اسلام اور دیگر مذاہب

اسلام
اسلام(ISLAM)ایک بین الاقوامی، گلوبل اور عالمگیر مذہب ہے چنانچہ باری تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وماأرسلناک إلا رحمۃ للعالمین﴾1؂، ﴿ وما أرسلناک إلاکافۃ للناس بشیراً ونذیراً ﴾ 2؂ ، ﴿إني رسول اﷲ إلیکم جمیعاً﴾3؂ ،جس کی اشاعت کے لیے اﷲ تعالیٰ نے حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کومنتخب فرمایا۔بنیادی طور پراسلام یہودیت اور عیسائیت بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کے پیغامات کاہی ایک تتمہ، تکملہ اور مسک الختام ہے جس کی وجہ سے اسے دین ابراہیمی کہا جاتا ہے، لیکن جب سے اسلام کی تعلیمات کی ابتدا ہوئی اُس وقت سے سابقہ تمام مذاہب ، نیزیہودیت اور عیسائیت کی تعلیمات منسوخ ہوگئیں۔

ابتدا سے ہی اسلام ایک تبلیغی مذہب ہے، مگر اس کی تبلیغ کسی خاص گروہ یا قبیلہ کے لیے محدود نہیں رہی، بلکہ اس کی تعلیمات انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں جس سے ہرشخص مستفید ہوسکتاہے، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اسلام تمام عرب میں پھیل گیاتھا بلکہ وفود کی شکل میں آنے والے عرب وعجم کے بدولت اپنی آفاقیت میں ابتدائی قدم رکھ چکا تھااورسو سال کے اندر اسلام کے اثرات عرب کے ہمسایہ ممالک میں افریقہ کی ساحلی ریاستوں اوراسپین تک میں قائم ہوگئے تھے، مسلمان سیاسی اورتمدنی لحاظ سے دنیا کی سب سے اہم قوم (سپر پاور)بن گئے تھے اور صدیوں تک وہ ایشیا، افریقہ اوریورپ میں تہذیب وتمدن کی قیادت کرتے رہے۔

اسلام کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ نبوت سے پہلے حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم عبادت کرنے کے لیے غارِحرا میں تشریف لے جاتے تھے اوروہیں غوروفکر (مراقبہ) میں ڈوبے رہتے تھے کہ ’’آخر لوگ بتوں کو کیوں سجدہ کرتے ہیں!!؟؟……ان کو معبود کیوں قرار دیتے ہیں!!؟؟……آپ اسی الجھن میں گرفتار رہتے کہ کائنات کاخالق کون ہے اوراس کی عبادت صحیح طریقہ پرکس طرح کی جاسکتی ہے۔چنانچہ ایک دن جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اسی غوروفکر میں مشغول تھے ، حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے اورآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کواﷲ تعالیٰ کا یہ کلام سنایا: ﴿اقرأ بسم ربک الذي خلق، خلق الإنسان من علق، اقرأ وربک الأکرم الذي علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔﴾ اس طرح آپ کو نبوت کادرجہ عطا ہوااورایک مذہب جس کانام’’اسلام‘‘(اﷲ تعالیٰ کی مرضی کاپابند ہوجانا اور تابعداری کرنا) رکھا گیااوراس کی اشاعت کی ذمّہ داری آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پوری امت کے سپرد ہوئی۔

اسلام کے قوی پہلو:
۱۔ اسلام کا تبلیغی مذہب ہونا ، ۲۔ عالمگیر ہونا، ۳۔اقوام گیرہونا، ۴۔ جغرافیائی متوسط ہونا، ۵۔ اس کے مرکز کا اب تک محفوظ ہونا، ۶۔اس کی مقدس زبان کا محفوظ اور روزبروز وسیع تر ہونا، ۷۔ سادہ اور مطابق فطرت ہونا، ۸۔ مختلف مذاہب ، ثقافات، اقوام اور زبانوں پر مؤثر ہونا، ۹۔ دین ودنیا کے لیے جامع ہونا، ۱۰۔ سیاسی ومعاشی مساوات کا حامل ہونا، ۱۱۔ خلافت کی صورت میں وحدت اور مرکزیت کاحامل ہونا، ۱۲۔ صدیوں سے ہر حال میں مخالفین کی کامیاب مقاومت کرنا۔

