پٹرول کے علاوہ بجلی ٗ گیس ٗ ڈالر اورقیمتو ں کوبھی استحکام دینا ہوگا

بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں 72 روپے ڈالر آنے کے بعد نواز شریف نے جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت 94 روپے کرکے ایک اچھا اقدام کیا ہے اگر نوازشریف عوام کو ریلیف دینے کا سوچ ہی بیٹھے ہیں تو انہیں بے رحم وزیر خزانہ کی باتوں میں آنے کی بجائے پٹرول کی قیمت 70 روپے پر لانی ہوگی کیونکہ قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں دیا جانے والا یہ بیان موجود ہے کہ پاکستان بین الاقوامی مارکیٹ سے پٹرول 70 روپے لیٹر خریدتا ہے ۔جبکہ پی آئی اے اور نیٹو افواج کے لیے پٹرول اس سے بھی کم قیمت پر فراہم کیا جاتا ہے۔مشرف دور میں پٹرول کی قیمت 50 روپے تھی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کمیشن کی رپورٹ پر جب پٹرول کی قیمت میں اضافے کو ختم کرنے کا حکم دیاتو زرداری حکومت نے نہ صرف لیوی ٹیکس بلکہ بے تحاشاٹیکسوں کا بوجھ لاد کے پٹرول کو 110 روپے فی لیٹر تک پہنچا دیا۔نوازشریف کو مہنگائی کے خاتمے کا اگر وعدہ یاد ہے تو اسے پٹرول پر ہرقسم کا ٹیکس ختم کرکے درآمدی قیمت 70 روپے پر لانا ہوگا۔پھرپٹرول کی قیمتوں میں پے درپے اضافوں سے ملک بھر کے پٹرول پمپوں کے مالکان اور حکومتی اداروں نے پچھلے سات سالوں میں کھربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکلوائے ہیں تھرڈ پارٹی آڈٹ کروا کر راتوں رات کھرب پتی بننے والوں سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لا کر عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔عوام کو ریلیف دینے کے لیے دوسرا راستہ بجلی کی قیمت میں عوام کی قوت برداشت کے مطابق کمی ہے بھارت اور بنگلہ دیش میں 6 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کا ریٹ عوام سے وصول نہ کیا جائے بلکہ تربیلا منگلا اور دیگر ڈیموں سے پیدا ہونے والی کی قیمت عوام سے وصول کی جائے فرنس آئل کی یونٹوں سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت میں جو فرق آتا ہے وہ حکومت اپنے اخراجات وزیروں اور مشیروں کی تعداد اور مراعات کم کرکے پورا کرے ملک بھر لیسکو کیپکو کی طرح برسات کے موسم میں اگنے والی تمام کمپنیوں اور ان کے بھاری تنخواہ والے افسران کی تعداد کو ختم کرکے واپڈا کو بحال کرکے ہرسال کھربوں روپے بچائے جاسکتے ہیں۔سرکاری اداروں اور افسران کے گھروں میں ائیرکنڈیشنڈ پر مکمل پابندی لگاکر بھی اربوں روپے بچائے جاسکتے ہیں۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بجلی کے صارفین کو 50 فیصد زائد بل اور میٹروں کی رفتار تیز کرکے اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرنے کے ساتھ ساتھ عوام سے کسی بھی طرح 500 یونٹ تک 6 روپے فی یونٹ سے زیادہ وصول کرنا ان کے قتل کے مترادف ہوگا۔ اگر حکومت عمران کے دھرنوں ٗ جلسے جلوسوں اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی بلیک میلنگ سے بچنا چاہتی ہے تو یہ کڑوا گھونٹ پی کر عوام کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ حکومت ان کی مشکلات کا احساس کرکے بجلی 6 روپے یونٹ فراہم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ مشرف دور میں ڈالر کی قیمت بھی 55 روپے تھی لیکن زرداری حکومت نے آنکھیں بند کرکے ڈالر کی قیمت نہ صرف 106 تک پہنچا دیا بلکہ سٹاک مارکیٹیوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں دیوالیہ پن کا شکار کرکے قبرستانوں میں دفن کردیا ڈالر کی قیمت میں دوگنا اضافہ کی وجہ سے تمام درآمد ی اشیاء کے ریٹ 300 گنا بڑھ ہوگئے اور مہنگائی کے طوفان نے گھروں کے چراغ غل اور چولہے بجھا کر رکھ دیئے ۔اگر حکومت پٹرول ٗ بجلی ٗ گیس اور ڈالر کی قیمت کو حقیقی اور پرانی سطح پر لے آئے تو آٹا ٗ چاول ٗ دالیں گوشت اور سبزیوں کی قیمتیں خود بخود نصف ہوجائیں گی لیکن حد سے زیادہ منافع خوری کی بیماری تھوک اور پرچون فروشوں میں موجود ہے جس کا ازالہ حکومتی سطح پر تمام اشیائے خورد نوش کی قیمتوں کا تعین کرکے اس پر منافع کی شرح 10 یا 15 تک محدود کردی جائے جبکہ تمام تھوک اور پرچون فروشوں کو فروخت کا حساب کتاب رکھنے کے لیے کیش بکیں سی بی آر کی جانب سے جاری کی جائیں اور کسی بھی چھوٹے بڑے دکاندار کو اس وقت تک کاروبار کی اجازت نہ دی جائے جب تک وہ سی بی آر کے مقامی دفتر میں اپنا اندارج کروا کے وہاں سے کیش میمو بکس وصول اور واپس جمع نہ کردے ۔ یہی طریقہ تمام سپیشلسٹ ڈاکٹروں ٗ وکیلوں ٗ فرنیچر ٗ پراپرٹی ڈیلروں ٗ پٹرول پمپوں ٗ ٹھیکیداروں ٗ زمینداروں ٗ آڑھت اور تعمیر سے وابستہ کمپنیوں کے ساتھ اپنا یا جائے اس طرح ایک جانب تمام لوگ ٹیکس نٹ ورک میں آجائیں گے اور ان سے حقیقی آمدنی کے مطابق ٹیکس وصول کیاجاسکے گا تو دوسری طرف حکومت میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوجائے گی۔علاوہ ازیں ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے حکومتی اور نجی اداروں ورکشاپوں ٗ صفائی کا کام کرنے والوں ٗ پٹرول پمپوں ٗ میڈیکل سٹوروں ٗ دینی مدرسوں ٗمسجدوں کے خطیبوں ٗ ہوٹلوں ٹرکوں ٗ پھل اور سبزی منڈیوں میں کا م کرنے والوں کو تنخواہ کے ساتھ مالک یا مجاز اتھارٹی کی جانب سے تنخواہ کی رقم کا تحریری لیٹر بھی جاری کرنا لازمی قرار دیاجائے تاکہ ہر شخص کو حکومت کی مقرر کردہ تنخواہ کے مطابق ادائیگی یقینی بنائی جاسکے ۔بے روزگاری کا مسئلہ بھی آسیب کی طرح دھار چکا ہے انتہائی مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود نوجوانوں کو روزگار نہیں ملتا جس سے تعلیم یافتہ نوجوان جرائم پیشہ گروپوں اور دہشت گردوں کا ایندھن بنتے جارہے ہیں آج اگر لاہور جیسے شہرمیں بلا خوف و خطر دن اور رات کی تمیز کیے بغیر چوری اور ڈاکے کی وارداتیں تسلسل اور حد سے زیادہ ہورہی ہیں تو اس کی وجہ بے روزگاری کی حد سے بڑھتی ہوئی شرح اور دوسری وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بدترین نااہلی ہے ۔سانپ کا اگر سر نہ کچلا جائے تو بچے دے دیتا ہے مجرم کو اپنے جرم کی سزا نہیں ملے گی تو وہ معاشرے کا نہ صرف خود ناسور بن جائے گا بلکہ بے شمار بے روزگاروں اور ضرورت مندوں کو اپنے ساتھ ملا کر ملک گیر پیمانے پر گروپ بنا لے گا اس وقت ملک میں بڑھتی دہشت گردی ٗ چوری ڈاکے کی صورت حال حقیقت حال کی عکاسی کرتی ہے ۔واہگہ بارڈر جہاں ہر شام لمبا سفر طے کرکے قومی جذبے اور وطن عزیز سے محبت کااظہار کرنے کے لیے ہزاروں مرد وزن جمع ہوکر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں پیشگی اطلاعات کے باوجود وہاں خود کش دھماکے کی شکل میں 57 افراد کی شہادت اور 125 افراد کے زخمی ہونا سیکورٹی اداروں کی ناکامی اور نااہلی کا عملی اظہار ہے ۔ افسوس کہ تمام حکومتی اور اپوزیشن اور سابقہ حکومتی شخصیات کی سیکورٹی پر تو قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کرکے فوج پولیس اور رینجر کے ہزاروں اہلکار مامور کردیئے گئے اگر اتنی ہی تعداد میں سیکورٹی اہلکار دہشت گردوں کا تعاقب کرکے انہیں واردا ت سے پہلے دبوچ لیتے تو نہ دنیا بھر میں پاکستان کو سیکورٹی رسک قرار نہ دیا جاتا اور نہ ہی شہر شہر اور جگہ جگہ بم اور خود کش دھماکوں کی صورت میں بے گناہ افراد کی شہادتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔مذمتی بیانات دینے کی بجائے تمام شخصیات سے سیکورٹی اہلکار واپس لے کر انہیں دہشت گردوں کے تعاقب پر لگایا جائے اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ہر صنعتی زون میں فنی مہارت کا ادارہ قائم کرکے انہیں ہنر سکھا کر اندرون اور بیرون ملک ان کے روزگار کا ااہتمام کیاجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان امن و سکون کا باعث نہ بن جائے ۔پھر نہ کو عمران کے دھرنے میں جائے گا اور نہ ہی کوئی طاہر القادری کے جھوٹے وعدوں پر اعتبار کرے گا۔نواز شریف ان اقدامات کے ساتھ ساتھ تھرکول ٗ سیلابی علاقوں میں چھوٹے اور بڑے ڈیم بنا کر سستی بجلی پیداکرنے اور تیل اور گیس کی تلاش کے لیے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا تعاون حاصل کرکے گھریلو اور صنعتی صارفین کو ریلیف دینا ہوگا۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 785 Articles with 679617 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.