مارکنگ سسٹم کو بہتر بنا کر تعلیمی بورڈ طلبا کو خود کشی سے بچائیں

اس نے میٹرک میں 85فیصد نمبر حاصل کئے تھے اور آج اس کا فر سٹ ایئر کا رزلٹ اناؤنس ہونا تھا ان کا رواں رواں بے چین تھا اور آج کا رزلٹ بھی کچھ تاخیر کا شکار تھا آخر کا رر رزلٹ انٹر نیٹ پر ڈسپلے ہونا شروع ہو ا اور جب اس نے اپنا رولنمبر لکھ کر Submitکیا تو جو رزلٹ اس کے سامنے تھا وہ اس کی سوچوں تمناؤں اور خواہشوں کو تہہ و بالا کرنے کیلئے کا فی تھا اس نے دوبارہ رولنمبر چیک کیا لیکن رزلٹ وہی رہا یعنی کہ وہ تین مضامین میں فیل تھا۔ اس کا سرگھوم رہا تھا۔ دنیا چکر کھاتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ وہ نہایت دل بر داشتہ تھا۔ اس کے دل ودماغ اس رزلٹ کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے اسے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھاتی دیتا تھا۔ کہیں کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی کوئی راستہ منزل کوئی حل سجھائی نہ دیتا تھا آخر جو حل اسے قابل عمل لگااس نے اس پر عمل کر ڈالا جی ہاں اس نے خود کشی کرلی۔ خود کو نظام تعلیم کی خامیوں ،بداعمالیوں اور ابے حسی کی بھینٹ چڑھا دیا تھا کیونکہ اس کے پا س اسکے علاوہ کوئی اور چارہ بھی تو نہ تھا۔ وہ شہزاد احمد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا طالب علم تھاافسوس ناک اور دلچسپ بات یہ کہ جب ری چیکنگ کی گئی تو وہ پاس تھا مگر وہ اس دنیا میں نہیں تھااور اسی طرح سے بیس سے زائد طالب علموں نے فیل ہونے پر خود کشی کی تھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی سٹوڈنٹ اس حد تک جاتا ہے تو اس میں ذمہ دار کون ہے؟ والدین، گھریلو ماحول، تعلیمی بورڈ، پیپر مارک کرنے والے استاتذہ یا پھر خود طلبہ ۔اگر اس میں کہیں پرقصور طلبہ کا ہے تو لازمی طور تعلیمی بورڈز اور بالخصوص وہ پیپر چیک کرنے والے استاتذہ ہیں جو صرف بنڈل کو مکمل کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں کہ بنڈل جتنے زیادہ چیک ہونگے معاوضہ اتنا ہی زیادہ ملے گا اس سے کسی کا مستقبل تباہ ہوتا ہے تو ہو جائے کوئی جان سے جاتا ہے تو چلاجائے انہیں تو صرف اور صرف پیسے بنانے سے غرض ہے اور گذشتہ دو تین سالوں سے تو یہ پریکٹس عام ہو چکی ہے اور مارکنگ میں غلطیوں کی بھر مار اس قدر سامنے آئی ہے کہ رہے نام اﷲ کا ۔