عیسائیت
یہ حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہ السلام کی طرف منسوب ہے ۔ حضرت عیسیٰ کوعربی میں عیسیٰ اورمسیح دونوں کہتے ہیں،اس لیے اس مذہب کو عیسائیت اور مسیحیت سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ عبرانی، سریانی اور انگریزی میں یسوع جسوع اور جزز) (Jesusکہا جاتا ہے۔

مسیح کامعنی ہے گناہ معاف کرنے والااورنجات دینے والا۔اسی طرح کرسٹ (christ)کامعنی ہے نجات دینے والا،اسی سے کرسچن (Christian)ہے ۔

قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے ’’نصاریٰ ‘‘ کا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ ’’نصاریٰ ‘‘ ناصری کی جمع ہے اور ناصری فلسطین کے ایک شہر الجلیل کی ایک بستی ’’ناصرہ‘‘ کی طرف نسبت ہے،جہاں حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ السلام کی تربیت اور نشأ و نما ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت آج سے ۲۰۰۷ سال پہلے القدس شہر کے متبرّک مقام ’’بیت لحم‘‘ میں ہوئی ان کی والدہ کانام حضرت مریم ہے، مریم حضرت داؤدعلیہ السلام کی نسل میں سے تھی اور بقول عیسائیوں کے یوسف نامی شخص سے ان کی نسبت ہوگئی تھی، یعنی وہ مخطوبہ تھیں یوسف نامی شخص کی۔

ہم مسلمان کہتے ہیں کہ حضرت مریم علیہاالسلام حضرت زکریاعلیہ السلام کی کفالت میں تھیں، کسی کی مخطوبہ نہیں تھیں، جب وہ بلوغت کوپہنچی توحضرت زکریاعلیہ السلام نے ان کی متعدد کرامات بھی دیکھیں اور جب ان کو اﷲ جلّ شانہ کی طرف سے بغیر باپ کے بیٹا عطا ہونے کا فیصلہ ہوا، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ان کے گریبان میں پھونک ماری، اسی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ 1؂ ہم کہتے ہیں کہ اﷲ کی طرف سے امرہوا، ہمارااورعیسائیوں کامتفقہ نظریہ یہی ہے کہ آپ علیہ السلام کوتیس سال کی عمر میں نبوت ملی، آپ علیہ السلام نے فلسطین کے قریہ قریہ اور بستی بستی کا دورہ کیا وہاں آپ نے حق کاپیغام پہنچایا،آپ علیہ السلام کی تبلیغ اس لیے تھی کہ یہود دین حق سے ہٹ چکے تھے اورآپ علیہ السلام کی تبلیغ پران کی شدید تنقید ہوتی تھی، یہاں تک کہ یہودیوں نے آپ علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا اوراپنی مذہبی عدالت میں آپ علیہ السلام پرمقدمہ چلوایا،وہ عدالت ایسی تھی جو سزائے موت دینے کے مجاز نہیں تھی، اس لیے یہودیوں نے اُس زمانے کے فلسطین کے رومی گورنرکو ورغلا نے کے لیے یہ کہا کہ یہ آدمی آپ کی حکومت چھینناچاہتاہے، اس بناء پرحاکم وقت نے آپ علیہ السلام کو سولی پرچڑھانے کافیصلہ کیا، پھربقول عیسائیوں کے، حاکم نے ان کوسولی پر چڑھایا، ہاتھ اورپیرمیخوں سے باندھے اور بقول عیسائیوں ہی کے، جب آپ کو سولی پر چڑھایا گیا تو آپ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے دعاکی:’’ یااﷲ! اس قوم کو بخش دے یہ قوم سمجھتی نہیں ہے، پھرآپ علیہ السلام کوشہیدکیاگیا، اس سولی کی وجہ سے پوری عیسائیت کے گناہ معاف ہوگئے اس لیے عیسائی صلیب کی پوجاکرتے ہیں، پھرعیسیٰ علیہ السلام کے ایک شاگردکے مطالبے پران کولاش دے دی گئی، شاگردلاش کوغارمیں لے گیااور غار کو بند کر کے اس میں دفن کردیا، پھرتین دن کے بعد جاکر دیکھا تو وہاں لاش موجود نہیں تھی اور اتنے میں نداء آئی کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زندہ ہوگئے، ……انہوں نے فلسطین کادورہ بھی کیاپھرآسمان پراٹھالیے گئے پھر آخری زمانے میں آئیں گے اور عیسائیت پرہوں گے۔

