حسین سب کا

سید الشہداء امام عالی مقام نواسہ رسول ۖ جگر گوشہ بتول ، دلبند مرتضیٰ ، حضرت امام حسین گلشن رسول ۖ کے وہ تابندہ درخشندہ سدا بہار معطر مطہر مقدس دل و نگاہ کو تازگی و زندگی و حرارت بخشنے والے پھول ہیں کہ جن کی چمک اور رنگ سے اس کائنات کے ہر مسلمان مومن اور ہر حریت پسند ہر اصول پسند اور باطل کے خلاف جدوجہد کرنے والا اسی خوشبو سے ذہن و دل کو معطر کرکے اپنی کوششیں شروع کرتا جذبہ جہاد دل میں بسائے جہاد کرتا لڑتا معرکے بپا کرتا غازی یا شہادت کا درجہ پاتا ہے اور نعلین حسین کو چومتا دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے کربلا ایک ایسا ابدی پیغام ہے جو 14 سو سال سے حق کی ترجمانی کررہا ہے اور قیامت تک حق پرستوں کیلئے نشان منزل ہے یہ ابتدائے آفرینش سے آج تک حق والوں کا ترجمان ہے کیونکہ جب نہ زمین تھی نہ زماں تھا نہ لوح تھی نہ قلم نہ بہاریں تھیں میرے امام کی یہ عظیم قربانی عرش پر رقم کردی گئی تھی اور قیامت تک مجاہدوں حق کا علم اٹھانے والوں کیلئے نشان منزل بنادی گئی تھی یہ داستان یہ حریت کا پیغام پھیلانے والے نہتے ہونے کے باوجود اپنے آپ کو سپر طاقت کہنے والوں کے خلاف جہاد کرنے والوں کی داستان عظیم ہے کہ جو ظاہری طور رپ نہتے بے سروسامان تھے مگر حق کے نشان تھے میرے مرشد کریم حضرت علامہ محمد اقبال اسی لے بارہ امام عالی مقام میں عرض گزاری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسمعیل
مولاناظفرعلی خان عرض کرتے ہیں کہ
اسلام کے دامن میں بس دو ہی تو چیزیں ہیں
اک سجدہ شبیری اک ضرب یداللٰہی

3شعبان المعظم 4ھ کو کائنات کو اپنی ولادت کا شرف بخشنے والے امام حسین عالی مقام کی تمام مبارک زندگی کا جائزہ لیاجائے تو ہر عقل و شعور رکھنے والا قیامت تک کا انسان یہ ضرور کہہ اٹھے گا کہ ہم ان کی زندگی کا مطالعہ کرکے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں آپ سے منقول ہے کہ ایک مقام پر امام عالی مقام فرماتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے غالب و کامیاب گروہ ہیں اور رسول پاکۖ کی قریب ترین عترت ہیں اور ان کے پاکیزہ اہل بیت ہیں اور گراں قدر چیزوں میں سے ایک ہیں ۔

فصاحت و بلاغت آپ کو اپنے کریم نانا ۖ اور والد محترم مولائے کائنات سے وراثت میں ملی تھی اس لئے آپ کے جوہر خطاب عدیم المثال ہی نہیں نادر ونایاب ہیں الفاظ گویا ہیروں کی طرح دمک چمک اور آفاقی روشنی رکھتے ہیں اور کیوں نہ ہوں وہ اللہ عزوجل کے رسول پاکۖ کی اہلبیت ہیں امام احمد رضا خان بریلوی اس پاک کے گھرانے بارے عرض کرتے ہیں کہ
کیا بات ہے رضا اس چمنستان کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول
ایک اور جگہ ان کی شان اقدس بارے عرض کیا گیا
بے اجازت جن کے گھر جبرئیل بھی آتی نہیں
قدر والے جانتے ہیں قدرو شان اہلبیت

آپ کی شان میں قرآن مبارک میں ارشاد مبارک ہے جس کا مفہوم ہے کہ اے نبی پاکۖ کہہ دیجئے کہ ہم تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتے سوائے اس کے کہ میرا قرابت داروں سے محبت کرو نسب مصطفیٰ ۖ قیامت تک قائم رہے گا آپ کا ارشاد مبارکہ ہے جس کا مفہوم ہے قیامت کے دن ہر سبب اور ہر نسب منقطع ہوجائے گا مگر میرا سبب اور نسب قائم رہے گا ۔ (الشرف الموئد ص 30 صواعق محرقہ ص 156)

ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے فرمایا بے شک اللہ عزوجل نے ہر نبی کی اولاد ان کی پشت سے پیدا کی اور بے شک اللہ تعالیٰ نے میری اولاد (حضرت) علی ابن ابی طالب کی پشت سے پیدا فرمائی (صواعق محرقہ ص 154)

اسعاف الراغبین فی سیرة مصطفیٰ ۖ میں ہے جس کا ترجمہ یوں ہے ہر ماں کی اولاد اپنے عصبہ کی طرف سے منسوب ہوتی ہے جبکہ فاطمہ کی اولاد کا عصبہ اور ولی میں ہوں مفہوم (الشرف الموئد ص 66)
ایک اور حدیث مبارک کا مفہوم ہے بے شک میری اہلبیت کی مثال تم میں کشتی نوح کی طرح ہے جو اس پر سوار ہوگیا نجات پاگیا (مشکوة ص 573)

اور ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے اور میں تم میں دو نفیس اور گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ان میں پہلی چیز اللہ (یعنی قرآن پاک ) ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تو خدائے تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو راوی کہتے ہیں قرآن پاک کے بارے میں لوگوں کو رغبت دلائی پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا (یعنی دوسری گراں قدر چیز )میری اہل ہے میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے ڈراتا ہوں ۔

حضرت سیدنا صدیق اکبر اہل بیت سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے تھے (مفہوم ) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے البتہ رسول اللہ ۖ کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ محبوب ہے (صواقع محرقہ ص 176)سیدنا صدیق اکبر حضرت علی المرتضیٰ کے چہرہ اقدس کو کثرت سے دیکھتے تھے ایک دن ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا میں آقا کریم ۖ کو فرماتے ہوئے سنا ہے مولاعلی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے (صواعق محرقہ ص 177)

فضائل و مناقب اہل بیت اس قدر ہیں کہ سمندروں کے پانی کی سیاہی بن جائے روئے زمین پر تمام درخت قلم بن جائیں پھر بھی یہ تعریف تشنگی اپنے دامن میں محسوس کرتی رہے گی ۔ امام عالی مقام ابوعبداللہ الحسن ذکی شہید سبط رسول ۖ ہیں اور اہل بیت اطہار کے اہم ترین فرد ہیں آقائے دو عالم ۖ وحی الٰہی کے مطابق حضرت جبرائیل کے عرض کرنے پر حضرت ہارون کے دوسرے بیٹے کے نام پر آپ کا نام شبیر رکھا عربی میں اس کا معنی حسین ہے آپ کے فضائل میں بے شمار احادیث وکثیر روایات ہیں ۔

سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے (مفہوم ) حضور پاکۖ نے فرمایا سیدنا حضرت امام حسن و حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں (مشکوة ص 570)

حضرت ابن عمر سے روایت ہے آقا کریم ۖ نے فرماای بے شک حسن و حسین دونوں پھول ہیں میرے دنیا میں حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ سیدالانبیاء حبیب کبریا ۖ ہمیں خطبہ سنارہے تھے کہ امام حسن و حسین تشریف لائے دونوں نے سرخ کرتے پہنے ہوئے تھے بوجہ بچپن کے گرتے اور چلتے تھے تو حضور ۖ منبر سے اترے اور دونو ں شہزادوںکو اپنے آگے بٹھا لیا ۔ حضرت یعلٰی بن مرہسے روایت ہے : (مفہوم )۔کہ حضورنےۖ فرمایا حسین مجھۖ سے ہے اور میںۖ حسین سے ہوں ۔ جس نے حسین کو دوست رکھا اللّٰہ عزوجل اسکو دوست رکھتا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے (مفہوم)۔حضورۖ نے فرمایا حضر امام حسن ک اپنے کاندھے مبا رک پر اٹھایا ہوا تھا کسی نے کہا کہ کیسی خوبصورت سواری ہے حضورعلیہ السلام نے فرمایا سوار بھی تو کتنا حسین اور پیارا ہے ۔حضور رسالت مآبۖ ایک روز ایک گلی سے گزر رہے تھے تو ای بچّے کو پکڑکر اسکی پیشانی کو چوما اور اٹھاکر گود میں بٹھا لیا ۔صحابہنے عرض کیا یا رسول اللّٰہ آپ نے اس قدر شفقت کیو ں فرمائی آنحضرتۖنے فرما یا میںنے ایک دن اس بچے کو حسین کے کھیلتے ہوئے دیکھا اور یہ دیکھا کہ لخت جگر حسین کے پاؤں کی مٹی لیکر اپنی آنکھوں پر ڈال لیتا تھا ۔ اس وجہ سے میں اس کے ساتھ محبت کرتا ہوں اور کل بروز قیامت اس کی اور اس کے والدین کی شفاعت کروں گا (روضہ الشہداء ص 239)

