دوسرے خلیفہ راشد سیدناعمر فاروق رضی اﷲ عنہ

(برائے اشاعت : یکم محرم الحرام ، یوم شہادت حضرت عمر فاروق ؓ )

حضرت عمر فارو ق ؓ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکے بعد آپ ؓ کا رتبہ سب سے بلند ہے۔ آپ ؓ کے بارے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا(ترمذی ) ‘عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقی)، جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑدیتا ہے (بخاری ومسلم)‘میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا(مشکٰوۃ)‘۔ آپ ؓ نے ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعد بیس افراد کے ساتھ علانیہ مدینہ کو ہجرت کی ، آپ ؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک اس عہدہ پر کام کیا،آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا۔ حضرت عمر کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا۔بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔آپ ؓکی صاحبزادی حضرت حفصہ ؓ حضور ﷺ کے نکاح میں آئیں۔دور خلافت میں حضورﷺ کی نواسی اورحضرت علی کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ سے آپ ؓکا نکاح ہوا۔

آپ کا نام عمر،لقب فاروق اعظم اور کنیت ابوحفض ہے۔والد کا نام خطاب اور والدہ کانام عنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھاجو ابوجہل کی بہن تھیں۔آپ کا رنگ سفیدمائل بہ سُرخی ،رخساروں پرگوشت کم ،قدمبارک درازتھاآپ تمام آدمیوں میں اونچے معلوم ہوتے تھے ۔بدن مبارک مضبوط تھاقریش کی ایک شاخ عدی سے تعلق تھا۔سلسلہ نسب عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداﷲ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک تھا ۔آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں جاکرحضورﷺ سے ملتا ہے ۔آپ 583ء میں پیداہوئے۔عرب ماحول میں تربیت حاصل کی ۔اونٹ چرائے اور فن سپہ گری میں بھی دست ترس حاصل تھی۔شہسواری اور پہلوانی میں بھی مقام حاصل تھا۔آپ کے گھرانے میں سب سے پہلے آپ کے بہنوئی حضرت سعدؓاور پھر بہن فاطمہ نے اسلام قبول کیااس کے بعد آپ نے نبوت کے چھٹے سال 27برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ ایک مرتبہ رسول اﷲﷺنے رب سے التجاکی کہ یااﷲ اپنے دین کی مضبوطی کے لئے یا توہشام کا بیٹادے دے یاخطاب کابیٹادے دے۔نبی کریمﷺکی دعاقبول ہوئی اﷲ پاک نے خطاب کے بیٹے کوچن لیا۔اسی وجہ سے میرے والد محترم قاضی محمداسرائیل گڑنگی فرماتے ہیں کہ امیرِشریعت حضرت مولاناسیدعطاء اﷲ شاہ بخاری فرمایاکرتے تھے کہ تمام صحابہ مُرید رسولﷺہیں مگر حضرت عمرؓ مراد رسولﷺہیں۔آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرائیل ؑنبی کریم ﷺ کے پاس آئے اورآپ کو مبارک دی اور فرمایا کہ آسمان والے ایک دوسر ے کوعمرکے اسلام لانے کی خوشخبریاں سنا رہے ہیں۔

حضرت عمرفاروق ؓ بہت ہی بارعب اور نڈر تھے لیکن انصاف ہمیشہ آپکی عدالت سے ہی ملتاتھا حضرت عمر ؓایک دفعہ ممبررسولﷺ پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑاہوگیااورکہنے لگا کہ اے عمر!ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤگے کہ یہ جو تم نے کپڑاپہنا ہواہے یہ زیادہ ہے اور جبکہ بیت المال سے جو کپڑاملاتھا وہ اس سے بہت کم تھا۔حضرت عمر ؓ نے فرمایاکہ اس مجمع میں میرا بیٹاموجود ہے اس بات کا جواب میرا بیٹادے گا۔حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ اٹھ کر کے کھڑے ہوئے۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ بیٹابتاؤکہ تمہاراباپ یہ کپڑاکہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس ممبر پر نہیں چڑھوں گا۔حضرت عبداﷲ ؓ نے فرمایاکہ جومیر ے باباکو کپڑاملاتھا وہ بہت ہی کم تھااس سے ان کا پورالباس نہیں بن سکتاتھا۔اور ان کے پاس جو لباس تھا وہ بہت خستہ حال تھا اس لیئے میں نے اپنا کپڑابھی اپنے والد کو دے دیاجس سے ان کاپورا لباس بن گیا۔۔سبحان اﷲ کیا عظیم لوگ تھے کہ جن کے سامنے ایک غریب آدمی بھی کھڑاہوکر کہ پوچھ سکتا تھا کہ۔