لیکن ہم کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کوشہیدکرنے کاارادہ تو کیا گیا مگر یہودیوں کویہ اشتباہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک کوعیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل بنا دیا، یہودیوں نے اس آدمی کوعیسیٰ علیہ السلام سمجھ کرسولی پرلٹکوایااورقتل کروا دیا ، گویاکہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کوشہیدنہ کرسکے۔﴿ ولکن شبہ لھم……﴾ 1؂

ہماراعقیدہ یہ ہے کہ اسی وقت عیسیٰ علیہ السلام کومع جسدعنصری کے آسمان پر اٹھالیاگیااپنی تمام انسانی صفات کے ساتھ۔پھرآخری زمانے میں زمین پر آئیں گے، چالیس سال زمین پہ رہیں گے اورکفرسے لڑیں گے اوردین محمدی پرقائم ہوں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نکاح بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہوں گی، بعدازاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوجائے گی اورمسلمان آپ کی نمازِ جنازہ پڑھ کر حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس میں دفن کردیں گے۔یہ تمام بحث ایسی احادیث متواترہ میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے جن کی تعداد ایک سوسے متجاوزہے۔ 1؂

عیسائیت کے قدیم فرقے:
ویسے تو عیسائیت ہزاروں ٹکڑوں، جماعتوں اور فرقوں میں بٹ گئی ہے، لیکن ان کے قدیم تین فرقے ہیں:(۱) یعقوبیہ ( ۲) نسطوریہ (۳) ملکانیہ۔ 2؂

مشہور ترین اور مؤثر جدید فرقے بھی تین ہی ہیں:
(۱)……کیتھولک:یہ رومن کیتھولک) Roman catholic الکاثولیکیۃ)کہلاتے ہیں، روم میں ان کابڑا مرکز ہے وہاں ان کے پادری ہوتے ہیں، ان کوپوپ اورگرے گُری بھی کہتے ہیں۔ روم اٹلی کا دارالخلافہ ہے، یہ دوحصّوں میں منقسم ہیں:ایک حصّہ رومی سلطنت کامرکزہے اور دوسرا حصّہ چرچ کے تابع ہے اس حصّے کو عربی میں فاتیکان اور انگریزی میں Vatican city)ویٹیکن سٹی) کہتے ہیں اسی میں پوپ بیٹھتے ہیں۔
(۲)……دوسرافرقہ آرتھوڈوک ہے ، اس کوعربی میں Orthodox) الأرثوذوکسیۃ )کہتے ہیں۔ان کا مرکز قسطنطنیہ (استنبول) تھا، جس کی اسلام کے زیر نگین ہونے کے بعد آرتھوڈوک مرکزیت ختم ہوکر اسلامی مرکزیت قائم ہوئی۔ یہ دونوں فرقے قدیم بھی ہیں اور قدامت پرست بھی۔
(۳) …… پروٹسٹانٹ( Protestantالبروتستانت): یہ سنہ۱۲۰۰ء میں وجود میں آیا ہے، یہ جدیدیت پسند عیسائی فرقہ ہے، اس کا مرکز جرمنی ہے۔ 3؂

