شوہر کی اطاعت ناگزیر کیوں

آج کل میاں بیوی کے درمیان نا اتفاقی ایک عام سی بات ہے یہ تقریباً ہرگھرکا مسئلہ ہے جس سے کتنے ہی جنت نشان گھر جہنم کا نمونہ بن گئے ہیں۔عورت اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے تو شوہر اپنے حق جتا رہا ہے۔حضور نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو کسی مخلوق کےلئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کوسجدہ کرے۔(ابو داﺅد‘حاکم ‘سنائی‘احمد)

جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حور عین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے۔اسے ایذا نہ دے یہ تو تےرے پاس مہمان ہے عنقرےب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔حدیث میں یہ بھی بیان ہے کہ عورت ایمان کا مزہ نہ چکھ پائے گی جب تک کہ شوہر کا حق ادا نہ کرے۔حضرت علیؓ نے فرمایا ’اے عورت خدا سے ڈرو اور شوہر کی رضا مندی کی تلاش میں رہو اس لئے کہ عورت کو اگر معلوم ہوتا کہ شوہر کا کیا حق ہے تو جب تک اس کے پاس کھانا حاضر رہتا یہ کھڑی رہتی‘۔

اگر عورت شوہر کے حکم کی اطاعت و فرماں برداری کرے بشرطیکہ وہ ممنوعات شرعیہ میں سے نہ ہو۔اگر شوہر کوئی ایسا کام کرنے کو کہے جس میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی ہو تو اس میں شوہر کی اطاعت نہ کی جائے۔میاں بیوی دونوں کےلئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خواہشوں کا احترام کریں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر شوہر کہیں چلا جائے اور بیوی اس کے پیچھے گھر میں تنہا ہو تو اپنے جان و مال کی خیر خواہی کی ذمہ داری عورت پر ہے۔شوہر کی اطاعت کو فرماں برداری میں جہاد کا ثواب حاصل ہے۔لیکن آج کل خود کو ترجیح دینے کی ہوڑ اور مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کی ہوس میں عورتوں نے شوہر کو بالکل ہی بے مقصد اور بےکار شئے سمجھ لیا ہے۔اکثر مرد اور خواتین کو بحث کرتے دیکھ کر آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ میاں بیوی ہیں ۔اس طرح کی چیں چیںکہ آپ لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ زچ بھی ہو جائیں گے۔مغربی تہذیب کی تقلید نے عورتوں کو مردوں پر حاوی ہونے کا جواز فراہم کر دیا ہے۔مرد حضرات دوسروں کے سامنے شیر اور بیوی کے سامنے بھیگی بلی نظر آتے ہیں۔بیویاں مردوں پر رعب جما کر خود میں بڑکپن اور سکون محسوس کرتی ہیں لیکن ایسا کرتے وقت یہ بالکل نہیں سوچتیں کہ اس سے ان کی ازدواجی زندگی اور بچوں پر کیا اثر پڑے گا۔بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں مائیں شوہروں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہیں وہ بھی اپنے والد کو additional paper ہی سمجھنے لگتے ہیں۔بہت سارے گھروں میں ان ہی باتوں کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور رشتے ٹوٹنے کے موڑ پر آجاتے ہیں۔

ایک حدیث میں آپ کا ارشاد ہے کہ ”جو عورت اپنے شوہر کی تابعدار ہو اس کے لئے پرندے ہوا میں استغفار کرتے ہیں‘مچھلیاں درےا میں استغفار کرتی ہیں اور فرشتے آسمانوں میں استغفار کرتے ہیں اور درندے جنگلوں میںا ستغفار کرتے ہیں“۔

اللہ نے شوہر کو نائب اور مجازی خدا جیسے القاب سے نوازا ہے۔بیوی کے اچھے برے کی جواب دہی شوہر کی ذمہ داری ہے لیکن شوہر کی جواب دہی بیوی کی نہیں ہوتی۔آج کل بیویاں شوہروں کوہر بات پر تنبیہ کرتی ہیں انہیں اپنے مطابق کام کرنے اور زندگی گزارنے کا مشورہ دیتی ہیں جو کہ شرعی اعتبار سے بھی جائز نہیں ہے ہاں البتہ ہمارے نبی حضور نے فرمایا ہے کہ اگر شوہر شرعی محرمات کا ارتکاب کرتا ہو یا منشیات کا استعمال کرتا ہو اس پر بیوی اسے نصیحت کرتی ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگی۔بلکہ ثواب کی مستحق ہوگی۔ہاں نصیحت کا انداز نرم خو اور حسن سلوک سے بھرا ہو۔

تم نے مجھے زندگی میں دیا کیا ہے تمہارے ساتھ بیاہ کر میرا نصیب پھوٹ گیا‘زندگی برباد ہوگئی یہ اور اس طرح کی دوسری باتیں عورتوں کو ازبر ہوتی ہیں ذرا سی مزاج مخالف بات ہوئی کہ انہوں نے شوہر کو طعنے دینا شروع کر دیا اس کے سارے کئے دھرے پہ پانی پھیر دیا۔

نبیﷺ نے فرمایا ”ایک دفعہ مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو وہاں رہنے والوں کی اکثریت خواتین کی تھی وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کرتی ہیں“عرض کیا گیا ’کیا اللہ کا کفر کرتی ہیں؟تو آپﷺ نے فرمایاشوہر کا کفر کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں(اے شخص )اگر تو کسی عورت کے ساتھ زمانہ دراز تک احسان کرتا رہے اور اس کے بعد وہ کوئی(اسکے خلاف)بات تجھ سے دیکھ لے تو فوراً کہتی ہے کہ میں نے تجھ سے کبھی آرام نہیں پایا۔
ہاں اگر بیوی کی محبت میں شوہر اس کے کسی کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہے تو یہ کوئی معیوب بات نہیں ۔بشرطیکہ شوہر کی مرضی مقدم ہو۔ایسا نہ ہو کہ بیویاں شوہروں سے سارے کام زبردستی کروائیں اور انہیں مجبور کریں کہ وہ ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹائے۔بلکہ گھریلو کاموں کے علاوہ شوہر کی خدمت میں ہی بیوی کی عاقبت پوشیدہ ہے۔اس لئے ماﺅں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اسی طرح تربیت دیں کہ وہ اپنے شوہروں کی فرماں بردار ہوں اس کے لئےماﺅں کا بھی شوہروں کی تابعدار ہونا ضروری ہے تاکہ بچیاں بھی وہی اثر لیں۔اکثر والد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ماں کے پیروں کے نیچے جنت کی تعلیم کو دی جاتی ہے لیکن باپ جنت کا دروازہ ہے یہ بات سرے سے بھلا دی جاتی ہے۔
sheereen zafar
About the Author: sheereen zafar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.