3. - یزید ابن معاویہ کے بارے میں علماء حق کی راۓ - محرم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عوام الناس میں کچھ فرقہ پرست لوگوں کے غلط پروپگنڈہ کی وجہ سے یزید ابن معاویہ کے بارے میں کچھ غلط راۓ عام ہے اس سلسلہ میں چند جید علماء حق کی راۓ دلائل اور حوالوں کے ساتھ مندرجہ ذیل ہے.

مفہوم:”یزید ابن معاویہ صحیح اسلام پر تھا اور وہ مسلمان تھا”
(حوالہ: وافیان الاعیان و ابنا ابنا الزامان جلد: 1، صفحہ: 328)

عبدالحئ حسینی نے کہا، مفہوم: ”فسق (گناہ سر عام کرنا) اور کفر کا الزام یزید ابن معاویہ پر لگانا حرام ہے. اور یہ باتیں اس کے حوالہ سے کرنا حلال گرداننا بھی حرام ہے."
(حوالہ: نزحتل خواتیر و بہجتل مسعمہ والنوازیر جلد 7، صفحہ 514)

اسی طرح ابن حجر هيثمي مکی الشافعی رحمہ اللہ (المتوفی 974 ہجری) نے کہا، مفہوم: ”یزید ایک ایمان والا تھا، ایمان والوں میں سے."
(حوالہ:السوائق المہرقہ صفحہ: 223)

ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ (المتوفی 1014 ہجری) نے فرمایا، مفہوم: ”یزید کا ایمان والا ہونا کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں."
(حوالہ: شرح فقہ الاکبر صفحہ 88)

اسی طرح مشہور تاریخ دان ابن خلدون (المتوفی 732 ہجری) مقدمہ ابن خلدون میں یزید ابن معاویہ کے بارے میں یوں رقم طراز ہوۓ، مفہوم: ”زیادہ تر صحابہ یزید ابن معاویہ کے ساتھ تھے اور انہوں نے یزید کے خلاف خروج کی اجازت نہیں دی."
(حواله: مقدمہ ابن خلدون صفحہ:217)

امام غزالی رحمہ اللہ (المتوفی 505 ہجری) نے فرمایا، مفہوم: ”وہ مسلمان تھا، ایک مکمل مسلمان اور صحیح عقیدہ پر اور شریعہ میں اس پر لعن طعن کرنے کی اجازت نہیں."
(حوالہ: احیاء العلوم جلد: 3 صفحہ: 108)

محدث قاضی ابوبکر ابن العربی المالکی رحمہ اللہ (المتوفی 543 ہجری) نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ یزید پر لعن طعن کی جاۓ نہ ہی کافر گرداننے کی اجازت دی. انہوں نے مزید کہا، مفہوم:”اگر یہ کہا جاۓ کہ انصاف اور علم خلافت کی شرائط ہیں اور اگر یزید کے پاس یہ دونوں نہ تھے، تو ھم یہ کہیں گے کہ تمہیں کہاں سے پتا لگا کہ اس کے پاس نہ تو علم تھا اور نہ ہی انصاف؟"
(حوالہ: الاواسم من القواسم،صفحہ: 222)

اسی طرح قاضی ابو بکر ابن العربی المالکی رحمہ اللہ نے مزید فرمایا، مفہوم:”کہاں ہیں وہ تاریخ دان جنہوں نے یزید پر فسق (سر عام گناہ کرنا) اور شرابی ہونے کا کہا، کیا ان میں شرم نہیں؟"
(حوالہ: الاواسم من القواسم،صفحہ: 222)

یاد رہے کے یہ ملحد اور زندیق ابن عربی نہیں بلکہ محدث ابو بکر ابن العربی المالکی رحمہ اللہ ہیں-

ابو المغیض الحمبلی (المتوفی 583 ہجری) رحمہ اللہ یزید پر لعن اور کافر کہنے کے حق میں نہیں تھے بلکہ انہوں نے یزید پر ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا "فضل یزید". ابن کثیر (المتوفی 774 ہجری) رحمہ اللہ نے ابو المغیض الحنبلی رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا کہ، مفہوم: وہ ایک صالح حمبلی تھا جس کی طرف لوگ رجوع کرتے تھے
(حوالہ: البدایہ والنہایہ جلد: 12 صفحہ: 328)

اسی طرح حافظ ابن جوزی (المتوفی 597 ہجری) رحمہ اللہ نے ابو المغیض رحمہ اللہ کے بارے میں کہا مجھے امید ھے کہ میں اور ابو المغیض جنت میں اکٹھے ہوں گے
(حوالہ: تبقات حنابلہ جلد: 1 صفحہ: 356)

حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن جوزی رحمہما اللہ کی اس گواہی سے ظاہر ہوا کہ ابو المغیض رحمہ اللہ ایک قابل اعتماد علماء میں سے تھے اور انکی راۓ لی جاسکتی ہے اگر وہ قرآن والسنۃ کے مخالف نہ ہو، کہ جو اصول ہر عالم کے لیے ہمیشہ رہے گا.

