یہاں نہ کسی ہاشمی کی ضرورت ہے نہ ایسے آدمی کی

پاکستان تحریک انصاف کو مبارک ہو کو کہ قوم کی نظر میں باغی اور ان کی نظر میں داغی ہا ر گیا ور قوم کی نظر میں داغی اور پی ٹی آئی کی نظر میں اصل محب وطن عامر ڈوگر جیت گیا،یقینانیا پاکستان عامر ڈوگر ،شاہ محمود قریشی اور ہر دلعزیزشیخ رشید کی ہی قیادت میں اپنی منزل پر پہنچے گا ،قوم حوصلہ رکھے جس جس نے بھی نے نئے پاکستان کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی اس کا حشر جاوید ہاشمی سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا،آپ اس جمہوری جماعت کی جمہوریت کا اندازہ کریں کہ جمہوری طریقے سے منتخب صدر کو جناب خان صاحب کے ایک اشارہ ابرو پہ گھر بھیج دیا گیا اور اس منتخب صدر کو منتخب کرنے والے دس فی صد لوگ بھی اس کے ساتھ نہ تھے،کیا کمال اور لازوال جمہوریت ہے،کیا کسی بھی شخص میں جراء ت ہے کہ وہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری یا الطاف حسین و اسفند یار ولی کی رائے سے اختلاف کر سکیں نہیں نہ مگر یہاں تو او میاں صاحب تبدیلی آچکی ہے نیا پاکستان بن رہا ہے کیا نیا پاکستان بھی ایسا ہی بننا ہے تو پھر پرانے میں کیا برائی ہے،عمران خان کی ضد اور ہٹ دھرمی اگر کسی نے پتہ کرنی ہے تو خیبر پی کے کا ایک چکر لگا لے،نواب آف کالا باغ کی پوتی سے پتہ کر لے حفیظ اﷲ نیازی سے پوچھ لے یا پھر اسپیکر صوبائی اسمبلی کے پی کے سے خیر خبرمعلوم کرے،نئے پاکستان کے خدو خال کافی حد تک واضح ہو جائیں گے،پی ٹی آئی نے ان الیکشن میں کیسی شاندار فتح حاصل کی کہ ہاشمی کھو کر ڈوگر پا لیا ،ڈوگر کو سارا ملتان جانتا ہے جبکہ ہاشمی کو ساراپاکستان،عامر ڈوگر کے ساتھ ہاشمی کا موازنہ بنتا ہے نہ میں کروں گا میں کسی کی برائی بھی بیان نہیں کروں گا کہ یہ گناہ عظیم ہے صرف چند حقائق سامنے لانے کی جسارت کروں گا جس کے جواب میں حسب معمول نونہالان انقلاب کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ آئے گی مگر نہیں پروا کہ وہ جس طرح گالیاں دینے میں کمال حاصل کر چکے ہیں ہم گالیاں سننے میں ملکہ حاصل کر چکے ہیں ،تو پی ٹی آئی نے ڈوگر پایا ہاشمی کھویا کون ہاشمی وہ ہاشمی جس کی ساری زندگی جمہوریت کی نظر ہو گئی،وہ ہاشمی جسے 1973میں ذوالفقارعلی بھٹو نے اسکی جوانی کے ایام میں لندن میں پاکستان کا ہائی کمشنر بننے کی پیشکش کی اور بدلے میں گذارش کی کہ وہ حکومت کے خلاف کسی تحریک کا حصہ نہ بنے مگر ہاشمی نے بھٹو کی ایک نہ سنی،وہ ہاشمی جس نے ضیاء الحق جیسے کوڑے مار ڈکٹیٹر کو قومی اسمبلی کے فلور پہ للکارا کہ تم ایک آمر ہو تمہیں اس ایوان سے خطاب کا کوئی حق نہیں،نتیجے میں وزارت بھی گئی اور رکنیت بھی ،جی ہاں وہ ہاشمی جو بردہ فروش ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے سامنے اس وقت ڈٹ گیا جب کوئی میاں برادران کا نام لینے کی جراء ت بھی نہیں کرپاتا تھا،ہاشمی چاہتا تو میاں اظہر بن کر ق لیگ کی قیادت سنبھال لیتا اور من مرضی کا عہدہ حاصل کر کے مزے کرتا،مگر جب کوئی پرویزی حربہ ہاشمی پہ اثر انداز نہ ہواتو اسے بغاوت کے جرم میں 22 سال قید کی سزا سنا دی گئی،یہ ہاشمی کھو دیا پی ٹی آئی نے اور بدلے میں ڈوگر پا لیامبارک ہو ،ہاشمی وہ شخص تھا کہ جس نے2008میں پیپلز پارٹی کی کولیشن کابینہ میں شامل ہونے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اسے پرویز مشرف سے حلف کے ذریعے وطن سے وفاداری کا حلف اٹھانا پڑتا باقی دوستوں نے اٹھا لیا لیکن ہاشمی سے یہ کم از کم منافقت بھی نہ ہوپائی،ہاشمی جس نے عین عروج کے وقت پاکستان مسلم لیگ نون کو چھوڑ دیا،چاہتا تو اپنی پسندکے عین مطابق کوئی بھی عہدہ لیکر عیش کرتا اپنا بازو اپنے گلے کے ساتھ جوڑے رکھنے کی بجائے دنیا کے امیر ترین ملکوں میں اپنا علاج کرواتا،مگر اس نے نہ صرف ن لیگ کو چھوڑا بلکہ تحریک انصاف کو ملک کی نجات دہندہ سمجھ کر دھڑلے سے اس میں شامل ہو گیا،وہ ہاشمی ہار گیا جس نے پوری تحریک انصاف میں سب سے پہلے استعفیٰ دیکر تمام پردھانوں کے منہ پر تمانچہ رسید کر دیا کہ استعفے کا اعلان کرنے اور دینے میں زمین آسمان کا فرق ہے ،کمال حیرت ہے کہ وہ جو کہتے تھے کہ جونہی عمران اعلان کرے گا میں بھی اسمبلی میں موجود اپنی واحد نشست چھو ڑ کر عمران کے ٹرک پہ سوار ہوجاؤں گا مگر وہ ٹرک پہ تو شانہ بشانہ ہے مگر اسمبلی ابھی تک نہیں چھوڑی جا رہی جناب شیخ جی سے،ہاشمی اس جماعت سے ہار گیا جس کا صدر تھا،جو یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن کا سارا پراسس ہی اصلاحات کے بغیر عبث ہے اس نے نہ صرف الیکشن میں حصہ لیا بلکہ اپنے صدر کو ہرانے کے بعد نتائج کو تسلیم کر کے بڑھکیں بھی لگائیں،کیا اصول پرست جماعت ہے کہ جھوٹی انا کی خاطر پیپلز پارٹی کے امید وار کی حمایت میں دن رات ایک کر دیئے جبکہ جلسوں میں اوے زرداری اوئے زرداری تمھیں نہیں چھوڑیں گے کیا یہ کھلا تضاد ہے یا منافقت کی اعلیٰ ترین مثال،ہاشمی نے اپنی جماعت کے عین شباب میں تحریک انصاف کی پالیسیوں پر شدید نقطہ چینی کی اور جماعت کوغیر جمہوری قوتوں اور افراد کے ہاتھوں یرغمال بنتا دیکھ کراور کھوٹے سکوں کی بارش کے قطروں کی طرح پارٹی میں آمد پر آسمان سر پر اٹھا لیا،اور چیخ چیخ کر کہا کہ غلط راستے پر چل پڑے ہو منزل کھو دو گے،جمہوریت کو چلنے دو اسی میں ملک کی بقا ہے،اسی سسٹم میں رہ کر سسٹم کو ٹھیک کرو،شارٹ کٹ تباہی کی طرف لے جائے گا پارٹی کو بھی اور پاکستان کو بھی،نیا پاکستان بنانا ہے تو پرانے اور فرسودہ نظام کے ساتھ لوگوں سے بھی جان چھڑاؤ،کل تک پرویزی اور زرداری کابینہ کے لوگ کیا اور کیسی تبدیلی لاسکتے ہیں قوم ان کو جانتی ہے،مگر ہاشمی کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز تھی جو پرائیویٹ جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی آوازوں میں دب گئی،جب کچھ نہ بن پایا تو یہ سدا کا باغٰ باغ باغی حسب معمول الگ ہو کر اپنے آبائی وطن سدھارا،اور جانے سے پہلے قوم سے کیا ہوا وعدہ کہ پاکستان تحریک انصاف اسمبلیوں سے استعفیٰ دے گی حالانکہ اسے اس سے سخت اختلاف تھا مگر پارٹی قیادت کا فیصلہ تھا سو یہ بھی اس میں شامل ہوا اگلے دن اسمبلی میں پہنچ کر سب سے پہلے استعفیٰ دیکر استعفیٰ استعفی کرنے والوں کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی جو ناکام کوشش تھی کہ اب ڈھیٹ پن اس حد تک پہنچ چکا کہ چھوٹی موٹی کوئی شے ہمیں اب شرمندہ نہیں کر سکتی ہاشمی کو ہرا کر تحریک انصاف جیتی نہیں بلکہ ہاری ہے اور ہاشمی ہار کے بھی ہارا نہیں جیتا ہے،ہاشمی نے سیاست اس وقت شرو ع کی جب نواز شریف ،زرداری اور اوئے اوئے کرتے عمران خان کو سیاست کی الف ب کا بھی نہیں پتہ تھانئے پاکستان کی شروعات ہو چکی ہے قوم انتظاراور دعا کرے کہ شاید کبھی اس کے دن بدلیں اور کسی حقیقی نئے پاکستان کا سو رج طلوع ہو کیوں کہ موجودہ پاکستان کو کسی سرپھرے ہاشمی کی ضرورت ہے نہ کسی ایسے آدمی کی ،ایسا آدمی کسی پارٹی کو وارا ہے نہ ایسوں کی کوئی گنجائش ہی ہے اپنے ہاں، ہاشمی کھو کر عامر ڈوگر پا لینا اگر گھاٹے کی بجائے فائدے کا سودا ہے تو پاکستان تحریک انصاف کو یہ تحفہ مبارک ہو،،،،،،،،اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو