لکڑی کی ہے پٹری اور لوہے کی ہے ریل....؟

ہم پاکستانی بھی اپنے عزم اور عادت کے بڑے پکے ثابت ہوئے ہیں ،جس راہ پر چل پڑیں توبغیر کچھ سوچے سمجھے اپنا منہ نیچے کئے چلتے ہی رہتے ہیں پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھتے ہیں اور اِسی طرح جس کام میں لگ جائیں تو اُس کے انجام سے بے پرواہ ہو کر اُسے تکمیل تک پہنچاکر ہی دم لیتے ہیں یعنی یہ کہ اَب جیسے ہماری یہ خصلت بن گئی ہے کہ جب ہم اپنے پہ آجائیں تو کوئی ہمیں ہمارے اچھے یا بُرے راستے سے بھٹکانہیں سکتاہے، اور جب کچھ نہ کرنے پہ آئیں توبھی دنیا کے لاکھ جتن کرنے اور سمجھانے اور بُجھانے کے باوجود بھی ایک انچ بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں مگرافسوس ہے کہ اِس کے باوجود بھی ہماری یہ کوشش رہتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کی ریل (جو پہاڑ جیسی ہے) اُسے لکڑی کی پٹری پرچلائیں اوراِس پریہ بھی کہ ہم ہر ضابطے اورقانون اور قاعدے کو بالائے طاق رکھ کراپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے دعوے بھی کریں ... ۔

آج شائد یہی وجہ ہے کہ میرے مُلک میں طاقت اور مزاج کا توازن بھی ہماری خصلت کے باعث ہمیشہ سے ہی غیرمستحکم رہاہے اور ہماری طبیعتوں میں بھی ٹھیراؤپیدانہیں ہوسکاہے او ر اَب اُوپر سے نیچے تک یہ شکوہ وردِ زبان ہے کہ ہم دنیاکے ہر میدان میں ناکام رہے ہیں ، اَب ایسے میں ذراسوچیں کہ جب ہماری یہ حالت ہو تو پھرہمارے معاشرے میں کوئی بھی نظام بھلاکیسے پنپ سکتاہے...؟ اورایسے میں سارے نظام کا لامحالہ ڈی ریل ہونالازمی بھی ٹھیرسکتاہے اِس حوالے سے میرایہ شعر حاضرِ خدمت ہے کہ :۔
لکڑی کی ہے پٹری اور لوہے کی ہے ریل
ہوسکتی ہے یک دن یہ ریل بھی ڈی ریل

آج یہ سب ہی جانتے ہیں کہ کس طرح پچھلے دوماہ سے حکومت اوراُن کی جانب سے بھی جو حکومت کے ساتھ دائیں ، بائیں ، آگے ،پیچھے ، اُوپر اور نیچے الغرض کے کہیں سے بھی چمٹے ہوئے ہیں اور اِن سب کے علاوہ کچھ ایسے بھی حکومتی ہم خیال کہلانے والے افراد اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے طبقات اور چھوٹے اور بڑے لوگ ہیں جنہوں نے اسلام آبا د کے ریڈزون کے دھرنوں سے متعلق زور اور شعور سے یہ کہنا شروع کردیاکہ کسی خفیہ ہاتھ... یا کسی بیرونی قوت .....؟؟کے اشارے پر اسلام آباد میں دھرنادینے والے اچھی بھلی جمہوری حکومت کو ڈیل ریل کرناچاہتے ہیں اور اُن جمہور دُشمن اور مُلک دُشمن طاقتوں کے عزائم کو تقویت بخشناچاہتے ہیں جو کبھی بھی مُلک میں جمہوریت کو پنپتا نہیں دیکھ سکتے ہیں، آج اِسی لئے جمہوریت سے خائف قوتوں نے عمران اور قادری کا سہارالیااور اِنہیں اُکسا اور بھڑکاکر اسلام آباد تک لے آئے....اور تیس اور اکتیس اگست کو اسلام آباد میں جو ہوا...؟کیاگیا...؟ یا کروایاگیااِسے جواز بناکر نوازشریف کی جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوسکے اور یوں پونے دوسال کی نوازشریف کی جمہوری حکومت کو ڈیل ریل کردیاجائے ..اور اِس کا انجر پنچرکھول کر اِسے کباڑخرانے میں پھینک دیاجائے... پاکستانیوں کو ایسے بہت سے الفاظ اور جملے پڑھنے ، سُننے اور لکھنے کو ملے، اور اِس دوران ایسی بہت سی باتیں بھی کی گئیں اور کی جاتی رہیں کہ آج بوٹوں کی آوازیں آجائیں گیں اور جمہوریت کا دھران تختہ ہوجائے گا...؟مگر کچھ بھی نہ ہوا اور لگتاہے کہ شائد اگلے دِنوں میں بھی کوئی نتیجہ نہ نکل سکے۔

