جماعت اسلامی:سیاسی کامیابی کیسے حاصل کرے

لکھنے والے دوست واحباب جماعت اسلامی کو بوڑھی جماعت کہنے لگ گئے تھے۔اسکی سیاسی کامیابی کے بارے بھی مایوس تھے۔لیکن مارچ2014 ء میں آنے والے نئے امیرمحترم کی وجہ سے امید کے چراغوں کی لوپھر بلند ہونے لگی ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنیRichنظریاتی بنیادوں کی وجہ سے کوئی بھی پارٹی جماعت اسلامی کے برابر نہیں ہے۔دور جدید کی زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس پر جماعت کے لٹریچر سے روشنی نہ پڑتی ہو۔ہر مشکل مسلۂ کے حل کے لئے واضح ہدایات موجود ہیں۔اگر ہم صرف ایک شعبے غیرسودی معیشت کی بات کریں تو یہاں جماعت اسلامی کے ہی لوگ گرانقدر خدمات سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ابتداء میں غیر سودی متبادل تجاویز اسی حلقے کی طرف سے پیش کی گئیں۔او ر اب پاکستان سمیت پوری دنیا میں غیر سودی بنکاری اور مضاربہ کمپنیاں کامیابی سے کام کرتی نظر آتی ہیں۔ایسے ہی دیگر سماجی شعبوں میں بھی جماعت اسلامی کام کرتی نظر آتی ہے۔تعلیمی خدمات تو کافی پھیلی ہوئی ہیں۔پاکستان بنتے ہی جماعت نے سیاسی شعبے میں قدم رکھ دیا تھا۔لیکن ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد اس شعبے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ایسا ملک جس کی آبادی95فیصد مسلمان ہو۔جس کے بنانے کامقصد اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام ہو۔وہاں جماعت کاکامیاب نہ ہونا حیران کن ہے۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ جماعت پر فرقہ واریت کی چھاپ نہیں ہے۔تو پھر لوگ اسے کیوں ہر الیکشن میں مسترد کرتے ہیں۔1970ء سے2013ء تک کے انتخابات کے نتائج ایک ہی جیسے ہیں۔2002ء کے انتخابات کے نتائج افغانستان پرکارپٹ بمباری کے رد عمل اور مذہبی ووٹ کے اکٹھا ہونے سے مختلف تھے۔تب ایم۔ایم۔اے کو11۔فیصد ووٹ ملے تھے۔2008ء کے الیکشن کے بائیکاٹ سے جماعت اسلامی کو قومی سطح پر بہت نقصان ہوا۔ایسی تنظیم جس نے عوام کو ساتھ لیکر تبدیلی اور اصلاح کا پروگرام طے کیا ہوا ہو۔بہت سے لکھنے اور سوچنے والوں کو اس کے بائیکاٹ کی اب تک وجہ سمجھ نہیں آئی۔ماضی کو چھوڑتے ہوئے اب آئندہ کیسے آگے بڑھا جائے۔ایک کام تو جماعت کو فوراً ترک کر دینا چاہیئے۔وہ ہے احتجاجی اور منفی سیاست ایک لمبے عرصے سے منفی اور احتجاجی سیاست کرتے کرتے جماعت اسلامی کا مزاج بھی احتجاجی سابن گیا ہے۔جماعت اسلامی اب تک قائم حکومتوں کے خلاف ریلیاں جلسے اور جلوس بڑے پیمانے پرکرتی رہی ہے۔میری یادداشت کے مطابقSitinیادھرنے کا لفظ تو پاکستانی سیاست میں جماعت اسلامی نے ہی متعارف کرایا۔جون تا اکتوبر1996ء کے درمیان PPPحکومت کے خلاف دھرنے اور ریلیاں ہوتی رہیں۔ان دھرنوں میں جماعت کے 3 گھرانوں کے چراغ گل ہوگئے تھے۔