اور وزیراعظم مرگیا

ھر طرف ایک شور و غوغا تھا ، لوگ ادھر ادھر دوڑ رھے تھے۔ ھر کسی کے منہ پر ایک ھی بات تھی کہ وزیراعظم مرگیا۔ اگر وہ کسی کو وزیراعظم لگ رہا تھا یا نہیں لیکن اپنی ماں کا تو وزیراعظم تھا اس کا نام شاہ گل تھا لیکن لوگ اسے مذاق میں وزیراعظم کے نام سے پکارتے۔

اس زمانے میں کنٹینر پر چڑھ کر تقریر کرنے کا رواج نہیں تھا۔ سیاسی دیوانے اور دماغی مریض دیواروں پر چڑھ کر، چھت پر کھڑے ھوکر، یا کنویں کے گرد بنے چبوترے پر چڑھ کر تقریر کرتے تھے۔ یہ کٹینر تو آج کل نکل آئے ھیں۔

وزیراعظم کو بھیڑ اور ھجوم سے محبت تھی خوا وہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ کیوں نہ ھو۔ کل پرسوں کی بات ھے وزیراعظم نے بکریوں اور بکروں سے خطاب کیا اور بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ انشاللہ جب تھرڈ ائمپائر کی انگلی اٹھ جائے گی اور میں وزیراعظم بن جاونگا تو تمام بکریوں اور بکروں کی شادیاں کراونگا۔ لیکن نوجوانوں ! پہلے میں اپنی شادی کرونگا۔ ایک کونے میں بیٹھے ایک بکرے نے جمائی لی اور کہا سبجان اللہ میں 65 سال کی عمر میں جوان ھوگیا۔ بکریوں اور بکروں نے زور زور سے تالیاں بجائیں۔
وزیراعظم جب کسی سے ملتا تھا تو بڑے مغرور انداز اور موٹے اواز میں کہتا تھا کہ پٹواریوں کو لٹکاونگا۔ کسی تھانیدار کو نہیں چھوڑونگا۔ سب کو پھانسی دونگا۔ نوجوانوں یہ سب ڈاکو ھیں لٹیرے ھیں۔ ساری دنیا کو پتہ تھا کہ شاہ گل عرف وزیراعظم پاگل ھے لیکن قدرت کا کرشمہ دیکھو وزیراعظم کو فوج اور طالبان کی زور کا پتہ تھا تو کبھی کسی جرنیل کی کرپشن کی بات نہیں کی۔ حمیدگل یا آئی جے آئی، یا این آر او کا نام زبان پر نہیں لائے۔ نہ کبھی دفاعی بجٹ کا نام لیا نہ اس کے احتساب کی بات کی۔ نہ کبھی بموں سے اڑائے گئے انسانوں کی بات نہ سکولوں کی۔ جب کوئی فوج یا طالبان کے بارے سوال پوچھ بھی لیتا تو وزیرا عظم یا تو غصہ ھوجاتے یا بڑے پیار سے کہتے کہ میں وضو منارک تازہ کرکے ابھی آیا۔

چھوٹے بڑے حیران تھے کہ وزیر اعظم تو ٹھیک ٹھاک تھے کل سارا دن تقریر کرتے رھے۔ یہ اج اچانک کیسے چل بسے ۔ آج صبح جب مرغیوں اور مرغابیوں کو گھر بے باھر ھانک رھے تھے۔ تو آٹے کے کنستر پر چڑھ کر بولے نوجوانوں !!! جے پر دو تین مرغابیوں اور مرغیوں نے احتجاج بھی کیا کہ ھم نوجوان نہیں بلکہ دوشیزائیں ھیں۔

نوجوانوں سن لو !! شام کو جب تم واپس آوگے تو آپکا مالک ملک کا وزیراعظم ھوگا۔ وزیراعظم شاہ گل۔
ھو طرف اعلانات ھوگئے کہ گاوں کا پاگل شادگل وفات پاگیا ھے نماز جنازہ آج دوپہر ڈھائی بجے ھوگا۔
لاش پر جو نوحہ خوانی ھو رھی تھی وہ ادب کہ ایک شاھکار تھا
اوھ میرے وزیراعظم بیٹے ،،، گو نواز گو
کرسی سے پیار رکھنے والے بیٹے ،،،،،،، گو نواز گو
تم قوم کے غم سے مر گئے ،،،، گو نواز گو
شیخ رشید نے تجھے ٹرخا دیا ،،، گو نواز گو
قادري نے تجھے ورغلا دیا ، ، ، گو نواز گو
تیسرے ا‍مپائر کی انگلی نے تجھے مروا دیا ،،،، گو نواز گو
پاگلوں اور جذباتیوں کے سردار بیٹے ،،،، گو نواز گو
تو نے کیا انگلی کا بڑا انتظار بیٹے ،،،، گو نواز گو
تم کتنے اچھے کھلاڑی تھے ،،،، گو نواز گو
لیکن سیاست میں اناڑی تھے ،،، ، گو نواز گو
میں تیری شیروانی کے دنبے کو پہناونگی ، ، ، گو نواز گو
پاشا کو دل سے بد دعا دونگی ، ، ، گو نواز گو
شیخو کے گھر پر سیلاب آوے ،،، ، ، گو نواز گو
قادری کے گھر پر دریاب آوے ، ، ، ، گو نواز گو

فاتحہ خوانی میں لوگوں سے سنا کہ کل کسی دانا نے وزیراعظم کو کہا تھا کہ یہ لوگ نہ تیری شادی کرائیں گے اور نہ تجھے وزیراعظم بنائیں یہ سب تیرے ساتھ مذاق کر رھے ھیں۔ تو پہلے تو وزیراعظم نے گالیاں اور برا بھلا کہا پھر گھر آکر سامنے چار کرسیاں رکھ دی، اور کٹینر/ چھت پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن ٹانگوں نے ساتھ نہ دیا۔ جب اس کی ماں بیچاری گھر آئی تو وزیراعظم اوندھے منہ پڑا تھا
دائیں ھاتھ کی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا تھا اور زمین پر لکھا تھا گو نواز گو۔
ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 106106 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.