ جبر و تشدد کا دور دورہ ہے، حق گوئی کی جگہ خوشامد لے چکی ہے ۔گمراہ لوگوں کی حوصلہ افزائی اور سر پرستی ہو رہی ہے ۔ امام حسین ؓ جانتے تھے کہ ایسے حکمران کی بیعت کی گئی تو ایک بری مثال قائم ہو جائے گی اوردین واخلاق کو حکومت کے ایوان سے دیس نکالا مل جائے گا۔ چنانچہ اما م حسین ؓ نے چشم پوشی اور مصلحت کوشی کے بجائے استحقامت کا راستہ اختیار کیا اور یزید کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

حاکم مدینہ کی طرف سے یزید کی بیعت کے لئے اصرار بڑھ رہا تھا ۔اس لئے آ پ نے مدینہ کو چھوڑ کر مکہ مکرمہ کا قصد کیا ۔ اہل و عیال بھی ساتھ تھے ۔ راستے میں اہل بیت کے ایک حامی اور ہمدرد عبداﷲ بن مطیع سے ملاقات ہوئی ۔اُس نے پوچھا : ’’ کہاں کا قصد ہے ؟‘‘ تو امام حسین ؓ نے فرمایا’’ مکہ کا‘‘ ۔ ابن مطیع نے کہا ’’ مکہ جانے میں مضائقہ نہیں ہے لیکن خدا کے لئے کوفہ کا قصد ہر گز نہ کیجئے گا۔ وہاں کے لوگ بڑے غدار ہیں۔ انھوں نے آ پ کے والد بز ر گوار اور محترم بھائی دونوں کو دھوکہ دیا ۔ آ پ اہل حجاز کے سردار ہیں حرم میں بیٹھ کر اطمینان سے لوگوں کو دعوت دیجئے۔ حرم کا گوشہ ہر گز نہ چھوڑیئے گا۔‘‘

آ پ مکہ میں تھے کہ اہل کوفہ کے خطوط پہنچنے لگے کہ وہ خلافت کے منصب کے لئے آ پ ہی کو موزوں سمجھتے ہیں ۔ عمائدین کوفہ کا ایک وفد بھی آپ کے پاس آیا اور کوفہ چلنے کی درخواست کی۔ آ پ نے اپنے چچاد اد بھائی مسلم بن عقیل کو صورتحال معلوم کرنے کے لئے کوفہ بھیجا۔ مسلم بن عقیل نے کوفہ پہنچ کر امام حسین ؓ کے حامیوں سے ملاقاتیں شروع کیں اور امام کو خط لکھا کہ لوگ آ پ کے ساتھ ہیں ۔ تشریف لئے آ ئے ۔ یزید کو بھی اس کی خبر مل گئی آ س نے ایک سخت گیر حاکم عبید اﷲ بن زیاد کو کوفہ بھیجا۔ عبید اﷲ بن زیاد کی سختیوں سے ڈر کر اہل کوفہ نے مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا اور ابن زیاد نے مسلم بن عقیل کو قتل کر ا دیا۔

اُدھر مکہ معظمہ میں امام حسین ؓ کو مسلم بن عقیل کا خط ملا تو وہ کوفہ کی طرف روانگی کی تیاریاں کرنے لگے ۔امام حسین ؓ کے رشتہ داروں اور اہل مکہ نے اُ ن سے گزارش کی کہ وہ کوفہ جانے کا ارادہ ترک کر دیں ، کیونکہ اہل کوفہ ناقابل اعتبار ہیں ۔ مگر امام حسین ؓنے کہا کہ : ’’ مجھے معلو م ہے کہ آ پ سب لوگ میرے خیر خواہ ہیں لیکن میں عزم کر چکاہوں ‘‘چنانچہ ذی الحجہ ۲۰ ھ میں آ پ اپنے اہل و اعیا ل سمیت کوفہ روانہ ہو گئے آ پ مکہ سے نکلے ہی تھے کہ فَر زوق شاعرنے جو کوفہ آ رہا تھا آ پ کو صورتحا ل سے آ گاہ کیا اور کہا کوفیوں کے دل آ پ کے ساتھ ہیں مگر اُ ن کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں ۔مقام ثعلبیہ میں پہنچ کر آ پ کو مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی آ پ کے ارادے میں کچھ تبدیلی ہوئی اور خیر خواہوں نے بھی واپسی کا مشورہ دیا مگر مسلم بن عقیل ؓ کے بھائی نہ مانے ، انھوں نے کہا ہم مسلم کے خون کا بدلہ لیں گے ۔ اسی دوران میں دو قاصدوں نے مسلم بن عقیل کی وصیعت آپ تک پہنچائی کہ آپ کوفہ آ نے کا ارادہ ترک کر دیں ۔ اس موقع پر آ پ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے فرمایا : ’’ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبد اﷲ بن بقطر قتل ہوگئے ۔ ہمارے حامیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیاـ۔ تم میں سے کو شخص لوٹنا چاہئے وہ لوٹ سکتا ہے میری طرف سے اس پر کوئی الزام نہیں ہوگا۔ عوام کا جو ہجوم راستے میں ساتھ ہوگیا تھا سنتے ہی چھٹنے لگاآ پ کے ساتھ وہی جان نثار رہ گئے جو مدینہ سے ساتھ چلے تھے۔

