کچھ عید کی کہانی

ڈارون کا کہنا تھا کہ انسان ابتداء میں بندر تھا اور پھر ارتقاء کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد انسان بندر کی شکل سے انسان کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ مگر کچھ کرم فرماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسان پہلے بندر تھا یا نہیں ایک الگ بحث ہے مگر انسان کی جو حکات ہیں انکی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں انسان بندر ضرور بن جائے گا۔

انسان کی اصلیت یا تو شدید غم میں پہچانی جاتی ہے یا شدید خوشی کے عالم میں۔ کیونکہ ان دونوں حالات میں ہی انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور بناوٹ کا ملمع جو بھی چڑھایا ہو اتر جانے کے چانسز نوے فیصد سے بھی ذیادہ ہوتے ہیں۔ ویسے بھی انسان کی شدبد جب کم ہو جائے تو وہ کچھ بھی کہنے یا سننے سے پہلے سوچنے کا تکلف نہیں کرتا اور لوگ کیا کہیں گے کا خیال بھی نہیں رہتا۔

اسی تھیوری کو آپ قوموں پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔ اگر کسی بھی تہوار پر یہ سوچ کر خوشی منائی جائے کہ جیسے یہ آخری تہوار ہے اور ہر حد ہی پار کر دی جائے تو اسکو سمجھدارانہ باشعور رویہ بالکل بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں اگر یہ سوچ کر خوش ہوا جائے اور روٹھوں کو بھی منا لیا جائے کہ خوشی کا موقع ہے اور آج کی زندگی میں خوشی کے موقعے کم ہی ملتے ہیں تو یہ رویہ سمجھدارانہ اور حساس ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔

اگر چودہ اگست کے موقع پر یہ سوچ کر کہ جی جشن آزادی ہے اور اس جشن میں ہر حد ہی پار کردی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں سوچا جائے اور موٹر سائکلوں کے سائلنسر نکال کر اسکے شور کی آواز سے بھی سب کو پریشان کیا جائے اور عوام کو چین کی سانس بھی نہ لینے دی جائے اور حد تو یہ ہو کہ اضافی نفری تعینات کرنی پڑے کہ جی لوگوں کو ان جشن منانے والوں سے بچایا جائے اور ان جوشیلوں کی بھی جانوں کا تحفظ وطن کے تحفظ جتنی محنت مانگے جس عمر میں کوشش و قوت ملک کا بھلا کرنے کے لئے لگانی ہو اسکو ان لوگوں پر خرچنا پڑے جن کو ملک کے لئے کام کرنا ہو تو کیا ہی کہنے۔

اسی طرح بکر عید کو بے شک جو مہنگائی کے اور قیمتوں کے حالات دن بہ دن ہو رہے ہیں بہت سے لوگوں کو گوشت نصیب اسی موقع پر ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ضرور کچھ حد تک ضرورت مندوں میں گوشت بانٹنے کا فریضہ ادا بھی کیا جاتا ہے اب کونسے حصے کا بانٹا جارہا ہے اور کونسے حصے کا اپنے لئے رکھا جارہا ہے یہ الگ بات ہے مگر اپنے گھر کے آس پاس جو کچھ جانوروں کی آلائشوں کو پھیلا کر حال کر دیا جاتا ہے وہ تو سب کے مشاہدے میں ہی آتا رہتا ہے۔ پھر اس دفعہ ضلعی انتظامیہ نے بھی قابل قدر اور قابل تعریف کردار ادا کیا ہے۔

مگر اپنی گلی و محلے کو صاف رکھنے کے لئے بہر حال آپکا تعاون بھی ہر سطح پر اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا کہ صفائی کرنے والے عملے کا کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اب آپ ڈشز بنا کر جو کچھ بھی سبزیوں کا کچرا اور دیگر فاضل سامان یہ گیٹ کھول کر باہر اچھال رہے ہیں اس سے بہتر یہ نہیں کہ اسکو جمع کر کے سڑک کنارے جو باقاعدہ ڈرمز رکھے ہوں وہاں ڈال کر آیا جائے۔

اسکے علاوہ جو باربی کیو کے لئے انتظامات و انصرام کئے جائیں اور پھر خوب شور مچا کر آس پاس سب کو اطلاع دی جائے کہ یہاں کیا کیا جارہا ہے تو اس میں بھی کرنے والی پارٹی جو کہ عام طور پر ینگ پارٹی ہی ہوتی ہے وہی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اب شور کی آلودگی بھی پھیلائی جائے اور بے ہنگم ہلہ گلا کرکے یہ سمجھا جائے کہ یہ نہ کیا تو پھر کیا جیا۔ باشعور اور باوقار قوم کے لوگ تفریح اور کوشیاں بھی احتیاط اور معاشرے کی تہزیب کا خیال رکھتے ہوئے مناتے ہیں۔ آپے سے باہر نہیں ہوتے کہ جیسے یہ آخری خوشی ہو۔
اب یہ نہ سمجھا جائے کہ راقم کو کسی باربی کیو میں بلایا نہیں گیا بلکہ وجہ لکھنے کی صرف یہ ہے کہ کچھ معاشرے میں حرکات اور صنف نازک میں سے ہونے کی وجہ سے کچھ مسائل کا سامنا کرنے کے بعد یہ لکھنے اور نشاندہی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 273438 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More