رِٹ یا رَٹ

گزشتہ چند ماہ سے ملک عجیب و غریب کیفیت کا شکار ہے۔گیس چوری کے کیسز پکڑ دھکڑ میں آئے تو سارا ملک گیس چوری کرتا نظر آیا۔ بجلی چوری کے واقعات سامنے آئے تو گلی گلی محلہ محلہ بجلی چور پکڑ ے جانے لگے۔پانچ سالہ بچی سے زیادتی کا کیس سامنے آیا تو روازانہ ایسے کئی کیسز اخبارات کی زینت بننے لگے۔بھتہ لینے والے پکڑے جانے لگے تو سارا ملک ان کے ان کے ہاتھوں یرغمال نظر آیا۔فیصل آباد میں روزانہ پندرہ بیس وارداتوں کے مقدمات سے بڑھ کر پینتیس چالیس پہنچ گئی ہے۔نشہ آور مشروب پلا کر لوٹنے والوں کا دائرہ کارلاری اڈے سے اب ہسپتال تک پہنچ گیا ہے۔موبائل فون چھیننے ،ڈکیتی ، چوری،قتل، فراڈ کیسز کی تعداد بڑھ کر پہلے سے دو گنا ہو گئی ہے۔فراڈ کیسز بھی اب کروڑوں سے بڑھ کر اربوں کے ہونے لگے ہیں۔خود کشیوں کی تعداد پہلے سے کئی گناہ بڑھ چکی ہے۔اغوا برائے تاوان کی واردتیں ہر گلی محلے میں ہو نے لگی ہیں۔جس کا جو دل کر رہا ہے کرتا جا رہا ہے۔تھانوں میں مقدمات درج نہیں ہوتے اوپر سے فون کروانا پڑتا ہے اور کبھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔پولیس بھی کیا کرے آدھے سے زاید مقدمات جھوٹے ہوتے ہیں اور ان پر پریشر ہوتا ہے انہیں درج کرو بعد میں کچھ بھی نہیں نکلتا۔رہی سہی کسرمہنگا ئی نے نکال دی ہے۔حکومت کے سو دن کیا مکمل ہوئے گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑ گئے۔سب آس امیدیں دم توڑ گئیں۔لوگوں نے گزشتہ حکومت کی سختیاں زیادتیاں اس امید پر برداشت کی تھیں کہ اگلی حکومت آئے گی تو سکھ کا سانس لیں گے۔اگلی حکومت جس دن سے آئی ہے نہ پیٹرول کی قیمت تھمی نہ بجلی کی۔گیس بلوں میں اضافی سیکورٹی بتاتی ہے کہ حکومت ہر طرح سے پیسہ حاصل کرناچاہتی ہے جیسے بھی ملے۔دوسری جانب حکومتی رِ ٹ کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک گزشتہ دور میں ہونے والی کرپشن پر کیس بنا نہ موجودہ کرائم میں کسی کو سزا ملی۔بلکہ جو مجرم پہلے سختی میں تھے اب نرمی محسوس کر رہے ہیں۔اب سزا ئے موت کے قیدیوں کی سزا معافیوں میں تبدیل ہونے لگی ہے۔چیف جسٹس سوموٹو ایکشن لے لے کر تھک گئے ہونگے۔مگر حکومتی رِٹ کہیں نظر نہیں آرہی۔سارا زور ٹیکس لگانے پر ہے۔خواہ کوئی شعبہ ہو۔بھرے بازار میں کوئی کسی سے زیادتی کر جائے کوئی پوچھنے والا نہیں۔روزانہ لوگ انصاف کی تلاش میں اپنے حق کے لیے دھرنے دیتے ہیں جلوس نکالتے ہیں املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔بسیں جلاتے ہیں، گاڑیاں تباہ کرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ہسپتالوں میں ادویات نہیں،سہولیات
نہیں، ڈاکٹر نہیں۔ اگر ہوں بھی تو مریضوں کو نہیں پوچھتے ۔ عوام کہاں جائے، کس سے اپنی فریاد کرے، کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟

کیا ہر کام کے لیے رِٹ ہی کرنی پڑے گی ۔حکومتی رِٹ کہاں ہے؟پانچ سال حکومتی چیرہ دستیاں برداشت کرنے کے بعد کہیں بھی حکومتی رِٹ نظر نہیں آ رہی۔ البتہ قرض لے لو، ٹیکس دے دو کی رَٹ صبح شام سنائی دیتی ہے۔ہر طرف کاسۂ گدائی کی رَٹ لگی ہے۔حکومتی رِٹ کہیں نظر نہیں آ
رہی۔عوام رِٹ اور رَٹ میں پھنس کر رہ گئی ہے۔
جانے کس جرم کی پائی ہے سزایاد نہیں۔

Muhammad Ismail Shaherwardi
About the Author: Muhammad Ismail Shaherwardi Read More Articles by Muhammad Ismail Shaherwardi: 2 Articles with 2568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.