کراچی: سیاسی کشیدگی اورخوف و ہراس میں اضافہ

ملک میں محرم الحرام کے مقدس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی خوف و ہراس کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ دہشتگردی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور امن و امان کا قیام بھی مشکل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ عوام کو امن کی فراہمی ہر حکومت کی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان حالات میں حکومت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے اورحکومت اپنے تئیں امن کو قائم کرنے کے لیے اپنی سی کوشش کرتے ہوئے ملک بھر میں سیکورٹی بڑھا تو دیتی ہے، لیکن افسوس اس کے باوجود شرپسند عناصر فساد پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اس سال بھی حکومت نے ملک بھر سیکورٹی سخت کر کے بدامنی کی روک تھام کے لیے کی کوشش کی ہے، جبکہ اس حوالے سے ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی انتہائی زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ کراچی کے حالات کے اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں۔ اس تناظر میں محرم الحرام میں امن و امان کے قیام ،مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اورفرقہ وارانہ تصادم کو روکنے کے لیے18 نکات پر مبنی ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا ہے، جس کے مطابق سیکورٹی انتظامات پولیس اور رینجرز انجام دیں گے، تاہم کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کوکوئیک رسپارنس فورس کے طور پر الرٹ رکھا جائے گا۔ سندھ پولیس نے حکومت سے سفارش کی کہ 9 اور 10 محرم کو کراچی سمیت صوبے بھر میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی اور موبائل فون سروس بند رکھی جائے، تاہم صوبے بھر میں محرم الحرام کے موقع پر اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی عاید ہوگی۔ محکمہ داخلہ نے سندھ سے تعلق رکھنے والے مختلف مکتبہ فکر کے 143 علما کے صوبے کے مختلف اضلاع میں داخلے پر پابندی لگادی ہے، پنجاب سے تعلق رکھنے والے30 سے زاید علما کے سندھ میں داخلے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر کا کہنا ہے کہ اسلحے کی نمائش کرنے والوں اور ساتھ لے کر چلنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے اور شہری بھی اپنے ساتھ لائسنس یا بغیر لائسنس کے اسلحہ ساتھ لے کر نہ چلیں۔ مختلف رہنماﺅں نے اس حوالے سے کہا ہے کہ محرم الحرام انسانی تاریخ میں عظیم قربانیوں سے عبارت ہے اور ملت اسلامیہ پر محرم الحرام کا احترام ہر حال میں لازم ہے۔ محر م الحرام کا مہینہ مسلم امہ کو ایک دوسرے کے عقائد اور مسالک کے احترام کا درس دیتا ہے اور محرم الحرام کے مہینے کی حرمت پامال کرنے والے عناصر کسی طرح بھی مسلم امہ کے دوست نہیں ہوسکتے۔ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور عوام بھائی چارگی، فرقہ وارانہ اتحاد اور امن و امان کے قیام کو یقینی بنائیں۔

جب ایک طرف مذہبی حوالے سے کشیدگی کے پیش نظر خوف وہراس کے خاتمے کے لیے مختلف اقدامات کر کے امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کی مختلف کوششیں کی جارہی ہیں، عین انہی دنوں کراچی میں ایک بار پھر سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوجانے کی وجہ سے خوف وہراس میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے اتوار کے روزملک بھر میں یوم سیاہ منایا ہے۔ یوم سوگ کے موقع پر کراچی میں کاروبار زندگی پوری طرح معطل رہا، بازار، مارکیٹیں، کاروباری مراکز اور پیٹرول پمپس بند رہے، جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ بھی غائب تھی۔ یوم سوگ کے باعث جامعہ کراچی میں ہونے والے انٹری ٹیسٹ ملتوی کر دیے گئے۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کی جانب سے شاہراہ قائدین اور شارع فیصل کے سنگم پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا، جبکہ سندھ کے مختلف شہروں میں بھی یوم سیاہ منایا گیا، اندرون سندھ چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں۔ ہفتے کے روز ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کی جانب سے ملک بھرمیں یوم سیاہ منا نے کا اعلان کیا گیا اور تمام دکانداروں، تاجروں ، ٹرانسپورٹرز اورتعلیمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ یوم سیاہ کے موقع پر اپنی کاروباری وتعلیمی سرگرمیاں بندرکھیں اوریوم سیاہ کو بھرپورطریقے سے کامیاب بنائیں۔ یوم سیاہ کے اعلان کے بعد کراچی اور اندرون سندھ میں پٹرول پمپ اور کاروباری مراکز بند ہونا شروع ہوگئے، رات دیر تک کھلی رہنے والی دکانیں بھی بند ہوگئیں ۔ اس کے ساتھ ہفتہ کو کراچی اور حیدر آباد میں تمام نیوز چینل کو بند کرادیا گیا تھا، تاہم شام کو نشریات بحال کردی گئیں تھیں۔ وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن کاکہنا تھا کہ چینلز کی نشریات بند کرانے کے سلسلے میں کیبل آپریٹرز کو دھمکیاں دی گئیں تھیں۔ متحدہ رہنماکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے لفظ مہاجر کو گالی قرار دے کر مسلم امہ کی دل آزاری کی۔ 17 اکتوبر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، کیونکہ اس دن خورشید شاہ نے 4مرتبہ لفظ ”مہاجر“ کو گالی قرار دیا۔ یاد رہے کہ 17 اکتوبر کو سید خورشید شاہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ لفظ ”مہاجر“ ان کے لیے گالی ہے اور سندھ میں رہنے والوں کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم بعد میں خورشید شاہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں مہاجرکو گالی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور میرے بیان سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تومیں معذرت خواہ ہوں۔ اگر یہ انصار اور مہاجرین کا معاملہ ہے تو میں خود ایک مہاجر ہوں۔ کوئی بھی مسلمان ایسی بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ معمولی فائدے کے لیے سیاسی معاملات کو مذہبی رنگ دینے سے گریز کیا جائے۔ ایم کیو ایم نے بلاول بھٹو زرداری کی تنقید اور خورشید شاہ کی جانب سے لفظ مہاجر سے متعلق بیان پر سندھ حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ جس کے بعد ایم کیو ایم نے اپنے استعفے جمع کروائے تووزیر اعلیٰ ہاو ¿س کراچی کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے مشیر فیصل سبزواری اور عادل صدیقی، جبکہ معاون خصوصی عبدالحسیب خان کے استعفے منظور کرلیے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے جائزمسائل کے حل کے لیے تیار ہیں، لیکن اس سلسلے میں کوئی سودے بازی نہیں کی جائے گی۔ خورشید شاہ نے جو کچھ بھی کہا وہ اس پر معذرت کرچکے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب محرم الحرام میں امن و امان کے قیام کی زیادہ ضرورت ہے اور کشیدگی کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ ایسے میں حکومت مذہبی حوالے سے تو انتظامات کر رہی ہے، لیکن سیاسی حوالے سے کشیدگی میں بڑھاوے کا سبب بن رہی ہے۔ حالانکہ ایسے حالات میں فریقین کو چاہیے کہ اپنے مسائل کو اس انداز میں خوش اسلوبی کے ساتھ حل کریں کہ جس سے ملک کو نقصان کا اندیشہ بھی نہ ہو، لیکن یہاں ایک طرف حکومت سخت بیانات دے کر کشیدگی کو ہوا دینے کا سبب بن رہی ہے، جبکہ دوسری جانب محض ایک سیاسی ”لفظ“ جو مذہبی رنگ دےنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ فریقین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ملکی مفادات کو نقصانات نہ پہنچائیں۔سیاسی کشیدگی کے باعث اتوار کے روز کراچی میں منائے جانے والے یوم سوگ کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ ملک بھر کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ مبصرین کے مطابق کراچی ہر لحاظ سے انتہائی اہم شہر ہے،کراچی پر پڑنے والے اچھے یا برے اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں،کراچی کو پاکستان کا معاشی حب بھی کہا جاتا ہے،کیونکہ ملک کو کراچی کی آمدنی کا بہت سہارا حاصل ہے۔ اس کے علاوہ بھی ملک میں رونما ہونے والی بے شمار تبدیلیاں کراچی سے منسلک ہیں۔ پاکستان کے معاشی مرکز کراچی سے پورے ملک کی معیشت کی باگ ڈور بندھی ہوئی ہے ،اگر ایک دن کاروبار زندگی معطل ہوجائے تو قومی خزانے کو اربوں روپے خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذرائع کے مطابق کراچی میں ایک دن کی ہڑتال سے پیداواری لحاظ سے آٹھ سے دس ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے،ایک دن کی ہڑتال سے شہر بھر کی چھوٹی بڑی دو لاکھ صنعتیں بند رہتی ہیں،جس سے دو کروڑ سے زاید آبادی والے شہر میں بیس لاکھ افراد کا روزگار وابسطہ ہے، معاشی ماہرین کے مطابق ملک کی مجموعی پیداوار میں 22 فیصد جب کہ محصولات میں 62 فیصد حصہ کراچی کا ہوتا ہے۔ کراچی میں ایک دن کی ہڑتال سے آٹھ سے دس ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے،جبکہ ملک کو محصولات کی مد میں کم از کم چار ارب کا نقصان ہوتا ہے، کراچی میں ہڑتال اور یوم سوگ کے اعلان سے 80 فیصد کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے شہر کے دو کروڑ لوگوں کی زندگی معطل ہوجاتی ہے۔ تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ یوم سیاہ کے باعث شہر پر پڑنے والے کل مالی اثرات کا تخمینہ لگانا دشوار ہے۔ ملک کی معیشت پر پڑنے والے حقیقی نقصان کا تخمینہ نہیں لگا سکتے کیونکہ اس میں بہت سے عوامل ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.