اے امیرالمؤمنین تقریر بند کیجئے ذرایہ بتایئے کہ جو تن پہ لباس پہنا ہوا ہے یہ کہا ں سے لایاہے؟آج کے دورمیں غریب کو اپنے حاکم سے پوچھناتو درکناردیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔آپ ؓ نے ہمیشہ عدل اور انصاف کاجھنڈالہرایااپنی رعایا کاخاص خیال رکھاآپ کا مشہور قول آج بھی درددل رکھنے والے ہر مسلمان کے کانوں میں گونجتاہے اور دل پہ نقش کیا ہواہے کہ اگر دریائے فارات کے کنارے کتابھی پیاس کی وجہ سے مرگیاتوکل قیامت کے دن اسکی پوچھ عمرسے ہوگی۔

ایک دفعہ ایک یہودی اور ایک منافق کا جھگڑاہوامنافق ظاہراًمسلمان تھااس نے کہا کہ رسول اﷲ ﷺ کے پا س ہم اپنا جھگڑالے کے جاتے ہیں جوفیصلہ وہ کریں گے ہم دونوں منظورکر لیں گے ۔دونوں نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺنے دونوں کی بات سنی اور فیصلہ اس یہودی کے حق میں فرمادیا۔اس منافق نے کہا کہ ہم اپنا جھگڑا حضرت عمر ؓکے پاس لے کے چلتے ہیں چنانچہ حضرت عمر ؓکے پاس گئے اس یہودی نے کہا کہ ہمارے درمیان فیصلہ آپ کے پیغمبر نے کر دیا ہے جب آپ ؓ نے یہ سناتو آپ اپنے گھر گئے اندر سے تلوار لے کے آئے اور فرمایا جومیرے نبی کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کا فیصلہ عمر کی تلوار کرتی ہے حضرت عمر ؓنے تلوار چلائی اوراس منافق کا سر تن سے جدا کر دیاجب اﷲ کے رسولﷺکو اس بات کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فاروق کا لقب عطاکیا (یعنی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا)

جب حضرت عمر فاروق ؓ خلیفہ بنے تو آپ ؓراتوں کو اٹھ کر مدینہ کی گلیوں میں پہرادیاکرتے تھے تاکہ معلوم ہوسکے کہ رعایاکوکوئی تکلیف تونہیں۔لوگ آرام سے سوتے مگرحضرت عمرؓاپنی نیندکورعایاکے سُکھ پہ قربان کر دیتے۔ایک رات حسبِ معمول آپؓگشت پرتھے کہ ایک قافلہ کو دیکھاجس نے شہر سے باہر پڑاؤڈالاہواتھاآپ نے سوچاکہ قافلہ والے تھکے ہارے ہوئے ہوں گے کہیں ایسا نہ ہو کہ چور ان کے سامان کاصفایاکردے۔یہ سوچ کر آپ اس قافلے کی طرف روانہ ہوگئے کہ اچانک ایک طرف حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ تشریف لائے اور آپ کو دیکھ کہ حیرانگی سے بولے ۔

امیرالمومنین !آپ اس وقت کہاں جارہے ہیں؟حضرت عمر ؓنے فرمایا کے عبدالرحمن ۔ایک قافلہ نے یہاں پڑاؤڈالاہے۔مجھے ڈرہے کہ کوئی چور ان کوکوئی نقصان نہ پہنچائے اس لئے آؤہم دونوں ان قافلہ والوں کے سامان کی رکھوالی کریں۔چنانچہ وہ دونوں عظیم صحابی ساری رات قافلے کی نگہبانی کرتے رہے اورفجرکی آذان کاوقت ہوگیا۔آپ ؓ نے بلند آواز سے فرمایا۔اے قافلے والواٹھو!نمازکاوقت ہوگیاہے۔جب وہ لوگ نیند سے بیدار ہوئے توحضرت عمرؓاورعبدالرحمن بن عوف ؓواپس تشریف لے گئے۔ایسا حکمران ملنا آج کے اس دور میں مشکل ہے جو اپنی رعایاکے لیے اپنا سکون بھی قربان کر دے ۔