یہودیت

یہ مذہب یہودابن یعقوب کی طرف منسوب ہے ، اس کے ماننے والے کو یہود، ہود، صہیونی، اسرائیلی اورآل عمران کہاجاتاہے، یہوداحضرت یعقوب علیہ السلام کا بڑاصاحبزادہ تھا، بنی اسرائیل میں تقسیم کاری کے طور پرنبوت ہمیشہ بنی لاوی میں اورسلطنت بنی یہودا میں رہی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام:
۱۸۰۰ قبل المیلادمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں پیداہوئے اور عراق ہی میں توحید کی دعوت شروع کی، وہاں کے حکمراں نمرود نے آپ کی مخالفت کی، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کوآگ میں ڈال دیاگیا، آگ سے نکلنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مصرکارخ کیا، پھرشام تشریف لائے اورشام ہی میں رہے۔

آپ علیہ السلام نے دو شادیاں کیں، بی بی سارہ اوربی بی ہاجرہ ۔ بی بی سارہ مع اپنی اولاد کے شام میں رہی،بی بی ہاجرہ مع اپنی اولاد کے حجاز میں رہی۔ شام میں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد رہی وہ حضرت یعقوب (اسرائیل) علیہ السلام کے آخری زمانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے توسط سے مصرچلے گئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ جس میں شام کے عرب قبائل جن کو عمالقہ کہا جاتا ہے اور انگریزی مؤرخین انہیں’ ’ ہیکسوس ‘‘ سے یاد کرتے ہیں (فرعون کی بیگم حضرت آسیہ بھی اسی عربی قبیلے میں سے تھی)، وہاں کے قبطیوں کومغلوب کرکے حکمرانی کررہے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام کو بتدریج صرف وزیر ہی نہیں بلکہ فرمانرواں مقرر کیاگیا، یوسف علیہ السلام اپنی عمرکے۳۰ سال سے ۸۰ سال تک حکمران رہے، ان کے وصال کے بعدقبطی نسل پرستوں نے مصر میں شورش برپاکی اورانقلاب لا کر حکومت پرقابض ہوگئے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام:
انقلاب کے بعد عمالقہ کو انہوں نے ملک بدر کردیا اورعمالقہ کے حامیوں یعنی بنی اسرائیل کواز اوّل تاآخر غلام بنالیا۔یہ سلسلہ چلتا رہا، فراعنہ حکمرانی کرتے رہے، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کادور آیا، موسیٰ علیہ السلام ان بنی اسرائیل غلاموں کے گھرمیں پیدا ہوئے، لیکن بچّوں کے قتل کے مشہور واقعہ کے سبب آپ نے فرعون ہی کے گھر میں تربیت پائی اوروہیں جوان ہوئے، جوانی میں ایک قبطی کو مارنے کی وجہ سے شام کے ایک علاقے مدین آنا پڑا ، جہاں آپ علیہ السلام ایک نیک سیرت اورمردِ صالح شعیب نامی شخص کے پاس دس سال رہ کر واپس مصر چلے گئے۔

قصّہ مختصر یہ ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان حق وباطل کی کشمکش رہی اس کانتیجہ بنی اسرائیل کے خروج مصر اور فرعون کے بحراحمرمیں غرق ہونے پرختم ہوا۔ اس معجزہ کے لیے سرسید کی ملحدانہ تفسیر ناقابلِ دید اور قابلِ نظر ہے۔