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی 728 ہجری) نے فرمایا، مفہوم: ”یزید لڑکپن سے ہی مسلمان تھا. نہ تو وہ کافر تھا اور نہ ہی زندیق. وہ بہت صدقات کرتا تھا. وہ بہادر تھا. اس میں کچھ برا یا شیطانی اعمال نہیں تھے جیسا کہ دشمن اس پر ڈالتے ہیں."
(حوالہ: مجموع الفتوی جلد: 2، صفحہ: 41)

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی 728 ہجری) نے مزید فرمایا: "وہ (یزید ابن معاویہ) ایک مسلمان بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا اور وہ اسطرح نہیں تھا جیسا کہ لوگ اسکے بارے میں غلط راۓ رکھتے ہیں."
(حوالہ: منحاج السنتہ جلد: 2،صفحہ: 247)

ایک اور جگہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم: "بلکہ معاویہ، یزید، بنی امیہ اور بنی عباس کا اسلام تواتر سے ثابت ہے اسی طرح ان کا نماز، روزہ، اور کفار کے خلاف جہاد بھی ثابت ہے."
(حوالہ: منحاج السنتہ جلد: 1 صفحہ: 163)

حافظ ابن کثیر نے ابو الخیر قزوینی (المتوفی 590 ہجری) رحمہ اللہ کے بارے میں کہا کہ ابو الخیر رحمہ اللہ عاشورہ کی دن بغداد میں منبر پر بیٹھ کر نصحیت کرنے لگا. ان کو یزید پر لعنت بھیجنے کہا گیا. آپ نے فرمایا،مفہوم: یزید ایک امام اور مجتہد تھا.
(حوالہ: البدایہ والنہایہ جلد: 9 صفحہ: 13)

حافظ ابن صلاح الشافعی (المتوفی 643 ہجری) رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ یزید پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے حکم دینے پر لعنت کی جاۓ؟ تو آپ نے جواب دیا، مفہوم: "ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کہ یزید نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا اور یزید پر لعنت بھیجنا ایمان کی علامت نہیں.."
(حوالہ: السوائق المھرقہ 222)

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم:جو لوگ یزید پر لعنت کے حامی ہیں وہ ثابت کریں کہ: 1. یزید ایک فاسق اور ظالم تھا اور زندگی کے آخر وقت تک رہا 2. اور پھر یہ ثابت کریں کہ یزید پر لعنت کرنا جائز ہے. اور آیت، مفہوم:”اور اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر" ایک آیت عام ہے. اور حدیث بخاری ہے کہ: پہلی فوج جو کہ فسطنتنیہ میں جہاد کرے گی وہ جنتی ہیں اور اس مہاذ کا کمانڈر یزید ابن معاویہ تھا.
(حوالہ: منحاج السنتہ جلد: 2،صفحہ: 252)

اگرچہ کچھ علماء اور شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک قسطنتنیہ کے پہلے مہاظ کے کمانڈر یزید ابن معاویہ تھے مگر محققین علماء مثلا حافظ ابن کثیر اور حافظ زبیر علی زئ رحمہم اللہ وغیرہ کے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے اور قسطنتنیہ کے پہلے مہاظ کے کمانڈر نہ تو یزید ابن معاویہ تھے،نہ ہی اس مہاظ میں شرکت کی، واللہ اعلم.

حافظ ابن القیم (المتوفی 751 ہجری) رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “المنار المنیف فی الصحیح والضعیف صفحہ: 220 میں فرمایا، مفہوم: ”تمام وہ روایات جو یزید ابن معاویہ پر سخت تنقید کرتی ہیں وہ جھوٹ ہیں اسی صفحہ پر فرمایا،”تمام وہ روایات جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کرتی ہیں وہ جھوٹ ہیں.

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے الحراسی کی راۓ لعن کرنے کےحق میں لکھنے کے بعد لکھا، مفہوم: "اور امام غزالی نے لعنت بھیجنے سے منع کیا"
(حوالہ: البدایہ والنہایہ جلد: 12 صفحہ: 173)

ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ (المتوفی 1014 ہجری) نے فرمایا، مفہوم: ”زیادہ تر علماء نے یزید اور حجاج پر لعنت سے منع کیا."
(حوالہ: مرکاۃ شرح مشکاۃ، جلد: 4 صفحہ: 52)

حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ (متوفی 795 ہجری) نے یزید کو کافر اور لعنت کا مرتکب ٹھرانے کی اجازت نہیں دی بلکہ انہوں نے امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے خلاف جھوٹ کو رد کیا کہ انہوں نے یزید پر لعنت کو جائز قرار دیا تھا، یہ حوالہ دیکھۓ
(طبقات حنابلہ جلد: 2 صفحہ: 356)

قرآن وحدیث کی روشنی اور علماء حق کے ان واضع دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فرزند یزید ابن معاویہ کی حاکمیت میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا جو ایک تاریخی واقعہ جو 61 ہجری میں کربلہ کے مقام پر پیش آیا. مگر اسکے باوجود پھر بھی جمہور (زیادہ) علماء احناف اور مالکی، شافعی اور حنبلی علماء کے درمیان کوئ اختلاف نہیں کہ یزید رحمہ اللہ پر لعنت کرنا، یا کافر گراننا یا زندیق سمجھنا بالکل ناجائز اور حرام ہے، ان دلائل سے یہ ظاہر ہوا کہ نہ صرف یہ بلکہ یزید کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ یا رحمہ اللہ کہنا بھی جائز اور بہتر عمل ہے.

اس حادثہ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بہی عرض کیا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یزید ابن معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو حکومت کا نا اہل نہیں سمجھتے تھے اگر ایسا ہوتا تو وہ یزید کی بیعت کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے اور یزید کے پاس جانے کے مطالبے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یزید سے حسن سلوک ہی کی توقع تھی. اور اس حادثہ کی ذمہ دار عبید اللہ ابن زیاد اور اسکی کوفی فوج تھے جنہوں نے خطوط بھی لکھے اور کوفیوں ہی نے عمر ابن سعد کی مصالحت کو ناکام بنایا.

اللہ ہمیں حق کو ماننے اسکو سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور قرآن والسنۃ کو صحابہ، تابعین، اتبع تابعین اور سلف الصالحین کے فہم اور منہج پر صحیح اور حسن اسناد کی روشنی میں سمجھنے اور پھیلانے کی توفیق عطا فرماۓ، آمین.
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 414240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.