بعدمیں راولپنڈی اور کراچی میں بھی حکومت مخالف ریلیاں نکلتی رہیں۔1969ء کی ایوب مخالف تحریک کے نتیجے میں پاکستان آرمی کا گھٹیا ترین جرنیل حکمران بن گیا۔1977 ء کی تحریک جس کی قیادت ہی جماعت کے سپرد تھی اس کے نتیجے میں ملک جمہوریت کی پٹری سے اتر گیا اورآمریت کے سائے 11 سال تک پھیلتے چلے گئے۔اگر جماعت کے بزرگ اس ماضی کا ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیں۔تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ اس پوری احتجاجی اور منفی سیاست کا جماعت کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔جماعت کا تشخص ایک قومی جماعت کی بجائے ایک پریشر گروپ کابنا۔یہ بات بھی ہوئی کہ جس نے حکومت گرانے کا کام کرناہو جماعت کے ذمہ یہ کام لگا دو۔میں معافی چاہتا ہوں کہ ماضی کی بات پھر کر بیٹھا۔لیکن ابھی توـ"گوامریکہ گو"مہم کا ذکر باقی ہے۔یہ مہم کئی سالوں سے جاری ہے۔اور یہ مہم ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر چلائی جاتی رہی ہے جو سرے سے انتخابات میں حصہ لینے کے ہی خلاف ہیں۔یہ حافظ سعید اور مولانا فضل الرحمن خلیل انتخابات کے لوگ ہی نہیں اور آپ ان کے ساتھ مل کر وقت اور وسائل ضائع کرتے رہے۔اگر ان کا پروگرام نہیں بھی ہوتاتھا۔تو منصورہ سے200آدمی جھنڈے اٹھائے باہر آتے تھے اور امریکہ مخالف نعرے بازی کے بعدواپس منصورہ کے دفتروں میں چلے جاتے تھے۔اب آپ سوچئے کیا گو امریکہ گو کی تحریک سے امریکہ پاکستان اور افغانستان سے نکل گیا؟۔افغانستان میں امریکہ اپنے46۔ملکی اتحاد کے ساتھ اب بھی بڑے دھڑلے سے براجمان ہے۔اور نئی افغانی حکومت نے بھی انہیں مزید کئی سال تک رہنے کا سرٹیفیکیٹ دے دیا ہے۔یہ رعائت دینے میں افغانیوں کو کچھ اپنا کوئی قومی فائدہ نظر آتا ہوگا۔عراق میں حملے 2003ء سے لیکر اب تک جاری ہیں۔کیا جماعت اسلامی کی امریکہ مخالف مہم سے امریکی سپر پاور کی حیثیت میں کوئی فرق پڑا؟۔امریکہ اب بھی دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے۔جماعت کی امریکہ مخالف مہم سے امریکی صحت پر کچھ بھی اثرنہیں پڑا۔یہ جماعت کے وقت اور وسائل کا ضیاع تھا۔ان تمام باتوں کے دھرانے کا مقصد یہ ہے کہ جماعت احتجاجی سیاست سے نکل کر مثبت سیاست میں اپنی توانائیاں صرف کرے۔ایک بڑا اور جرات مندانہ ٹرن لینے کی ضرورت ہے۔حکومت کسی بھی جماعت کی ہو اس کے خلاف دھرنے ،ریلیاں اور جلوس سے جماعت اسلامی کی طاقت میں اضافہ نہیں ہوتا۔تنقید صرف بیان کی حد تک رکھی جائے۔آئندہ آنے والے الیکشن کی تیاری ابھی سے شروع کردینی چاہیئے۔یہ2018ء سے پہلے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔2013ء کے الیکشن کی طرح بے شمار سیٹوں پر امیدوار کھڑے کرنا وسائل اور وقت کے ضیاع کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔جہاں جماعت کے لئے کامیابی کے امکانات ہیں۔