یہاں خروج کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اوربنی اسرائیل کے درمیان عجیب و غریب قسم کے واقعات ہوئے، مثلاً:بچھڑے کی عبادت، ’’حطّۃ ‘‘کی جگہ پر ’’حنطۃ ‘‘کی تبدیلی، گائے پرستوں کودیکھ کر اسی طرح کے خداکے مطالبے ، کچھ اس قسم کی مختلف نالائقیوں کی وجہ سے میدان’’ تیہ‘‘ میں ۴۰ سال تک سرگرداں رہنا اورجہاد کاانکار وغیرہ ، …… اسی اثناء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اورحضرت ہارون علیہ السلام کا وصال ہوا، قیادت حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے ہاتھ میں آئی، فلسطین فتح ہوا جو کہ عمالقہ کا علاقہ تھا،لیکن حضرت یوشع علیہ السلام کے بعد عمالقہ پھر غالب آگئے اور یہودیوں میں سے کچھ کو تِہ تیغ کیااور بقیہ تمام کوانہوں نے غلام بنالیا، چنانچہ یہودی عمالقہ کے اس انقلاب کے بعد چار سو سال تک غلامی میں رہے۔

حضرت طالوت علیہ السلام:
پھرحضرت سمویل علیہ السلام کی بعثت ہوئی، تو بنی اسرائیل نے ان سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لیے سربراہ یعنی کسی شخص کو ہم میں سے بادشاہ مقرر کرے تاکہ ہم عمالقہ سے جنگ لڑ کر آزادی حاصل کریں، طالوت کو بادشاہ مقرر کیاگیا تویہودی اپنی ازلی کم بختی وکم ظرفی کی وجہ سے کہنے لگے: ’’طالوت تو بنی لاوی میں سے ہیں اور ہمیں سربراہ بنی یہودا میں سے چاہیے۔نیز یہ طالوت فقیر قسم کاآدمی ہے، یہ ہمارے اوپر کیسے حکمرانی کرسکتاہے۔‘‘

حضرت داؤدعلیہ السلام:
پھر بھی طالوت نے جالوت کوللکارا، جنگ چھڑ گئی، طالوت کی طرف سے ایک جوان داؤد نے تیرمارکر جالوت کو قتل کیا، طالوت نے اپنی ساری حکمرانی بمع اپنی صاحبزادی کے ان کے حوالے کی اوراﷲ پاک نے خلعت نبوت سے بھی نوازا، داؤد علیہ السلام نے اپنے عہد میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی ابتدا کروائی اوران کے بعد انہی کے صاحبزادے حضرت سلیمان علیٰ نبینا وعلیہ السلام کومالک کائنات نے مشرف بنبوّت ومملکت فرمایا، جنہوں نے یہی تاریخی مسجد جنات کے ذریعے سے مکمل کروائی۔ ۹۷۵ ق،م میں ان کاانتقال ہوگیا۔