قارئین کرام افسوناک بات یہ ہے کہ اگر سٹوڈنٹ ری چیکنگ (ری کاونٹنگ)کی درخواست دے توفی مضمون 750روپے بورڈکی ادا کرنے پڑتے ہیں اور پھر ایک مخصوص فارمیٹ کا ایک لیٹر سب کے پاس جاتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ہم نے آپ کاپیپر چیک کر لیا ہے اور اس میں کوئی کمی یا خامی نہ پائی گئی ہے پھر بھی اگر آپ خود آکر دیکھنا چاہتے ہیں تو فلاں تاریخ کوبورڈ میں حاضر ہوں اس لیٹر کے بعد نوے فیصد طلبا اسی پر اکتفا کر لیتے ہیں اور جو دس فیصد بورڈ کے دفتر جا دھمکتے ہیں ان میں سے 99فیصد کو اپنے پیپرز میں غلطیوں سے واسطہ پڑتا ہے اور کچھ کے نمبر ز بھی بڑھ جاتے ہیں لیکن !لیکن!اس غلط مارکنگ کرنے والے "استاد"سے کوئی بازپرس نہیں کی جاتی اور کیسے ہوکہ ایسے ہی لوگ تو بورڈ کے ریونیومیں اضافے کا سبب بنتے ہیں یعنی خود بھی کھاتے ہیں اور بورڈ کو بھی مستفید کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں بیچارے غریب اور نادار طلبا اور والدین پرچوں کو چیکنگ اور ری چیکنگ کا معیار اور طریقہ کار طلبہ کیلئے اس قدر سنگین اور گھمبیر بن چکا ہے کہ اس معاملہ میں ان کی حالت اس شخص جیسی ہے جو دریا میں ڈوب رہا ہو اور اپنے تیئں تمام ترکوششوں کے باوجود وہ کامیاب نہ ہوسکے تو پھر وہ خود کو موجوں کے حوالے کر دیتا ہے کہ اب قسمت میں بچنا ہوا تو بچ جائیں گے ورنہ موت تو مقدر ہوچکی ہے اس سارے عمل میں ـ"دریاــ"اور مرکزی نقطہ پیپر چیک کرنے والا وہ ٹیچر ہے جو لاکھوں کروڑوں بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے لیکن افسوس اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک ایف اے، بی اے پاس کرکے بھرتی ہونے والا ٹیچر سائنس کے مضامین کی چیکنگ کررہا ہوتا ہے جسے آکسیجن اور ہائیڈروجن کی خاصیت تک معلوم نہیں ہوتی کہ ان کے ملنے سے پانی بنتا ہے نتیجتاوہ ٹیچر بہت سے بچوں کے فیل ہونے کا سبب بنتا ہے اور قانون وہی ہے کہ غلط ہو گیا تو ہوگیا اب کوئی چارہ نہیں ۔

پاکستان میں آئے روز نت نئے تجربات نے تعلیم کے شعبے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے کہ تعلیم جیسے حساس شعبے کو سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے تختہ مشق بنالیا ہے آئے روز نئے نئے تجربے کرکے تعلیم کو مذاق بنادیا گیا ہے ۔ گذشتہ 65سالوں میں پاکستان میں آنے والی ہر سیاسی و معاشی تبدیلیوں کے پیچھے جس طرح سے بیورو کریسی اپنی پالیسیاں تھوپتی ہے اسی طرح تعلیم کے معاملے میں بھی یہی حال ہے ۔ اگر ہم ترقی یافتہ اقوام کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ ہوگا کہ آج جس مقام پر جنوبی کوریا اور ملائیشیا کھڑے ہیں وہ سب کا سب تعلیم کی ترقی و اہمیت کے سبب ہی ہے جبکہ پاکستان میں ہماری تعلیمی پالیسی آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کا منظر پیش کررہی ہے ۔آئے روز کے تجربات ہماری ناقص گرفت اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔یہ ساری تمہید اور باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اب پھر امتحانات کے نتائج آچکے ہیں اب بھی مسئلہ جوں کا توں ہے۔طلبا و طالبات اپنے نتائج سے مطمئن نہیں۔ری چیکنگ درخواستوں کی بھرمار ہے طلبا اور والدین کے ساتھ ساتھ خود بورڈزکے ممبران بھی اس صورت حال سے پریشان ہیں اور طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ والدین بھی پوری طرح سے اس میں involveنظر آتے ہیں تو ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک میں تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ نت نت نئے تجربات کرنے کی بجائے پہلے سے موجود سسٹم کو بہتر بنایا جائے اور ایجوکیشن سیکٹر کو مزید تختہ مشق نہ بنایا جایے تاکہ مزیدطالب علموں کو خودکشی سے بچایا جاسکے اور انہیں ملک وقوم کیلئے معاون و مددگار بنایا جاسکے علاوہ ازیں چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے "استاد"کو بھی پابند کیا جائے اور ان کی کوتاہیوں پر ان کی اہلیت کو مستقل ختم کرکے نظام کو شفاف بنایا جائے ۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192659 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More