صرف ان سیٹوں کو ابھی سے ٹک کرلیا جائے۔انہیں حلقوں میں مرکزی قیادت کوIntensiveدورے کرنے چاہیئے۔کوئی ووٹر بھی ایسا نہ رہ جائے جس سے مرکزی قائدین کی بالمشافہ ملاقات نہ ہو۔پاکستانی سیاست میںElectablesیعنی جیتنے کے قابل لوگوں کو کافی اہمیت حاصل ہے۔کیا Electableبرے ہوتے ہیں۔ایسا ہرگز نہیں۔جماعت کو بھی ایسے Electables سے رابطہ کرنا چاہیئے۔جس کی اپنے حلقے میں ایک شہری کے طورپر نیک نامی ہو۔جماعت ایسے لوگوں کو اپنے معیار تقویٰ پرنہ جانچے۔انہیں اپنے ٹکٹ پر کھڑا کرے۔مہم کے دوران یہ لوگ جماعت کے مزید قریب آئیں گے۔ Electablesکے ساتھ اپنے کافی ووٹ ہوتے ہیں۔الیکشن میں پارٹی ووٹوں کے ساتھ امیدوار کے اپنے ووٹوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔جماعت اسلامی کو ایسے لوگوں سے ابھی سے رابطے کرنے چاہیں۔تمام بڑے کاروباری اور زمیندار لوگ برے نہیں ہوتے۔67سال گزرنے کے بعد بڑی زمینداریاں،زرعی اصلاحات اور قانون وراثت کے نفاذ سے کافی کم ہو گئی ہیں۔صرفPocketsباقی ہیں۔بڑے معیشت دانوں کے نزدیک اب پاکستان فیوڈل ملک نہیں رہا۔البتہ دیہاتوں میں کہیں رویے باقی ہیں۔پرانے جاگیر داروں کے بیٹے اور پوتے کیمبرج اور آکسفورڈ سے تعلیم کے بعد اب بدل بھی چکے ہیں۔جماعت اسلامی اپنی لوئر مڈل کلاس دائرے سے باہر نکل کر اچھے زمیندار لوگوں سے رابطہ کرے۔ایسے ہی کاروباری دنیا میں بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔بس ان سے ملنا شرط ہے۔برادری ازم کو پہچان کی حد تک درست کہاگیا ہے۔لیکن اگر کسی ایک علاقے میں ووٹروں کی تعداد زیادہ ہو۔تو اسی برادری کے معتدل ذہین اور اچھی شہرت والے شخص کو امیدوار بنایا جائے۔ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ آئندہ جس بڑی پارٹی سے مل کر الیکشن لڑنا ہواس پر ابھی سے غوروحوض ہو۔رابطے ہوں اور الیکشن سے بہت پہلے فیصلہ ہوجائے۔2013ء والی کیفیت نہ دھرائی جائے۔جب ہم کبھی ایک طرف جاتے تھے اور کبھی دوسری طرف۔اس سے ہمارا جھکاؤ کسی ایک طرف ظاہر نہیں ہوا۔بہت سبکی ہوئی۔تینوں بڑی پارٹیاں ایک ہی طرح کی ہیں۔مسلم لیگ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے منشور اور قیادت میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔کسی ایک کے ساتھ ابھی سےUnderstandingہوجائے اور الیکشن کے قریب بات فائنل ہوجائے۔جہاں تک منشور کا تعلق تمام کے تمام نقاط سماجی اور معاشی مسائل سے متعلق ہونے ضروری ہیں۔جب عوام کے سماجی اور معاشی مسائل حل ہوتے ہیں تو ریاست خود بخود ہی فلاحی بنتی چلی جاتی ہے۔قدیم زمانے کی مدنی ریاست کے بعد دور جدید میں ناروے ۔ڈنمارک اور سویڈن فلاحی ریاستیں ہی ہیں۔جہاں ہرشے اور سروس عوام کی قوت خرید میں ہے۔