منکرین حدیث کی حقیقت-آخری کیل

٣- یہ لوگ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حصول علم کا ایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کو محض ظن اور گمان پر مشتمل مواد تصور کرتے ہیں۔

ایسے ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنا بڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کو پیش کیا کہ یہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوں تابعین سے، تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں۔ اور محدثین کرام نے احادیث بھی صرف ان لوگوں کی قبول کیں جن کا زہد و تقویٰ اور علمیت مسلمہ تھی۔ مزید برآں جن لوگوں نے احادیث کو "ظنی" کہا ہے ان لوگوں کی مراد اس سے وہ ظن نہیں جو منکرین حدیث باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد "حق الیقین" سے کم تر درجہ کا یقین ہے کیونکہ ظن کا لفظ بعض اوقات یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کی مثال قرآن میں بھی موجود ہے مثلاً :

سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
اﷲ سے مدد طلب کرو صبر اور نماز کے ذریعہ اور بے شک (نماز ) بڑی بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو اﷲ سے ڈرتے ہیں، ( اﷲ سے ڈرنے والے لوگ ) وہ ہیں جو اﷲ سے ملاقات اور اس کی طرف لوٹ جانے کا ظن رکھتے ہیں( سورة البقرة : 2 ، آیت : 45-46 )

صاف ظاہرہے کہ یہاں "ظن" سے مراد ایمان و یقین ہے کیونکہ آخرت اور اﷲ سے ملاقات پر یقین رکھنا اسلام کا ایک لازمی جزو ہے ۔

حقیقت میں قرآن پاک میں کسی بھی دعوے کو تسلیم کرنے کے لئے گواہی کا جو معیار بتایا گیا ہے( جیسے کہ زنا کے مقدمے میں) تمام محدثین نے احادیث کو ذخیرہ کرنے کے لئے اس معیار سے زیادہ کا اہتمام کیا تھا، اور انتہائی چھان پھٹک کے بعد کسی حدیث کے مستند ہونے کی گواہی قبول کی ہے۔

٤- یہ لوگ دین کے معاملات میں عقل کو استعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ منکرین حدیث دینی معاملات میں عقل کے استعمال کے لئے دلیل کے طور پر قرآن کی متعدد آیات کو پیش کرتے ہیں جس کے باعث ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو عقلمند کہلوائے جانے کا خواہش مند ہوتا ہے منکرین حدیث کے پھیلائے ہوئے اس جال میں با آسانی پھنس جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک نے عقل استعمال کرنے کا حکم انسان کو اس لئے دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس کائنات پر اور اللہ کی بنائی ہوئی ایک ایک چیز پر غوروفکر کر کے اللہ تعالی کیٰ عظمتوں کو پہچانیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کے بندوں کی بھلائی کے لئے استعمال کریں۔ لیکن افسوس کے ان لوگوں نے بجائے ان احکامات پر چلنے کے کسی اور ہی راہ کو اپنا لیا۔

٥- یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنی عقل استعمال کرو اور قرآن پاک کو سمجھو اور اس پر اپنی عقل کے مطابق عمل کرو۔ اب ان سے کوئی یہ پوچھے کہ آپ کو عربی آتی نہیں اور قرآن کو سمجھنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اچھا آپ کو انگریزی تو پڑھنی بھی آتی ہوگی اور سمجھ بھی آتی ہوگی، ذرا یہ تو بتائیں کہ میڈیکل کی کتابیں پڑھ کر اور سمجھ کر اپنے بچوں کا اور اپنا علاج خود کیوں نہیں کرتے کیوں کسی مستند ڈاکٹر کے پاس ہی جاتے ہو، اور وکالت کی کتابیں خود ہی پڑھ کر عدالت میں اپنے کیس خود کیوں نہیں لڑتے۔ افسوس کے ان بے عقل لوگوں کو اسلام اور قران پاک ہی ایسی چیز نظر آتی ہے جس کے لئے ان کو کسی عالم اور استاد کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اور یہ اپنی مرضی کے مطابق قرآن پاک کی آیات کو استعمال کرتے ہیں۔

٦ - ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو انکار حدیث کے ضمن میں انتہاء درجہ پر نہیں بلکہ انکار و اقرار کی درمیانی کیفیت پر ہیں ایسے لوگ محدثین کے وضع کردہ اصولوں سے ناواقفیت کے باعث بعض احادیث یا بعض احادیث کی اقسام کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں ماننے۔

مثلاً بعض حضرات اپنے آپ کو منکر حدیث تسلیم نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اطیعواﷲ سے مراد اﷲ کے احکام کی پابندی کرنا اور اطیعوا لرسول سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ اور احادیث پر عمل ہے، لہٰذا جہاں قال اﷲ تعالیٰ کا لفظ آئے وہ قرآنی آیت ہوگی اور جہاں قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے وہ حدیث نبوی ہوگی۔

ان صاحبان نے قرآنی آیت اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو تعریف کی ہے وہ قطعی طور پر نامکمل اور غلط ہے کیونکہ تمام اہل علم کے نزدیک حدیث صرف قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں بلکہ حدیث، اقوال کے علاوہ اعمال و افعال اور تقریرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں تقریر سے مراد وہ افعال واعمال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام سے سرزد ہوئے اور اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر تنبیہ نہیں کی بلکہ ان کو برقرار رکھا مزید برآں صحابہ کرام کے اقوال و اعمال کو بھی حدیث کہا جاتا ہے اور اس کے لئے حدیث موقوف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

اسی طرح ہر وہ بات جو قال اﷲ تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے ہمیشہ قرآنی آیت نہیں ہوتی بلکہ احادیث میں بھی قال اﷲ تعالیٰ کے الفاظ اکثر آتے ہیں اور محدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو "حدیث قدسی" کہا جاتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ منکرین حدیث علم حدیث کے ضمن میں محدثین کی وضع کردہ بیشتر اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں۔

منکرین حدیث ایسی قوم میں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا ہے :
( قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگا کر بیٹھا ہوگا تو اسے میری احادیث میں سے کو‏‏ئی حديث بیان کی جائے گی اور وہ جواب میں کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے اس میں ہم جو اشیاء حلال پائيں گے اسے حلال جانے اور جو کچھ حرام پائيں گے اسے حرام جانیں گے، خبردار ! اور بیشک اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حرام کیا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کی طرح ہے ) الفتح الکبیر ( 3 / 438 ) اور امام ترمذی نے اسے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا اور اسے حسن صحیح کہا ہے ( سنن ترمذی بشرح ابن العربی ، ط ، الصاوی 10 / 132 )

اللہ تعالىٰ سے دعا ہے كہ وہ ہميں حق كو حق دكھائے، اور ہميں حق كى اتباع و پيروى كرنے كى توفيق دے، اور ہميں باطل كو باطل دكھائے اور ہميں باطل سے اجتناب كرنے كى توفيق بخشے، اللہ تعالىٰ ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم.
Asif Mehar
About the Author: Asif Mehar Read More Articles by Asif Mehar: 10 Articles with 26638 views My friends say that I am intelligent... but I do not trust them... View More