کیا خود کشی مشکلات کا حل؟

عرب میں ایک آدمی جو دنیاوی آسائشوں سے مالامال تھا ۔وہ ہروقت اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکرادا کرتا رہتا تھا۔ جب اس کی بندگی کی آزمائش کا وقت آیا تو اﷲ نے دنیا کی ہرآسائش سے محروم کردیا۔ وہ آدمی پھر بھی اﷲ کا شکر بجا لاتا رہا۔ پھر اسے اﷲ نے بیماری کی آزمائش سے دو چار کیا ۔ یہ ایسی آزمائش تھی کہ تمام دوست رشتہ دار اس سے منہ موڑ گئے، تب اس کے ساتھ اس کی بیوی کا سہارا تھاجو ہر مشکل وقت میں اس کے ساتھ تھی اور بالکل مایوس نہ تھی۔ اﷲ نے جب دیکھا کہ اتنے مشکل حالات میں بھی یہ مجھ پر توکل کرتے ہیں اور میری رحمت سے مایوس نہیں ہیں تو اﷲ نے دوبارہ انہیں ان کے کامل یقین اور صبر کی وجہ سے سب کچھ واپس لوٹا دیا۔

ایک مسلمان ہونے کے ناتے لاہورمیں رہنے والی ماں جس نے گھریلو چپقلش یا گھریلو حالات سے تنگ آ کر اپنے کم سن بیٹے اور بیٹی کو چوتھی منزل سے نیجے پھینکا اور خود بھی چھلانگ لگا دی سمجھ جاتی اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ مردانہ وار کرتی تو آج وہ اپنے بیٹے کی قاتلہ نہ کہلاتی۔ اس نے دو معصوم جانوں کو ضائع کرنے اور خود بھی حرام موت کو گلے لگانے کی کوشش کی۔ اس کی دنیا کی زندگی تو اجیرن تھی ہی لیکن اس نے اپنی عاقبت بھی خراب کرنے کی کوشش کی۔

آئے روز اس طرح کے ان گنت واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ جس سے ہمارے معاشرے میں پھلنے پھولنے والی نئی نسل پر بہت برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ ہم اپنی نئی نسل کو مشکلات کا بہادری سے مقابلہ اور اﷲ پر یقین رکھنا نہیں سیکھا رہے، بلکہ مشکلات کو ختم کرنے کی بجائے خود کو ختم کرنا سکھا رہے ہیں۔ پریشانیاں اور مشکلات زندگی کا حصہ ہوتی ہیں، مشکلات سے سمجھوتا کرنا پڑتا تب ہی ہم جینا سیکھا پائیں گے، کیونکہ ہر اندھیری رات کے بعد صبح کا سورج ضرور چمکتا ہے۔ خود کو ختم کرنے سے مشکلات ختم نہیں ہوتیں لیکن مشکلات میں جینا ہمیں زندگی بہادری سے جینا سکھا دیتا ہے۔

کس قدرقابل افسوس بات ہے کہ لاہور میں رہنے والی ایک عورت نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر اپنے معصوم بچوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے اس اقدام سے نہ صرف اس نے اپنے بیٹے کو کھو دیا بلکہ اس نے اپنی معصوم بچی کا ماں باپ کی محبت و شفقت پر اعتماد بھی کھو دیا۔ گھریلو جھگڑے اور ناچاقیاں بچوں پر ظلم کرنے سے ختم نہیں ہو جاتے۔ اگر ماں گھریلو حالات سے دلبرداشتہ نہ ہوتی اور ہر حال میں خود کو اور بچوں کو جینا سکھاتی تو وہ بچے مستقبل میں اچھے شہری ثابت ہوتے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماں کے ساتھ باپ پر دوھری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور جو نہ صرف اپنی بیوی بلکہ بچوں کی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کرے۔ ایک ماں ایسا اقدام کبھی بھی نہیں اٹھا سکتی جب تک وہ اپنے گھر میں سکھ چین سے جی رہی ہو۔ ایک عورت کا اپنا گھر اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتا ہے اور پھر اس کے بچے اس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہوتے ہیں اور کوئی ماں کبھی بھی ایسا نہیں سوچتی سکتی کہ وہ اپنے بچوں اور اپنے گھر کو چلا کر راکھ کر ڈھیر کردے۔ ماں جو کہ ایک بیوی بھی ہے اس پر صبر اور شکر کرنا بھی ضروری ہے۔ آج جو کچھ لاہور میں ہوا اس کی سب سے بڑی وجہ اس کا شوہر ہے تاہم اس کی ماں کی بھی اس میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ایک لاہور کا واقعہ سرکاری سطح پر ایک سوالیہ نشان ہے اور اس نجی سطح پر معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا نشان۔ ہم نے ایسی کتنی ہی خواتین جو بیویاں اور مائیں ہوتی ہیں کورٹ کچہریوں کے آگے انصاف کی تلاش میں پڑی ہوتی ہیں۔ جنہیں اپنے خاوندوں سے شکایاتیں ہوتی ہیں، تاہم ان کی کوئی بھی نہیں سنتا۔ ایسے میں خود سوزی، خود کشی جیسے واقعات ہی جنم لیتے ہیں۔ عورت ہمیشہ کمزور پیدا ہوئی ہے اور اس کی ذمہ داری کا بیڑا مرد کے ذمہ ہے۔ ایک مرد جو شوہر ہے اور اگر وہ اپنی ذمہ داری کو احسن انداز میں نہیں سمجھ رہا تھا تو دیگر معاشرے کے مردوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مرد کو سمجھائیں اور اگر وہ نہیں سمجھتا تو پھر وہ مل کر اس عورت کی پریشانیوں کا مداوا کریں اس طرح ہی ہم اس معاشرے کو اچھا بنا سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں تقریبا ہر گھر میں ہی کسی نہ کسی بات پر ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا چل رہا ہوتا ہے۔ لڑائی چاہے میاں کی بیوی سے ناروا سلوک کی وجہ سے ہو، یا پھر معاشی حالات کی تنگی کی وجہ سے، اس طرح کی تمام باتیں ہمارے بچوں کیلئے بہت سی نفسیاتی الجھنوں کا موجب بنتی ہیں۔ بچے بے راہ روی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس سے ہمارا معاشرہ بہت سی برائیوں اور جرائم کا منبع بنتا جا رہا ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو گھر پر اچھا ماحول دیں، اسلامی طور طریقے اور اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کی تربیت دیں تو ہمارا معاشرہ ابھی بھی بہت سی برائیوں سے پاک ہو سکتا ہے۔ انسان مایوس تب ہوتا ہے جب اس کے دل میں اﷲ کی محبت اور یقین کم ہو جاتا ہے۔ ہمیں شکر ادا کرتے رہنا چاہئے اس ذات کا جو برداشت سے زیادہ دکھ نہیں دیتا مگر اوقات سے زیادہ سکھ ضرور دیتا ہے۔
Saba Fajar
About the Author: Saba Fajar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.