تعلیم،صحت،رشوت کاخاتمہ،پینے کا صاف پانی۔روزگار کی میرٹ پر فراہمی۔منشور یہی تو ہے۔خوراک تب سستی ہوگی جب کسان کےInputسستے ہونگے۔ان مسائل کو قیادت بلاواسطہ Adressکرے۔یہ بات کہ ہم اسلامی نظام اور ریاست قائم کریں گے اور یہ تمام مسائل جودرپیش ہیں حل ہوجائیں گے۔یہ باتیں عوام کی سمجھ میں نہیں آتیں۔Direct approchکا طریقہ ہی بہتر ہے۔انتخاب میں بھارت اور امریکہ کے خلاف باتیں کرنے کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔جب ایسی باتیں کی جاتی ہیں تو ان ملکوں کی ایجنسیاں حرکت میں آجاتی ہیں۔اور کسی نہ کسی طریقے سے آپ کو آگے آنے سے روکتی ہیں۔ویسے بھی یہ دونوں ملک اب کرۂ ارض کے بڑے ملک بن چکے ہیں۔جماعت اسلامی کی تقریروں سے انکی قوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔جیساکہ آپ جانتے ہیں۔کاغذ کا دور ختم ہورہا ہے اور الیکٹرانک میڈیا کادور شروع ہے۔اور یہ بہت تیزی سے انسان کی زندگی میں شامل ہوچکا ہے۔ٹی۔دی۔انٹرنیٹ اور سماجی ویب سائٹز جیسے فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے دنیا بھر کے لوگ رابطے میں رہتے ہیں۔فاصلے مٹ گئے ہیں۔جماعت جس حلقے میں الیکشن لڑے۔وہاں کے ووٹروں کے موبائل نمبر حاصل کرنا تو کوئی مسلۂ ہی نہیں۔اور انہیں ہر وقت اپنے حق میں پیغامات بھیجے جاسکتے ہیں۔ٹویٹر اور فیس بک بھی لوگوں کو اپنا پیغام پہنچانے اور رابطے کے لئے آج کل بہت استعمال ہورہا ہے۔جماعت کو الیکشن سے پہلے اپنے حلقہ کے کارکنوں کو ایسی تمام ویب سائٹز کے بارے متعارف کرانا ضروری ہے۔نئے زمانے اور نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ ساتھ چلنا بہت ضروری ہے۔دوسری پارٹیوں کی طرح جماعت اسلامی کو بھی بڑے جلسے کرنے چاہیئے۔اجتماع عام کے بعد ایسے حلقوں میں جلسے ہوں جہاں سے جماعت نے الیکشن لڑنا ہو۔اس سے عوام پر جماعت کا ایک بڑی سیاسی جماعت کا تاثر پڑتا ہے۔جماعت اسلامی نے نظریاتی کام تو بہت کرلیا ہے۔لٹریچر سے لائبریریاں بھر دی گئی ہیں۔اب جماعت کو سیاسی طورپر آگے بڑھانا اور سیاسی کامیابی انتہائی ضروری ہے۔نئے امیر جماعت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ جماعت کو احتجاجی اور منفی سیاست کی بجائے مثبت سیاست کی طرف آگے لے کرجائیں گے۔دھرنے،حکومت مخالف ریلیاں اور گو امریکہ گو میں کافی وقت اوروسائل ضائع ہوگئے ہیں۔جماعت اسلامی اپنے تمام وسائل سیاسی کامیابی کے لئے صرف کرے۔حکومت میں آنے سے پارٹیوں کا قد کاٹھ بڑھتا ہے۔اس کے لئے صرف اور صرف مثبت انداز کی سیاست کا ہونا ضروری ہے۔E-mailتو میرا اوپر موجود ہے۔موبائل نمبر0321-4541644ہے۔
Prof.Ch.Jamil
About the Author: Prof.Ch.Jamil Read More Articles by Prof.Ch.Jamil: 18 Articles with 10914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.