آپ انتہائی حسین و جمیل تھے آپ کا حسن و جمال اس قدر تھا کہ جب آپ اندھیرے میں بیٹھتے تو لوگ آپ کی جبیں اقدس کی شعاعوں اور پاکیزہ روشنی میں راستہ دیکھ لیتے حضرت امام حسن سر انور سے سینہ مبارک تک حضور پاکۖ سے مشابہت رکھتے تھے اسی لئے امام احمد رضا خان بریلوی عرض کرتے ہیں
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانا نور کا

آپ نے اس جہان مادی سے صرف نظر فرمایا اور یزید کی بیعت سے انکار فرمادیا اور اپنے خاندان کے عزیز ترین افراد بھائیوں بھتیجوں اور بیٹوں اپنے اصحاب کو خوشی خوشی راہ خدا میں قربان کیا اور خود بھی شہادت کا عظیم ترین منصب حاصل کیا آپ نے اپنی حیات میں کوئی کام رضائے الٰہی کے بغیر نہ کیا امام عالی مقام کسی اعتبار سے کمزور نہ تھے لیکن وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ کسی سے زیادتی ہو مقصد حسین صرف اور صرف اطاعت خداوندی اور ترویج اسلام تھا امام عالی مقام نے ثابت کیا اور یہ اصول زریں رہتی دنیا تک دیا کہ اگر آپ حق پر ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ پر اثر نہیں کرے گی بلکہ دشمن آپ کے عزم حوصلے اور بلند ہمتی کو دیکھتے ہوئے لرزا براندم ہوجائے گا ۔ امام عالی مقام کو لوٹ جانے کی ترغیب دی جاتی رہی حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر آپ کو راستے میں پہنچی مگر میرے امام نے سفر جاری رکھا دو محرم الحرام کو امام عالی مقام کربلا پہنچے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ کربلا کا مقام ہے آپ نے حکم دیا کہ سواریوں سے اتر جائو پھر سات محرم کا دن آپہنچا اور لشکر یزید نے نہر فرات پر پہرہ لگادیا اور امام عالی مقام اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کردیا اور تقدیر نے ان کی قسمت میں شہادت لکھ دی ایسی شہادت عظمیٰ جو استبدادیت کے قصر طاغوت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کرنے کا باعث بن جائے اور امام عالی مقام نے ایساہی کرکے دکھا دیا کسی نے کیا خوب کہا کہ
اعزاز کائنات ہے سیرت حسین کی
اک نورشس جہات ہے سیرت حسین کی
جاں واردی ہو مذہب اسلام سربلند
پیمانہ حیات ہے سیرت حسین کی

یاد رکھیں کربلا میں امام عالی مقام کی یزید کے لشکر سے جنگ اقتدار کے حصول کی جنگ نہیں تھی یہ تو حق و باطل کا معرکہ تھا اگر امام عالی مقام کی جنگ اقتدار کیلئے ہوتی اور آپ اپنی خلافت کا علم بلند کرتے تو لوگ آ پ کا ضرورت ساتھ دیتے ابھی وہ لوگ زندہ تھے جنہوں نے حسین کو دوش نبوت پر سواری کرتے دیکھا تھا وہ لوگ باقی تھے جنہوں نے حضور پاک ۖ کو امام کے لبوں کے بوسے لیتے دیکھا تھا اگر امام ان سے بیعت کے خواہاں ہوتے تو کیا وہ اسے سعادت سمجھ کر امام عالی مقام کی بیعت نہ کرتے ؟ آپ کا مقصود ہرگز ہرگز اقتدار نہ تھا اقتدار کے حصول کے آرزو مند کبھی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مقتل کی طرف نہیں بڑھتے بہتر نفوس قدسیہ کا کارواں تھا ان میں محترم خواتین بھی تھیں اور معصوم بچے بھی علی کے گھرانے کی وہ پاک بیبیاں کہ جن کے چہروں کی جھلک سورج کی آتشیں آنکھ کے بھی نہیں دیکھی تھی وہ صبر و استقامت کی مشکل ساعتوں میں مردوں کو ہمت و حوصلہ عطا کررہی تھیں یزیدی لشکر کے قائدین بار بار اپنا مطالبہ دھرا رہے تھے کہ یزید کی بیعت کرلیں مگر امام عالی مقام کا ایک ہی موقف تھا کہ یزید فاسق و فاجر ہے باطل کا نمائندہ ہے میں اس کی بیعت کیسے کرسکتا ہوں آپ نے انسانیت کو یہ اصول دیا کہ
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادی حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول

سیدنا امام حسین کی لازوال قربانی حق و صداقت کی پاسداری کیلئے تھی امام کس طرح برداشت کرسکتے تھے کہ جس دین کو ان کے عظیم المرتبت نانا جان نے پوری دنیا میں بسنے والے انسانوں کی دلوں کی دھڑکن بنادیا تھا اسے بازیچہ اطفال بنا کر کھلے بندوں مذاق اڑایا جائے امام عالی مقام نے صبر و استقامت کا وہ مظاہرہ کیا کہ چشم فلک آج تک حیران ہے آ پ نے اپنے اصحاب میں کسی کو بزور اپنے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ آپ نے آخری رات اپنے رفقاء سے خطبہ ارشاد فرمایا آپ کے فرزند حضرت امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ میں آپ کے قریب جابیٹھا تاکہ سنوں کہ آپ کیا فرماتے ہیں آپ نے خطبہ ارشاد فرماای میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے خوشی اور مسرت تنگی اور تکالیف میں اس کی بہترین حمد و ثناء کرتا ہوں اے اللہ میں تیری حمد بیان کرتا ہوں اور تیرا شکر بجا لاتا ہوں کہ تونے ہمیں خاندان نبوت کے ساتھ مکرم کیا سننے والے کان دیکھنے والی آنکھیں اور دل دیا اور ہمیں قرآن پاک سکھایا اور دین کی سمجھ عطا فرمائی اور ہمیں اپنے شکر گزار بندوں میں سے کیا امابعد اللہ تعالیٰ تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے سن لو میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا دشمنوں سے کل مقابلے کا دن ہے اور میں تم سب کو بخوشی اجازت دیتا ہوں کہ رات کی اس تاریکی میں چلے جائو میری طرف سے کوئی ملامت نہ ہوگی اللہ تعالیٰ تم سب کو جزائے خیر دے بلاشبہ یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں اور جب مجھے قتل کرلیںگے تو پھر کسی اور کی ان کو طلب نہ ہوگی روایات میں ہے کہ آپ نے چراغ بجھا دیا لیکن آپ کے خطبہ کو سن کر آپ کے ساتھیوں نے عرض کی کہ کیا ہم صرف اس لئے چلے جائیں کہ آپ کے بعد ہم زندہ رہیں ہم آپ کے ساتھ ملکر دشمنوں سے لڑیں گے خدا تعالیٰ وہ زندگی نہ دے جو آپ کے بعد ہو 10 محرم کو جنگ کا میدان سج گیا اور اللہ عزوجل نے حضرت حُر کو امام عالی مقام کی طرف پلٹا دیا انہوں نے قدم بوسی کی اور شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے ایک ایک کرکے اصحاب حسین شہادت کے مرتبہ پرفائز ہوئے جن میں حبیب ابن مظاہرہ بھی تھے عون و محمد بھی تھے فرزندان امام حسین بھی تھے جن میں قاسم جیسے جوان تھے حضرت علی اکبر و علی اصغر بھی تھے حضرت عباس جیسے بھائی بھی تھے اور اس کے بعد امام عالی مقام سید الشہداء جیسے بھائی تھے اور اس کے بعد امام عالی مقام سیدالشہداء کے منصب پر فائز ہوئے اور شاعر نے اسے یوں پیش کیا کہ
اے کربلا کی خاک تو اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ پہ نعش جگر گوشہ بتول
اسلام کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
سیراب کرگیا تجھے خون رگ رسول ۖ
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادی حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
اور کسی نے یوں کہا کہ
جس نے حق کربلا کا ادا کردیا
گھر کا گھر سب سپرد خدا کردیا
اپنے نانا کا وعدہ وفا کردیا
کرلیا نوش جس نے شہادت کا جام
اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
٭٭٭٭
٭٭٭
٭٭

 

 

Syed Ali Husnain Chishti
About the Author: Syed Ali Husnain Chishti Read More Articles by Syed Ali Husnain Chishti: 23 Articles with 26400 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.