جب مدائن فتح ہوا تو مال غنیمت کاڈھیر مسجدنبوی میں لگایا گیا توحضرت عمرؓنے سب سے پہلے ایک ایک ہزاردرہم حضرت حسن ؓاورحضرت حسین ؓکودیئے اور پھر حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کو پانچ سودرہم دیئے تو حضرت عبداﷲ ؓ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی قیادت میں غزوات میں حصہ لیاجب کہ اس وقت حسنینؓبہت چھوٹے تھے لیکن آپ نے انہیں زیادہ رقم عطافرمائی ہے۔ فاروق اعظم ؓ کو یہ سن کر جلال آگیااور فرمایا کہ عبداﷲ تم حسنین کے مقابلے میں اپنی بات پوچھتے ہو؟تو جاؤ ان کے باپ (حضرت علیؓ)جیساکوئی باپ لے آؤ۔ان کی ماں(حضرت فاطمہؓ)جیسی کوئی ماں لے آؤ۔ان کے نانا(تاجدارمدینہﷺ)جیساکوئی نانالے آؤ۔ان کی نانی( حضرت خدیجہؓ)جیسی کوئی نانی لے آؤ۔ان کے چچا(حضرت جعفرؓ)جیساکوئی چچالے آؤ۔ان کی پھوپھی (حضرت ام ہانیؓ)جیسی کوئی پھوپھی لے آؤ۔ان کے ماموں(حضرت ابراہیمؓ ؓ)جیساماموں لے آؤ۔خداکی قسم!عمرپرتم ان جیساایک رشتہ بھی نہ لاسکو گے۔جب یہ سارا واقعہ حضرت علی ؓ تک پہنچاتو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ عمر جنتیوں کاچراغ ہے۔جب یہ بات سیدناعمرؓ ؓتک پہنچی تو عمر ؓ بیقرارہوگئے اورحضرت علی ؓ سے فرمایا کہ علی میرے بھائی یہ بات مجھے لکھ کے دے دو۔حضرت علی ؓ نے لکھا کہ میں نے رسول اﷲ ﷺسے انہوں نے جبرائیل ؑسے انہوں نے اﷲ سے سناکہ عمرجنت کے چراغ ہیں۔حضرت عمر ؓ نے وصیت فرمائی کہ میں مروں تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینااور ان کے وصال کے بعد اس وصیت پر عمل کیاگیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہواکہ وہ حضرات ایک دوسرے کابہت احترام بھی کرتے تھے اور خیال بھی رکھتے تھے۔اور ایک دوسرے کے مناقب بھی بیان کرتے تھے ۔

دو نوجوان عمر رضی اﷲ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر! یہ ہے وہ شخص،
عمر رضی اﷲ عنہ ان سے پوچھتے ہیں کیا کیا ہے اس شخص نے ؟
یا امیر الممنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے
عمر رضی اﷲ عنہ پوچھتے ہیں کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟
عمر رضی اﷲ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟
وہ شخص کہتا ہے ہاں امیر الممنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ
عمر رضی اﷲ عنہ پوچھتے ہیں کس طرح قتل ہوا ہے ؟
وہ شخص کہتا ہے یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا

عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ،نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اﷲ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اﷲ کے دین کا ہو تو عمر رضی اﷲ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اﷲ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اﷲ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر الممنین ۔ اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آں کہ میں قتل کر دیا جاں گا۔ ان کا اﷲ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا-

عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اﷲ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اﷲ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اﷲ عنہ بھی متثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،
خود عمر رضی اﷲ عنہ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں معاف کر دو اس شخص کو
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں نہیں امیر المومنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا
عمر رضی اﷲ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟
ابو ذر غفاری رضی اﷲ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی
عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے
ابوذر رضی اﷲ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو
عمر رضی اﷲ عنہ جانتے ہو اسے ؟
ابوذر رضی اﷲ عنہ نہیں جانتا
عمر رضی اﷲ عنہ تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟
ابوذر رضی اﷲ عنہ میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشا اﷲ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا
عمر رضی اﷲ عنہ ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا
ابوذر رضی اﷲ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں امیر الممنین ۔ پھر اﷲ مالک ہے
عمر رضی اﷲ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد ان کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اﷲ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں الصلا ۃ جامعہ کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اﷲ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اﷲ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اﷲ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
عمر رضی اﷲ عنہ سوال کرتے ہیں کدھر ہے وہ آدمی ؟
ابوذر رضی اﷲ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المومنین
ابوذر رضی اﷲ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہو کا عالم ہے ۔ اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اﷲ عنہ عمر رضی اﷲ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمر رضی اﷲ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اﷲ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اﷲ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اﷲ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لمحات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے منہ سے اﷲ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اﷲ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے
عمر رضی اﷲ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا
وہ بولا امیر الممنین ۔ اﷲ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفا ہی اٹھ گیا ہے
عمر رضی اﷲ عنہ نے ابوذر رضی اﷲ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟
ابوذر رضی اﷲ عنہ نے کہا اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے
سید عمر نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا اے امیر الممنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اٹھا لیا گیا ہے
عمر رضی اﷲ عنہ اﷲ اکبر پکار اٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ۔۔۔
اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اﷲ تمہیں جزائے خیر دے
اے ابو ذر ۔ اﷲ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے
اور اے شخص ۔ اﷲ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے
اور اے امیر المومنین ۔ اﷲ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے
آپ ؓ کی شہادت
اﷲ رب العزت نے مراد رسول ﷺ کوشاندار زندگی دی اورمیت بھی شاندار عطافرمائی ۔حضرت عمرفاروق نے خداتعالیٰ سے دعافرمائی ’’اﷲم انی اسئلک شہادۃ فی سبیلک ووفات فی بلدرسولک ‘‘ترجمہ:
اے اﷲ!تیرے رستے میں شہادت پانے کاسوال کرتاہوں اورتیرے حبیب کے شہر میں موت چاہتاہوں :شہررسول (مدینہ منورہ) میں پروردگارعالم نے ایسی رعنائی اورکشش رکھی ہے کہ اس شہر آرزوکوچھوڑنا آسان کام نہیں ۔اکثر وبیشترصحابہ کرام نے اسی خواہش وتمناکااظہار کیا۔حضرت عثمان غنی ؓنے تویہاں تک فرمایاتھاکہ مجھے موت منظور ہے لیکن رسول خداﷺ کے شہر کی جدائی گوارانہیں ۔