کچھ آ گئے بڑھے تو مقام ذی حشم میں حر بن یزید تمیمی سے آ منا سامنا ہوا حرکو ایک ہزار سپاہ کے ساتھ اس لئے بھیجا گیا تھا کہ وہ آ پ کو گیر کر ابن زیاد کے پاس پہنچا دے ۔ آ پ نے اُ س فرمایا : ’’ میں خود نہیں آ یا ہوں ۔ تم لوگوں کے خطوط آ ئے تھے کہ ہمارا کوئی امام نہیں ۔ آ پ آ کر ہماری رہنمائی کیجئے ۔ اگر تم لوگ اس بیا ن پر قائم ہو تو میں تمھارے شہر چلوں ورنہ یہی سے پلٹ جاؤں‘‘ ۔ حر نے کہا مجھے حکم ملا ہے کہ ’’میں آ پ کو ابن زیاد کے پاس پہنچا دوں میں ابن زیاد کو لکھ دیتا ہوں ، ممکن ہے مفاہمت کی کوئی صورت نکل آ ئے ‘‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔

مقام بیضا میں حضرت امام حسین ؓ نے اپنا موقف واضع کرنے لئے ایک پر جوش خطب دیا: ’’ لوگو! رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظالم ہے حدوداﷲ کو توڑتا ہے ، خدا سے کیے ہوئے عہد کا پاس نہیں کرتا اور وہ شخص یہ سب کچھ دیکھنے کے باجاوجود اس ظالم حکمران کی مخالفت نہیں کرتا تو اﷲ تعالیٰ اُس ظالم حکمران کی مخالفت نہیں کرتا تو اﷲ تعالیٰ اُس ظالم حکمران کے ساتھ اسے بھی دوزخ میں ڈال دے گا۔ یزید اور اس کے ساتھی شیطان کی پیروی میں لگ گئے ہیں ۔ رحمن کے باغی ہوگئے ہیں۔ فساد کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ احکام الٰہی کو معطل کر چکے ہیں۔ بیت المال پر ان کا ناجائز قبضہ ہے ۔انھوں نے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر دیا ہے اور جس کو حلال فرمایا ہے اسے وہ حرام ٹھہرا چکے ہیں۔ اس لیے میں ان کی سر کشی کو حق و عدل سے بدل دینے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں ۔‘‘

نینو یٰ میں حُر کو حکم ملا کہ امام حسین ؓ کو ایسے چٹیل میدان میں اترنے پر مجبور کرو جہاں نہ پانی ، نہ کو ئی پناہ کی جگہ ۔ ۲ محرم ۶۱ ھ کو امام حسین ؓ کا قافلہ اس جگہ اترا جس نے کربلا کا نام پایا ۔ ۳ محرم کو عمر بن سعد چار ہزار مزید فوج لے کر پہنچا ۔ اس نے بھی پہلے مفاہمت کی کوشش کی لیکن ابن زیاد کی طرف سے حکم آ یا کہ ہر صورت امام حسین ؓ سے بیعت لو۔ ابن زیاد نے دوسرا حکم یہ بھیجا کہ امام حسین ؓ پر پانی بند کر دو ۔ چنانچہ ابن سعاد نے دریا ئے فرات پر پہرا بٹھا دیا ۔ ابن زیاد کو اندازہ ہوا کہ ابن سعد جنگ کو ٹال رہا ہے چنانچہ اس نے شمر زی الجوش کو اس کے پاس بھیج دیا اور لکھا کہ میرا حکم پہنچتے ہی امام حسین ؓ سے بیعت لیکر میرے پاس بھیج دو ۔ اگر تم یہ کام نہیں کر سکتے ہو تو پھر فوج کی کمان زی الجوش کے حوالے کر دو۔

حضرت امام حسین ؓ بیعت پر آ مادہ نہ تھے ۔ یزید کی فوج بیعت لئے بغیر انھیں چھوڑنے پر تیار نہ تھی ۔ آ پ نے ایک دفعہ پھر ساتھیوں کو اختیار دیا کہ چاہیں تو چلیں جائیں مگر وہاں جان نثاروں نے اسے قبول نہیں نہ کیا ۔ حضرت امام حسین ؓ نے اہل بیت اور خیموں کی حفاظت کا انتظام کیا ۔ ۷۲ جان نثا روں کی فوج کو مقابلے کے لئے ترتیب دیا ۔ بارگاہ خدا وندی میں دعا کی اور اتمام حجت کیلے دشمن فوج سے خطاب کرتے ہوئے اپنا حسب نسب بیان کیا ۔ آ نے کاسبب بتایا اور واپسی کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اُدھر سے ایک ہی شرط تھی :’’ بیعت کر لو تمھاری ہر خواہش پوری کی جائے گی ۔‘‘ آ پ کا جواب تھا : ’’ خد ا کی قسم میں ذلیل کی طرح یزید کی بیعت کر کے غلام کی طرح اس کی خلافت تسلیم نہیں کروں گا ۔‘‘ حر بن یزید تمیمی یہ باتیں سن کر یزید کے لشکر سے کٹ کر امام حسین ؓ کے ساتھ آ ملا۔

