تھرپارکر پکار رہا ہے

قلم اور کیمرے تھامے لوگ آخر کب ہمارے گاؤں کا رخ کریں گے ۔کب وہ لوگ ہماری بھوک و افلاس سے لوگوں کو آگاہ کریں گے ۔ ہم تو اس قابل ہی نہیں کہ اپنے ہم وطنوں کو خود اپنی دکھ بھری آواز سنا سکیں۔اپنے مسائل بتا سکیں۔ہم کس طرح لوگوں کو بتائیں کہ ہمارے بچے بھوک و افلاس سے مررہے ہیں مناسب خوراک نہ ملنے کے باعث بیمار یوں نے ہمارے بچوں کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔دور دور تک نہ پانی کی دستیابی ہے اور نہ ہی خوراک کی۔گندم سرکار کے گوداموں میں تو موجود ہے لیکن ہمارے لیے نہیں بلکہ خراب ہونے کے لیے ۔کروڑوں کی امداد تو ہمارے نام پر جاری ہو گئی ، لیکن منتقل کرپشن کے اکاؤنٹ میں ہو گئی ۔میڈیکل کے نظام کی یہ حالت ہے کہ دو ہزار سے ذائد دیہاتوں میں کوئی مناسب ہسپتال نہیں۔دیہاتوں میں موجود ڈسپنسریوں میں بھی کوئی مناسب ادویات کا وجود نہیں۔میلوں تک پانی کا کنواں نہیں۔آخر ہمارا مستقبل ہے کیا۔ بھوک ،افلاس،بیماری ہی ہمارا مقدر ہے۔یاشاید بھوک ،افلاس بیماری کے باعث ہمارے بچوں کا مرنا ،کچھ لوگوں کی سیاسی دوکانداری چمکنے کا باعث ہے۔جو ہمارے نام پر امداد اکھٹی کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ڈھونگ رچاتے ہوئے ہمیں تن و تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن بعض اوقات قلم کیمرے والوں کے شور شرابے کے باعث جاری شدہ امداد کا کچھ حصہ دکھاوے کے لیے تقسیم کر جاتے ہیں۔

قارئین یہ جذبات ہیں تھر پارکر کی خشک زمین میں بسنے والے ہمارے پاکستانیوں کے ، جہاں ابھی کچھ ماہ قبل ہی ڈیرے ڈالنے والے قحط نے سینکڑوں بچوں کی زندگیاں لیں۔اس قحط میں حکومت سندھ سے زیادہ فلاحی ادارے چاک و چوبند نظر آئے۔ فلاحی اداروں کی جانب سے میڈیکل کیمپ لگائے گئے ۔راشن تقسیم کیا گیا۔بہت سے بچوں کی زندگیوں کو فلاحی اداروں کے مناسب اقدامات کے باعث بچا لیا گیا۔ لیکنپھر بھی کئی سو معصوم بچے بھوک و افلاس کے باعث اپنی جان سے گئے ۔تھر کے دیہاتوں میں میڈیا کے پہنچنے کے بعد حکومت سندھ کو بھی کچھ احساس ہوا۔اور حکومت کی جانب سے آئندہ ایسی کسی بھی آفت سے بچنے کے لیے بلند و بالا دعوے کیے گئے۔سرکاری افسران تبدیل کر دئیے گئے۔ حکومت کی جانب سے مفت گندم تقسیم کر نے کی افواہیں بھی گردش کرنے لگیں۔لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہوسکا۔او رجیسے ہی میڈیا کے لوگوں نے تھر سے اپنی توجہ ہٹھائی ۔حکومت ایک دفعہ پھر ٖغفلت کی نیند سو گئی ۔جس کہ باعث نہ ہسپتالوں میں مزید بہتر انتظامات ہو سکے، اور نہ ہی خوراک کے انتظامات۔اس آفت کو گزرے ابھی چھ ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ ناقص حکومتی حکمت عملی کے باعث قحط نے ایک بار پھر تھر میں ڈیر ے ڈال لیے۔ اس دفعہ بھی متاثرہ لوگوں کو وہی پرانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ہسپتالوں میں ادویات کا نہ ہونا ،معصوم بچوں کے لیے خوراک کا نہ ہونا،دور دور تک پانی کی عدم دستیابی کا ہونا،معصوم بچوں کا بے بس ماں باپ کے ہاتھوں میں جان دینا۔