بنی اسرائیل کی شکست وریخت اور حضرت عیسیٰ ؑکی آمد:
حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی سلطنت دو حصّوں میں بٹ گئی، ایک سلطنت کا دارالخلافہ سامرہ(نابلس)اورایک کادارالخلافہ بیت المقدس (یروشلم) مقرر کیاگیا، کئی سو سال اسی طرح رہنے کے بعد شمال کی طرف سے آشوریوں نے سامریوں میں سے ہزاروں کو قتل کرکے مغلوب کردیا اور وہاں پر قابض ؂ ہوگئے، ادھرسے کلدانیوں کے بادشاہ اورآشوریوں کے سابق گورنربخت نصر نے دوسری مملکت کو تہس نہس کردیا، مسجد اقصیٰ کو جلا کرگرادیا، ہزاروں یہودیوں کوقتل کیا اور بقیہ کوان کے بادشاہ صدقیہ سمیت قیدی بنا کربابل(عراق) لایا، پھر خسرو(شاہِ ایران) نے بابل کو اس کے ستّربرس بعدفتح کیا اور سارے قیدیوں کورہاکردیا، انہوں نے پھرفلسطین جا کر اپنی کٹھ پتلی سی حکومت قائم کردی، جس پر یونان نے پے درپے حملے جاری رکھے، یہاں تک کہ رومیوں نے آخری حملہ کرکے انہیں غلام بنایا، رومیوں نے یہاں کے ایک یہودی کوگورنر بنایا، اس کے مرنے کے بعداس کے تین بیٹوں نے مقبوضہ علاقے کے تین صوبے بنائے، اس زمانے میں حضرت زکریااور حضرت یحییٰ علیہما السلام کوقتل کیا گیا اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے، رومیوں نے کچھ سالوں بعدپھرحملہ کیا، اس حملے میں رومیوں نے ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کوقتل کیا،گویا ہٹلر نے ہی یہودیوں کا قتلِ عام نہیں کیا، بلکہ یہ ایک عذاب کی صورت میں ان کے ساتھ بارہا ہوا ،اور۷۰ ہزارکوقیدی بنایا، کچھ اِدھر اُدھرجاکرنکل گئے، انہیں بھگوڑوں میں حجاز، رملہ، تبوک، تیما، وادی القریٰ، مدینہ اور خیبر کے یہودی بھی تھے، جنہیں پھرمدینہ سے بھی نکالا گیا یعنی بنونضیر، بھدل، قریظہ اور بنوقینقاع، جبکہ مدینہ کے اوس وخزرج یمنی قبائل عرب میں سے ہیں۔

حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم :
اس زمانے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے ، یہودی آپ کاانتظار کرتے تھے، لیکن تعصب میں آکر بنواسماعیل میں سے نبی کے آنے کی وجہ سے انکار کیا،ادھر فلسطین پررومی عیسائیوں کاقبضہ رہا(رومی بعد میں عیسائی ہوگئے تھے)یہاں تک کہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی ایام میں ان منتشر بھگوڑے یہودیوں نے کسریٰ کو رومیوں کے خلاف اُکسا کرفلسطین پرحملہ کروایا، جس نے مسجد اقصیٰ کوتباہ وبرباد کیا اور صلیب کواپنے ساتھ ایران لے گیا، چودہ سال بعدعیسائیوں کی اس شکست کابدلہ لینے کے لیے قیصر روم نے ایرانیوں پرحملہ کرکے بیت المقدس بھی آزاد کروایااورایران تک اندر جا کراپنے اصلی صلیب کوبھی واپس لے کر آئے۔

تاؤازم/ٹاؤازم/تاؤمت
چین کا ایک مذہب جس کابانی لاؤزے تھا۔ لاؤزے نے اپنی کتاب’’تاؤتہ کنگ‘‘ میں لکھا ہے کہ خوشحال زندگی گزارنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تاؤ کی پیروی کی جائے لیکن اس نے اس کتاب میں تاؤ کی تشریح کسی جگہ بھی نہیں کی۔ اسی وجہ سے تاؤ کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات ہیں اور انہوں نے اس کے کئی ایک معنی بتائے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امن کے راستے اور طریقے کے بتائے ہیں اور بعض کے نزدیک تاؤ کے معنی بولنے اور گفتگو کرنے کے ہیں۔ اہل یورپ کے نزدیک اس کے معنی عقل کے ہیں، لیکن صحیح یہ لگتا ہے کہ تاؤ کو خدا کے معنی میں لیا جائے۔