مگر آج تک اُس حقیقت کوکوئی نہیں پاسکاہے کہ عمران اور قادری کے ساٹھ دِنوں سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے دھرنوں کے پسِ پردہ کون سی قوتیں اور کون سے عزائم والے ہاتھ موجود تھے ...؟موجود ہیں اور دھرنے کے مقاصدحاصل ہونے تک موجودرہیں گے ...؟بہرحال...!آج عمران و قادری کے دھرنوں کو ایک معمہ قراردینے والے عنقریب خود کسی معمہ میں ڈھلنے والے ہیں کیونکہ ابھی تجزیہ نگاروں اور تبصرہ نگاروں کے نزدیک ظاہر وباطن عناصرکے انکار کے باوجود بھی دھرنوں کی پُراِسراریت برقرارہے اور اَب بھی زمینوں، پہاڑوں، سمندروں کی تہوں اور خلاکے دوش سے بھی خبرتو خبر....خبرکے بال کی کھال نکال لینے والے میڈیاکے لوگ پریشان ہیں کہ قادری اور عمران کے جاری رکھنے والے دھرنوں کے پیچھے کون سی طاقت ہے...؟

تو یہاں میں بس صرف یہ عرض کرناچاہوں گا کہ عمران اور قادری کے پیچھے وہ عوام ہے جس کا 68سالوں سے استحصال کیاگیاہے، آج عوام کو عمران وقادری کی شکل میں دوایسے مسیحا ملے چکے ہیں جن پر عوام کو قائداعظم محمدعلی جناحؒ ، علامہ اقبال ؒ اور شہیدذوالفقارعلی بھٹواور بے نظیربھٹوشہیدکی طرح اعتبار ہے کہ یہ عوام کے دُکھ دردکا مداواکریں گے اور مُلک اور عوام کو مسائل سے نکال کر اِس کی اُس طرح آبیاری کریں گے جس طرح مندرجہ بالاشخصیات کرتی رہی ہیں۔

اگرچہ آج یہ ساری باتیں اپنی جگہہ بڑی حدتک درست بھی ہوسکتی ہیں، اور آج بھی ہمارے یہاں سب کچھ( دنیاکے دیگرترقی یافتہ ممالک اور مہذب اقوام کی طرح )ٹھیک ہوسکتاہے اَب بھی مجھے یہ یقین ہے کہ ہمارا کچھ نہیں بگڑاہے مگرآج بس ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران، سیاستدان اور اشرافیہ کاوہ طبقہ جس نے ہمیشہ اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصداور مفادات کے خاطر عوام کے حقوق کو غضب کیا اورقومی دولت پر اللے تللے کیا اِن لوگوں کو یہ بات ہر حال میں سوچنی ہوگی اور اپنی اصلاح کرنی ہوگی کہ اِن سے انگنت غلطیاں سرزدہوئیں ہیں اور اِنہوں نے جمہوریت کی آڑلے کر ہمیشہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالاہے آج جب اِن کی اِسی غیراِنسانی ، غیراِخلاقی اور غیر سیاسی حرکتوں اور رویوں کے خلاف عمران اور قادری برسوں سے مسائل میں پسی عوا م کے ہمراہ نجات دہندہ بن کرنکلے کھڑے ہوئے ہیں تو اِن مفاد پرست حکمرانوں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کے وجودپر لرزہ طاری ہوگیاہے اور آج اِن کے دل اور دماغ پر یہ خوف سوار ہوگیاہے کہ کہیں اِن کا دھاندلی سے حاصل کردہ وہ مینڈیٹ جس پر موجودہ جمہوریت کا مینارکھڑاہے اِسے عمران اور قادری گرانہ دیں اور اِن کی حکومت ختم نہ کردیں اِس لئے اِن مفادات پرستوں نے اپنے لبوں پہ اپنی جمہوریت (آج جِسے عوام نام نہاد جمہوریت کہتے ہیں ) ڈی ریل ہونے سے بچانے کے نعرے سجارکھے ہیں جب کہ آج حقیقت یہ ہے کہ اِن مفاد پرستوں(حکمرانوں ، سیاستدانوں اوراشرافیہ )کی نام نہادجمہوریت جس لکڑی کی پٹری پرہے اَب وہ کسی بھی وقت خودبخود ڈی ریل ہوسکتی ہے۔(ختم شُد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 896298 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.