پا ک چین دوستی کو زوال نہیں

پاکستان کے اپنے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ ہمیشہ مثالی تعلقات رہے ہیں۔ یہ مثالی قربت دونوں ملکوں کی ایک دوسرے کے ساتھ طویل المیعاداور مسلسل خیر سگالی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ گو کہ گزشتہ دنوں دھرنوں اور سیاسی جلسوں کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوگیا اور اس سے بہت سے منصوبے جو وقت کا تقاضا تھے، التوا کا شکار ہوگئے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس گہری دوستی کو زوال آسکے۔ یہ دوستی ہر قسم کے مخصوص حالات وواقعات سے بالاتر ہے۔ پاک چین دوستی کا آغاز 1960 میں اس وقت ہوا جب پاکستان کو مغربی ملکوں سے مایوسی کا سامنا کر نا پڑا۔ چین سودیت یونین کی ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش بارآور ثابت نہ ہو سکیں ، اور1964کی چین بھارت جنگ جس نے بھارت کو بھاری امر یکی امداد دلوائی، ایسے عوامل تھے جنہوں نے پاکستان اور چین کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ پاکستان اگرچہ امریکہ کا اتحادی تھا اور سیٹو سنیٹو معاہدوں کا رکن بھی، اس کے باوجود پاکستان کو امریکہ کی طرف سے اتنی بڑی فوجی امداد کبھی نہیں ملی،جتنی بھارت کو دی گئی۔ مزید براں یہ صورت حال پاکستان کے لیے خطرناک تھی اور خدشہ یہ محسوس کیا جارہاتھاکہ بھارت یہ فوجی ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا جس کی وجہ سے اسے اپنی خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا پڑا۔یہ تھے وہ حالات جن کی وجہ سے پاکستان چین کی طرف متوجہ ہوا پاکستان کو بھی چین کی طرف سے بھی مثبت جواب ملا۔اس سٹر ٹیجک وڑن کے ذریعے چین کی دوستی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک لازمی جزو اور کبھی نہ تبدیل ہونے والے ستون بن گئی۔ دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات میں یہ نئے دور کا آغاز تھا جو آنے والے عشروں میں بلا تعطل جاری رہا۔

جب 1965 اور 1971کی جنگوں میں پاکستان پر نازک وقت آ یا تو چین پاکستان کا بہترین دوست ثابت ہوا۔اور اس نے بڑے بھائی کا قابل ستائش کردار ادا کیا۔ چین نے نہ صرف پاکستان کی فوجی امداد بڑھادی بلکہ اس کے جنگی نقصانات کی بھی کافی حد تک تلافی کر دی۔ یہ اس امر کی جانب اشارہ تھا کہ مضبوط پاکستان چین کی سلامتی کے مفادات کے تحفظ اور جنوبی ایشیاء کے سٹر ٹیجک پس منظر میں بہت اہم ہے۔پاکستان نے بھی ہمیشہ چین کی خیر سگالی کے جذبات کامثبت جواب دیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین کی نشست کی بحالی اور امریکہ وچین کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔پاکستان نے چین اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات قائم کر نے اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت بحال کر نے میں پل کا کردار ادا کیا۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاک چین تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہو تے گئے۔ 1989میں چینی وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا۔اور ایٹمی بجلی گھر لگانے کے لیے مدد کا وعدہ کیا۔بعدازاں علاقائی سٹرٹیجک عوامل تبدیل ہوتے چلے گئے۔کیونکہ روسی افواج افغانستان سے واپس چلی گئی تھیں اور یہ علاقہ امریکہ کے لیے غیر اہم ہو گیا تھااور اس کی دلچسپی بھی ختم ہو گئی۔پاکستان بھی امریکہ کے لیے تر جیح نہیں رہا اور جوہری پروگرام کے باعث اس کی پابندیوں کی زد میں آگیایہ پابندیاں طویل عرصے تک برقرار رہیں۔ پاکستان کو اب فوجی سازوسامان کے حصول میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اس آڑے وقت پھر چین نے ہاتھ تھام لیا اور دفاعی سازوسامان میں خود کفالت میں اس کی مدد کی۔ امریکہ اس صورت حال سے چونک اٹھااور چین پر جوہری اسلحہ کی تیاری میں پاکستان کی مدد کرنے کا الزام لگانے لگا۔ تاہم چین نے ان تمام امریکی دعوؤں کو مسترد کر دیا۔

اس کے بعد چین پاکستان کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کا بڑا ذریعہ بن گیا۔اس نے پاکستان کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کو بھی فروغ دیا۔1993سے چین چشمہ کے مقام پر جوہری توانائی میں تعاون کر رہا ہے۔ اس کی مددسے 1999میں300میگاواٹ کاجوہری پاور پلانٹ مکمل کیا گیا ہے۔مغربی دنیا سے باہر کسی ملک سے ایک ترقی پذیر ملک کے لیے جوہری ریکڑ بر آمد کرنے کی یہ پہلی مثال تھی۔ چین نے دفاع سے متعلقہ دو میگاپراجیکٹ تعمیر کر نے میں بھی پاکستان کی مدد کی۔ ان میں ایک ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا ہیوی ری بلڈ فیکٹری(جو اس کا ایک حصہ ہے)اور دوسراایف6ائرکرافٹ ری بلڈ فیکٹری ہے۔چین نے روایتی ہتھیاروں کی پیدا وار میں پاکستان کو خود کفیل بنانے کی کوششوں کابھی ساتھ دیا ہے اور اپنی فنی معاونت کے ساتھ کوئی سیاسی شرائط عائد نہیں کیں چینی امداد کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان اور چین کی افواج کے مابین بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔اس ضمن میں چین نے لڑاکا طیاروں ،ٹینکوں،بھاری توپ خانے کی اندرون ملک دفاعی پیداوار میں تعاون کیا ہے۔اور پاک فوج کی لڑاکا صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے مشترکہ تربیتی مشقیں کی ہیں۔چین کی معاونت سے کئی میگاانفراسٹرکچرپراجیکٹ بھی شروع کیے گئے ہیں۔ جس نے پاکستان کی معاشی اور دفاعی شعبے کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ان میں گو ادر بندرگاہ کا منصوبہ شامل ہے جس میں چین پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ چین نے انفراسٹرکچر کو فروغ دینے اور گواد ر کو دوسر ے علاقوں سے ملانے میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔چین گوادر پورٹ پراجیکٹ میں اپنی سٹرٹیجک موجودگی کے ساتھ بر صغیر کا قرب وجوار میں اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہاہے۔موجودہ حکومت بھی پاک چین تعلقات کو مزید فروغ دینے کی راہ پر گامزن ہے اور اس نے کئی مزید مشترکہ منصوبے شروع کیے ہیں۔جس کا مقصد پاکستان میں معاشی سر گر میوں میں مدد ینا ہے۔اس ضمن میں بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے اور مزید منصوبے پائپ لائن میں موجود ہیں جو زیر بحث لائے جانے کے منتظر ہیں۔

معیشت کی موجوہ صورت حا ل کو سنوارنے اورسیاسی استحکام کے لئے ان مشترکہ منصوبوں پر عمل در آمد وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے اس کے لیے ایسے ملک پر اعتماد کیا ہے جس کو پہلے کئی بار آزمایا جا چکا ہے اور یہ قابل اعتبار ہمارا دوست ملک چین ہے۔ چینی دوستی موجودہ عالمی اور سیاسی سیٹ اپ میں پاکستان کی بھرپور معاونت کرتی ہے اور دونوں ملکوں میں سٹرٹجک مفاہمت کی عکاس ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کی یہ دوستی نظریاتی اختلاف سے ماورا ہے اور چٹان کی طرح مضبوط ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو جو چیلنجز در پیش ہیں ان میں انسداد دہشت گردی کی عالمی جنگ اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں جس سے علاقائی سلامتی کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔اس تناظر میں چین کا تعاون بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وقت کی ہر آزمائش پرپوری اترنے والی پاک چین دوستی بے مثل اعتماد باہمی مفاہمت اور سیاسی سفارتی،معاشی اور سٹر ٹیجک سطحوں پر ایک جیسے خیالات پر مبنی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ ہونا، سب پاکستانیوں کے لیے اچھی خبر نہیں تھا، تاہم خوش کن امر یہ ہے کہ یہ دوستی کسی مخصوص حالات یا قیادت کی محتاج نہیں ہے۔یہ تعلقات طویل المیعاد سٹرٹیجک شراکت میں تبدیل ہوچکے ہیں جن کا مقصد علاقے میں امن واستحکام اور خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 68303 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.