تاؤ کے بارے میں جو صفات بتائی گئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)…… اس کی ایک اہم ترین صفت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے۔ چنگ زی کے بقول (جو اس مذہب کا مستند مصنف بتایا جاتا ہے ) کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جب تاؤ موجود نہ ہو۔
(۲)…… وہ ہر جگہ موجود ہے اور کوئی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں وہ موجود نہ ہو۔
(۳)…… کائنات کی عظمت اور شان و شوکت اسی کے دم سے ہے اور وہ نہایت باریک سے باریک چیز میں بھی موجود ہے۔
(۴)…… ننھے ننھے کیڑوں کو بھی اسی نے زندگی بخشی ہے اورچاند و سورج اپنے اپنے مدار پر اسی کی وجہ سے گھومتے ہیں۔
(۵)…… تاؤ نہ جسم رکھتا ہے اور نہ اس کی اپنی کوئی آواز ہے وہ غیر مرئی ہے لیکن تمام اجسام کا وہی خالق ہے اور تمام آوازیں، اسی نے بنائی ہیں ا ور اس سے کوئی چیز خالی نہیں۔
(۶)…… وہی تمام مخلوقات کا روزی رساں ہے لیکن وہ غیرمتحرک ہے۔
(۷)…… وہ شخص نہیں ہے اور نہ قابل تقسیم ہے ۔ ہر ایک پر مہربان ہے۔

ہوائی مان زوجوتاؤ فلسفے کا ماہر ہے تاؤ کی صفات کے بارے میں لکھتا ہے ۔ ’’تاؤہی آسمان کو سہارا دینے والا اور زمین کا بچھانے والاہے ۔ جس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ انتہا۔ جس کی بلندی ناپی نہیں جاسکتی اور نہ ہی اس کی گہرائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تمام کائنات اس کے قبضۂ قدرت میں ہے وہ بے حد لطیف اور باریک ہے ۔ ہر شے میں اسی طرح موجود ہے جس طرح پانی دلدل میں ہوتا ہے۔ پہاڑوں کی بلندی اور غاروں کی پستی تاؤ ہی کے دم سے قائم ہے ۔ جانوروں کا چلنا ، پرندوں کا اڑنا ، چاند اور سورج کی روشنی، ستاروں کی گردش سب اسی کے فیض کے کرشمے ہیں ۔ بہار کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہی چلاتا ہے اور برسات کی سہانی بارش وہی برساتا ہے۔ پرندوں کو انڈے وہی دلاتا ہے اور ان انڈوں سے بچے وہی نکالتا ہے۔ جب درختوں سے پتیاں نکلتی ہیں ۔ انڈوں سے بچے اور عورتوں کے رحم سے بچے پیدا ہوتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کے سب کام اپنے آپ ہورہے ہیں کیونکہ کرنے والے کا ہاتھ ہمیں نظر نہیں آتا لیکن یہ حقیقت نہیں۔ تاؤدھندلے سے سائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے جسم نہیں اس کے ذرائع غیر محدود اورپوشیدہ ہیں لیکن تمام چیزوں کو عدم سے وجود میں لانے والا وہی ہے۔ اس سے کبھی کوئی بے کار اور غیر مفید کام نہیں ہوا۔‘‘

لاوزے کہتا ہے کہ (تاؤ) کے کنہہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اس کو سب کا پتہ ہے، مگر اس کے متعلق مکمل پتہ کسی کے پاس نہیں ہے۔