جمعہ کا دن تھا، محرم کی دسویں تاریخ تھی۔ امام حسین ؓ رات بھر عبادت اور صبح کی نماز سے فارغ ہو کر میدان میں آ ئے ۔ جنگ شروع ہوئی ۔ ایک طرف چار ہزار مسلح سپاہ تھی۔ دوسری طرف کل ۷۲ آ دمی تھے ۔ تاہم یہ مٹھی بھر جان باز بڑی شخصیت سے لڑے ۔ دوپہر تک حضرت امام حسین ؓ کے بہت سے جان نثار کام آ ئے ۔ دشمن ہر طرف سے یورش کر دی ۔ آ پ کے بھائی اور جگر گوشے آ پ کے سامنے گرتے اور شہید ہوتے رہے ۔ مگر آ پ نے لڑائی میں حیدر کردار کی یاد تازہ کر دی ۔ آ خر آ پ اکیلے رہ گئے اور لڑتے لڑتے خستہ حال اور نڈھال ہو گئے ۔ پیاز کی شدت نے غلبہ کیا تو پانی کی طرف بڑھے لیکن اسی اثنا میں دشمن کا تیر آ یا ۔ آ پ ؓ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا ۔ آ پ دریا سے واپس آ ئے تو دشمنوں نے ہر طرف سے گیر لیا ۔آ پ زخمو ں سے چور تھے مگر برابر مزاحمت کر رہے تھے ۔ عمر بن سعد نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ آپ کا سر تن سے جد ا کر دیں مگر کسی میں یہ ہمت اور جرات نہ تھی کہ یہ کام کر سکے ۔ آ پ نے نماز ِ عصر میں مصروف تھے ۔ سر سجدے میں رکھا تھا کہ شمر نے آ گئے بڑھ کر وار کیا اور آ پ کا سر تن مبارک آ پ کے مبارک جسم سے الگ کر دیا ۔ اس کے بعد آ پ کی نعش پر گھوڑے دوڑائے گئے ۔ آ پ کے خیمے نذر آ تش کر دیئے گئے ، آ پ کے جسد مبارک دفن کر دیا گیا اور آ پ کا سر ابن زیاد کے پاس بھیجا گیا۔ لٹے پٹے اہل بیت کا قافلہ بھی ساتھ تھا ۔ اہل بیت کا یہ قافلہ اور آ پ کا سر بعد میں ابن زیاد نے یزید کے پاس بھجوا دیا ۔

اس بے سرو سامانی کے عالم میں حضرت امام حسین ؓ کی ہمشیرہ حضرت زینب ؓ نے جس طرح اہل قافلہ کو تسلی دی اور ہمت بڑھائی۔ تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی ہے ۔ واقعہ کربلا تاریخ اسلام کا بہت اہم واقعہ ہے ۔ یہ امام حسین ؓ اور اہل بیت کی مظلومیت کی داستان بھی ہے اور راہ حق میں انکی قربانیوں ، جان نثاریوں اور جراتوں کا قابل تلقید کار نامہ بھی۔ حضرت امام حسین ؓ نے مقدس خون سے تاریخ اسلام کا یہ بات رقم کیا کہ اہل حق سر تو کٹا سکتا ہے مگر باطل کے آ گے جھکا نہیں سکتے ۔ آ ج بھی رزم ِ حق و باطل میں کوئی شخص قدم رکھتا ہے تو اُس کے سامنے اسوہ حسین ؓ روشنی بن کر نمودار ہوتا ہے واقعہ کربلا اسے یاد دلاتا ہے ۔
قتل ِ حسین ؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کر بلا کے بعد

محترم قارئین حضر ات ! وقعہ کربلا اور شہادت امام حسین ؓ سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ راہ حق میں مرنے سے ڈرنا ہر گز نہیں چاہئے اور طابل کے سامنے جھکنے سے بہتر ہے کہ اہم موت گلے لگا لیں ۔ساتھ ساتھ یہ معلوم ہوتا ہے کہ غلط حکمران کے سامنے جھکنا یا اس کی بیعت کرنا انتہائی غلط عمل ہو گا۔ایسیطاقت ور حاکم یا ظالم شخص جو اسلام کی نظام کو نقصان پہنچانے کیطاقت رکھتا ہے ایسے شخص کے ساتھ جہاد کر حق کا ساتھ دینا ہی درست ہے ۔
غریب و سادہ رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتداہے اسماعیل ؑ
Asif Yaseen
About the Author: Asif Yaseen Read More Articles by Asif Yaseen: 49 Articles with 45788 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.