حضرت عمرفاروق ؓ نے اﷲ کے حضور شہادت کی موت کے لیے جودعامانگی تھی وہ بارگاہ خداوندی میں منظور ہوگئی ۔فیروز نامی پارسی حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کاغلام تھا۔وہ چکیاں بنانے کاماہر تھا۔امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق کے دورحکومت میں ایرانی فتوحات سے اس قدر نالاں تھاکہ اس کے سینے میں حضرت عمر فاروق ؓ کے خلاف جوش انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی ۔ایک روزوہ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر حاضر ہواکہ میرامالک مجھ سے زائد ٹیکس وصول کرتاہے ،حضرت عمرفاروق ؓ نے پوچھاکہ وہ تجھ سے کتناٹیکس وصول کرتاہےَ؟اس نے کہاکہ وہ مجھ سے دودرہم یومیہ وصول کرتاہے ۔امیرالمؤمنین نے فرمایاکہ تمہارے فن اورکاریگری کے لحاظ سے یہ ٹیکس کچھ زیادہ نہیں ۔حضرت عمرفاروق ؓ نے فرمایاکہ سناہے کہ تم چکی بہت اچھی تیار کرتے ہو؟ایک چکی مجھے بھی بناکردو،اس نے کہاکہ میں آپ کوایسی چکی بناکر دونگاجس کی ساری دنیامیں دھوم مچ جائے گی جب فیروز امیرالمؤمنین کے دربار سے چلاگیاتوسیدناعمرفاروق ؓ نے اپنی کمال بصیرت کی بناء پر موقع پہ موجود صحابہ کرام سے کہاکہ فیروز کی جواب سے مجھے انتقام کی بوآئی ہے یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے گیاہے ۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کی کہ امیرالمؤمنین اس شخص کوگرفتارکرلیاجائے فاروق اعظم ؓ کاعدل دیکھئیے کہ انہوں نے جواب دیاکہ اس نے مجھے دھمکی ضرور دی ہے لیکن اقدام ِ جرم نہیں کیالہٰذاتعزیر نہیں لگائی جاسکتی۔