تعلیمات :
تاؤمذہب کی تعلیمات مندرجہ ذیل ہیں۔
(الف)……ہستی اعلیٰ کا تصور :……تاؤازم ایک اعلیٰ ہستی کا قائل ہے، اگرچہ اس میں تشکیلات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن صحیح وہی ہے جو اوپر ذکر کیا جاچکا۔
(ب)…… اخلاق :…… تاؤ مذہب میں انسان کو کائنات کا ایک جزو قرار دیاگیا ہے۔ اس لیے تمام شعبۂ حیات میں انسان بھی دوسری چیزوں کی طرح عالمگیر تاؤ کا مظہر ہے اس کا نظریۂ انسان صرف علمی ہی نہیں بلکہ اس کی بنیاد اخلاقیات پر قائم ہے اور انہی اخلاقیات کے باعث انسان خود کو فطرت کے سپرد کردیتا ہے اور اس طرح فطرت کے یہ قوانین جن کے سامنے وہ سرجھکادیتا ہے اس کے لیے عزت و احترام کا باعث بن جاتے ہیں ۔ نیزیہ کہ فطرت کے کسی کام میں قصد کو دخل نہیں ہے ۔ اس لیے انسان کے تمام اعمال بھی ارادے کے بغیر سرزد ہونے چاہئیں اور چونکہ فطرت میں انفعال ہے اس لیے منصوبہ بندی ، تدابیر ، جوڑ توڑ ، دوا دوش ، خواہش اور تمنا وغیرہ سب کی سب انسانی فطرت کے منافی ہیں۔تاؤ مذہب میں وہ کام جو کسی سعی و ارادہ سے کیے جاتے ہیں ۔زیادہ اچھی نظر سے نہیں دیکھے جاتے۔ اسی لیے سخاوت ، راست بازی اور حسن اطوار کے مقابلے میں رحم، میانہ روی اور پاک بازی کا شمار اخلاقیات میں ہوتا ہے۔

نیززندگی چونکہ مسلسل جدوجہد کا نام ہے اس لیے اس سے بچنے کے لیے تاؤ مذہب کے پیرو ترک دنیا کرکے پہاڑوں میں پناہ لینے کو مستحسن خیال کرتے ہیں۔

تاؤ مذہب کے اخلاق میں خواہشات اور جذبات پر قابو پانے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ بقول لاؤزے جو دوسرے پرغالب آتا ہے وہ قوی ہے اور جو خود اپنے آپ پر غالب آجائے وہ قوی تر ہے۔

دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا غلام بن کر رہ جائے۔ لالچ سے بڑھ کر اور کوئی مصیبت نہیں اور حرص سے بڑھ کر کوئی وبال نہیں ہے۔

تاؤ مذہب میں انسانوں کا قتل کرنا اور جنگ میں فتح پانا کوئی قابل فخربات نہیں وہ قیدیوں کو سزا کے طور پر قتل کرنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتا۔

(ج)…… نظریہ حیات بعدالموت:……تاؤ مت میں موت ایک اچھی اور خوشگوار چیز ہے یہ ایک لازمی امر ہے اور اس سے ڈرنا بیکار ہے ۔ موت ایک خوشگوار تبدیلی کا نام ہے ۔ موت ہر جاندار کی زندگی کا انجام ہے۔
موت اور زندگی میں وہی تعلق ہے جو آنے اور جانے میں ہے۔ چنانچہ اس دنیا سے چلے جانے کے معنی دوسری دنیا میں پیدا ہونے کے ہیں ۔ انسان زندگی سے محبت کرکے ایک فریب میں مبتلا ہے ۔ انسان موت کی ہولناکیوں سے واقف ہے لیکن موت کے بعد کی راحتوں سے ناواقف ۔ انسان کی زندگی کا تابناک پہلو یہی ہے کہ موت ازل ہی سے تمام انسانوں کا نوشتہ تقدیر بنی ہوئی ہے۔

موت نیکوں کے لیے سکون اور بروں کے لیے پردہ ہے۔ مردے وہ ہیں جو اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں اور زندہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔

مرنے کے بعد کی زندگی میں نیک لوگ نہایت ہی آرام کی زندگی بسر کریں گے اور بروں کو مزید برائی کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔

تاؤمت کی مقبولیت :
اگرچہ تاؤ مت کی تعلیمات لوگوں کی فہم سے بالاتر تھیں، اس کے بانی کے بعد چینیوں نے سحروفسوں کو بھی مذہب میں داخل کردیا ہے، جس کے چینی عوام قدیم زمانہ سے دلدادہ تھے۔ دوسرے فطرت پرستی نے عوام کو اس مذہب کی طرف راغب کیا نیز ارواح خبیثہ کے عقیدے کی وجہ سے اس مذہب نے چینیوں میں خاص مقبولیت حاصل کرلی۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 823299 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More