کربلا میں موجود صحابی رسول حضرت انس بن حارثؓ

حضرت انس بن حارث پیغمبراکرم ؐ کے صحابی تھے جنگ بدروحنین میں شریک ہوئے۔ حضرت انس بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان اصحاب میں شامل ہیں جو میدان کربلا میں شہید ہوئے۔ابن عبدالبراپنی کتاب الاستیعاب میں رقمطراز ہیں کہ انس بن حارث کے واسطہ سے اشعث بن سلیم کے والد نے نبی اکرمؐ سے امام حسینؑ کی شہادت سے متعلق روایت نقل کی ہے۔اور یہ (انس بن حارث) حضرت حسینؑ کے ہمراہ شہیدہوئے۔

الاستیعاب نے جس روایت کاذکر کیا ہے وہ یوں ہے کہ حضرت انس بن حارث نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا تھا کہ آپؐ نے فرمایا:’’میرابیٹا(حسین) کربلا کی سرزمین پرقتل کیاجائے گا جوشخص اس وقت زندہ ہواس کے لئے ضروری ہے کہ میرے بیٹے کی مددونصرت کوپہنچے۔‘‘ روای کہتا ہے کہ انس بن حارث نے پیغمبرؐ کے اس فرمان پرلبیک کہتے ہوئے کربلا میں شرکت کی اورامام حسینؑ کے قدموں پراپنی جان نچھاور کردی۔

ابن عساکر لکھتے ہیں کہ انس بن الحارث ان عظیم اصحاب رسولؐ میں سے تھے جنھیں حضرت پیغمبرؐ کی زیارت نصیب ہوئی انھوں نے آپؐ سے حدیث بھی سنی تھی عبدالرحمٰن سلمی نے انھیں اصحاب صفہ میں شمار کیا ہے۔۔۔‘‘

بلاذری لکھتے ہیں کہ حضرت انس کوفہ سے نکل پڑے ایک مقام پرامام حسینؑ اورعبیداللہ بن حرجعفی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی فوراً امام حسینؑ کی خدمت حاضرہوئے اورقسم کھانے کے بعد عرض کی ’’کوفہ سے نکلتے وقت میری نیت یہ تھی کہ عبیداللہ بن حر کی طرح کسی کاساتھ نہ دونگا(نہ امامؑ کانہ دشمن کا) یعنی جنگ سے اجتناب کرونگا لیکن خدواند نے میری مدد فرمائی کہ آپؑ کی مدد ونصرت کرنے کومیرے دل میں ڈال دیا اورمجھے جرأت نصیب فرمائی تاکہ اس حق کے راستے میں آپؑ کاساتھ دوں۔‘‘حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں ہدایت اورسلامتی ایمان کی نوید سنائی اورانھیں اپنے ساتھ لے لیا۔

یہ صحابی رسولؐ نواسۂ رسولؐ کے دشمنوں سے جنگ کرنے کی غرض سے کربلا میں موجود رہے۔ حضرت امام حسینؑ نے اپنے اس وفادار ساتھی کویہ ذمہ داری سونپی کہ عمربن سعد کوحضرت ؑ کاپیغام پہنچائے اوراسے نصیحت کرے کہ شاید وہ ہوش میں آجائے اورقتل حسینؑ سے باز رہے جب حضرت انس ، عمربن سعد کے پاس پہنچے تواس کوسلام نہ کیا عمربن سعد نے اعتراض کیا کہ مجھے سلام کیوں نہیں کیا، آیاتومجھے کافراورمنکر خدا سمجھتا ہے؟حضرت انس نے فرمایا:’’توکیسے منکر خداورسولؐ نہ ہوجبکہ توفرزندرسولؐ کے خون بہانے کاعزم کرچکا ہے!‘‘یہ جملہ سن کرعمربن سعد سرنیچے کرلیتا ہے اورپھرکہتا ہے کہ میں بھی جانتا ہوں کہ اس گروہ(گروہ حسینؑ ) کاقاتل جہنم میں جائے گا لیکن عبیداللہ بن زیاد کے حکم کی اطاعت ضروری ہے۔

ابتدائے ملاقات سے حضرت انس تکلیف دہ حالات اپنی نظروں سے دیکھ رہے تھے لہذا جب دشمن کی طرف سے جنگ شروع ہوئی تو حضرت انسؓ بھی دیگر اصحاب حسین علیہ السلام کی طرح حضرت امام ؑ سے اجازت طلب کرکے عازم میدان ہوئے یہ مجاہد جوان نہیں تھے۔ حضرت انس کی حالت یہ تھی کہ بڑھاپے کی وجہ سے جھکی ہوئیکمر کورومال سے باندھ کرسیدھا کرتے ہیں ، سفیدابرو،آنکھوں پرپڑرہے تھے ، رومال پیشانی پرباندھ کراپنی آنکھوں سے ان بالوں کو ہٹاتے ہیں اور میدان کارزار میں روانہ ہوتے ہیں ۔حضرت امام حسینؑ نے جب اپنے اس بوڑھے صحابی کودیکھا توحضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اورفرمایا:’’خدا آپ کی قربانی قبول کرے۔

ہرمجاہد جنگ کرتے وقت رجز(مجاہدانہ اشعار)پڑھا کرتا تھا جورجز حضرت انس نے پڑھے نہایت پرمعنی تھا پہلے اپنا تعارف کرایا پھرکہا:
’’واستقلبوا لقوم بغرٍالآن آل علی شیعۃ الرحمٰن،وآل حرب شیعۃ الشیطان‘‘
اہل نسب جانتے ہیں کہ میراقبیلہ دشمن کو نابود کرنے والا ہے اے میری قوم شیرغراں کی طرح ہے۔ دشمن کے مقابلے میں جنگ کرو کیونکہ آل علیؑ رحمان کے پیروکارجبکہ آل حربشیطان کے پجاری ہیں ۔بڑھاپے کے باوجود سخت جنگ کی ۱۲ یا۱۸ دشمنوں کوقتل کرنے کے بعد جام شہادت نوش کیا۔
 
fateh ali
About the Author: fateh ali Read More Articles by fateh ali: 6 Articles with 5494 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.