سیدناعمرفاروق ؓ کامعمول تھاکہ نماز کے فرائض خودسرانجام دیاکرتے تھے بدھ کے دن 27ذوالحجہ23ھ کوحضرت عمرفاروق ؓ حسب معمول صبح کی نماز کے لیے اما م الانبیاءﷺ کے مصلیٰ پہ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے ۔فیروز بھی نمازی کے روپ میں خنجرچھپائے پہلی صف میں کھڑاہوگیااورموقع ملتے ہی ظالم نے امیرالمؤمنین ؓ کوزہر میں بجھے ہوئے خنجرکے پہ درپہ وار کرکے گھائل کردیامرادرسول ﷺ کے عزم وہمت کے کیاکہنے زخموں سے چورامیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق ؓ نے گرتے ہی مصلیٰ امامت حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے سپرد کیا۔خون میں لت پت امیرالمؤمنین ؓ نے اشاروں سے نماز مکمل کی کہ کہیں امامت وخلافت میں حرف نہ آجائے ۔نماز کے بعد آپؓ نے پہلاسوال یہ کیاکہ میراقاتل کون ہے؟معلوم ہواکہ وہ غیرمسلم ہے ۔آپ ؓ نے بلند آواز سے کہاکہ الحمدﷲ ۔گویاامیرالمؤمنین کی شہادت کی خواہش پوری ہونے کاوقت آگیا۔حکیم بلایاگیالیکن اس کی پلائی ہوئی دوازخموں کے راستہ باہرنکل گئی ۔فاروق اعظم ؓ کویقین ہوگیاکہ میری خواہش ضرورپوری ہوگی۔چنانچہ اپنے بیٹے حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کوبلایااورفرمایاکہ اماں عائشہ ؓ کے پاس چلے جاؤمیراسلام کہنااوریہ درخواست پیش کرناکہ عمرفاروق خادم اسلام کی حیثیت سے مصطفی ﷺ کے پہلومیں جگہ چاہتے ہیں جوآپ ؓ نے اپنے لیے رکھی ہے حضرت عبداﷲ ؓ حضرت عائشہ ؓ کے پاس چلے گئے ۔اماں عائشہ ؓ نے روتے ہوئے کہاکہ یہ جگہ بہت قیمتی ہے کوئی اورہوتاتومیں انکارکردیتی حضرت عمرفاروق ؓ کومیں کیسے انکارکرسکتی ہوں جس نے مشکل وقت میں میراساتھ دیاتھاجب سب میراساتھ چھوڑگئے تھے ۔حضرت عمرفاروق ؓ کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔جب اس عظیم المرتبت انسان نے برملااعلان کیاتھا’’سبحٰنک ھذابھتا ن عظیم‘‘

حضرت عبداﷲ ؓ واپس لوٹے توحضرت عمرفاروق ؓ نے فرمایاکہ مجھے اٹھاکربٹھاؤاماں عائشہ ؓ کاجواب لیٹے سننامیں بے ادبی وگستاخی سمجھتاہوں ۔آپ کے صاحبزادے نے خوشخبری سنائی آنکھوں میں آنسوجھلسانے لگے ۔سجدہ شکر اداکیااورحاضرین مجلس کوایک بارپھروصیت کی کہ جب میراانتقال ہوجائے میری آنکھیں دیکھنابندکردیں ۔میرے کان سننا بند کردیں ،میری زبان بولناچھوڑدے ،میرے پاؤں چلناچھوڑدیں ،میرے ہاتھ میراساتھ چھوڑدیں ،میراجسم کفن میں لپٹادیاجائے میری میت کوام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کے دروازے پرلے جاکررکھ دیاجائے میرے چہرے سے کفن ہٹادیاجائے اورایک مرتبہ پھراماں عائشہ ؓ سے روضہ اقدس میں تدفین کی اجازت طلب کی جائے اگروہ اس امر کی اجازت دے دیں توٹھیک ہے ورنہ مجھے جنت البقیع میں دفن کردیاجائے اس لیے کہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ عمرنے زبردستی یاطاقت کے ذریعے یہ جگہ حاصل کرلی چنانچہ ایساہی کیاگیاہفتے کے دن یکم محرم الحرام کو 63برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں شہادت پاگئے آپ کی تدفین حضرت عائشہ ؓکی اجازت سے حضور ﷺکے پہلومیں ہوئی۔۔آپ کی نمازجنازہ حضرت صُہیب ؓ نے پڑھائی۔

حضرت عمر فاروق ؓ کے انصاف کی یہ حالت تھی کہ جب آپ ؓ کا انتقال ہواتو آپ کی سلطنت کے دوردرازعلاقے کا ایک چرواہابھاگتاہواآیااورچیخ کر بولا۔لوگو!حضرت عمرؓکا انتقال ہوگیاہے۔لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو۔تمہیں اس سانحہ کی اطلاع کس نے دی ؟چرواہا بولا!جب تک حضرت عمر فاروق ؓزندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اُٹھاکر نہیں دیکھتاتھالیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیامیری بھیڑکابچہ اٹھاکرلے گیا۔میں نے بھیڑیے کی جرات سے جان لیاآج دنیامیں عمر فاروق ؓموجود نہیں ہیں چنانچہ ان لوگوں نے جب تحقیق کی تو پتاچلاکہ اِسی روز حضرت عمرؓکی شہادت ہوئی تھی ۔
Ghulam Rasool
About the Author: Ghulam Rasool Read More Articles by Ghulam Rasool : 4 Articles with 4077 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.