جی ہاں یہ وہ متاثرہ لوگ ہیں۔جن کو گندم آدھی قیمت پر دینے کے لیے سرکاری گوداموں میں گندم موجود تو ضرور ہے لیکن انتظامی مسائل کے باعث تقسیم نہیں کی جارہی۔اور بھوک و افلاس کو لوگوں کو کھانے کی کھلم کھلاآزادی دے دی گئی ہے۔افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ اس سب کے ذمہ دار روٹی ، کپڑ ا ،مکان کا نعرہ لگانے والے بھی ہیں ،کیونکہ مقامی حکومت ہونے کے باعث اس آفت پر قابو پانا انکی ذمہ داری ہے۔اور ذمہ دار تو تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگانے والے بھی ہیں۔جو ادھر ادھر کی باتیں تو خوب کرتے ہیں لیکن ان قحط میں پھنسے خاندانوں کے لیے بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔جنہوں نے اپنی سیاست چلانے کے لیے تو امدادی اکاؤنٹ کھلوا لیا۔لیکن قحط کا شکار اپنے بے آسرا بھائیوں کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔اور ذمہ دار تو وفاقی حکومت بھی ہے جس نے کچھ عرصہ قبل قحط آنے کے باوجود مناسب چیک نہیں رکھا۔اور بے بس عوام کو دوبارہ قحط کا سامنا کرنا پڑا۔

سندھ گورنمنٹ کی جانب سے تھر پارکر سے ملحقہ سینکڑوں دیہاتوں کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔600کے قریب د یہا ت مکمل طور پر کھالی ہوچکے ہیں۔لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔بھوک و افلاس کے باعث 30بچے مر چکے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ساڑھے تین لاکھ سے زائد منرل پانی کی بوتلیں مقامی انتظامیہ کی لاپرواہی کے باعث ضائع ہو چکی ہیں۔چھ سو کے لگ بھگ مال مویشی مر چکے ہیں۔سو سے ذائد ڈیری سنٹرز بند پڑے ہیں۔تھر پارکر اور ارد گرد کے اضلاع میں سو واٹر فلٹر کے پلانٹ خراب پڑے ہیں۔لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔آخر انتظامیہ کیوں میڈیا کے شور مچانے سے پہلے تک خواب غفلت میں رہتی ہے ۔کیوں انتظا میہ میڈیا کی نشاندہی سے پہلے حرکت میں آنا مناسب نہیں سمجھتی۔ہماری بے حسی کا عالم یہاں تک کیوں آن پہنچا ہے کہ ہم انسانی جان کوکوئی اہمیت ہی نہیں دیتے ۔یقینا ہم بھول گئے ہیں کہ مرنے والوں سے ہمارا اخوت و بھائی چارے کا بھی رشتہ ہے۔یقینا قحط آنے کی سب سے بڑی وجہ مقامی حکومت اور انتظامیہ کی تھرمیں مسلسل لا پرواہی ہے ۔کیونکہ سو کے قریب خراب فلٹر پلانٹس کا اس سنگین صورتحال میں صیح نہ ہونا بھی تو انتظامیہ کی طرف ایک سوالیہ نشان ہے۔سو سے زائد ڈیری سنٹرز کا بند ہونا بھی تو مقامی انتظامیہ کی لا پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تھر میں آنے والے قحط کو بہتر حکومتی حکمت عملی کے باعث باآسانی ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اسکے لیے حکومت کوہوش کے ناخن لیتے ہوئے عملی اقداما ت کرنا ہوں گے۔متاثرین تھر ایک بار پھر حسرت بھری نگاہوں سے صاحب استعطاعت لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اور حکومت وقت کی جانب سے جاری ہونے والی امداد کی شفاف تقسیم کے انتظار میں ہیں۔آئیں مشکل کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کا ساتھ دیجیے۔اور تھر میں بسنے والی زندگیوں کی حفاظت یقینی بنایئے۔
Abdul Rauf Chohan
About the Author: Abdul Rauf Chohan Read More Articles by Abdul Rauf Chohan: 27 Articles with 19239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.