ہمت مرداں مدد خدا

پشاورہائیکورٹ کے احاطے میں جہاں انصاف بٹتا ہے وہاں محمد عدنان نامی نوجوان کرسیوں کی اتنی صفائی سے مرمت کرتاہے کہ دیکھنے والے بھی حیران ہوجاتے ہیں محمد عدنان وکلاء کی خراب کرسیوں کو ٹھیک کرکے روزانہ آٹھ سو روپے مزدوری کرتا ہے جو اس کے گھر کے اخراجات پوری کرنے کیلئے ناکافی ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی بھرپور محنت کررہا ہے-پچیس سالہ محمد عدنان گذشتہ دو ماہ سے پشاور ہائیکورٹ کے احاطے میں بیٹھ کر یہی کام کررہا ہے- اس سے قبل وہ جوڈیشل کمپلیکس پشاور میں وکلاء کی خراب کرسیوں کی مرمت کا کام کرتا تھا- تاہم اسے وہاں اس کی ادائیگی کم ملتی اسی بناء پر محمدعدنان نے پشاور ہائیکورٹ کا رخ کرلیا -

لیکن یہ تصویر ایک رخ ہے -ہاتھوں سے کرسیوں کی مرمت کرنے والا محمد عدنان آنکھوں کی بینائی سے محروم ہے اور سفید چھڑی ہاتھ میں لیکر اپنے علاقے چونا بھٹی نشتر آباد پشاور سے روزانہ پشاور ہائیکورٹ کی بلڈنگ کا رخ کرتا ہے جہاں آنے کے بعد اسے عام لوگ ہاتھوں سے پکڑ کر پشاور ہائیکورٹ کے سبزہ زار میں پہنچا دیتے ہیں اور اسے آتا دیکھ کر وکلاء بھی اپنے خراب کرسیاں اسے ٹھیک کرنے کیلئے دے دیتے ہیں اور پھر عدنان اسے ٹھیک کرنے میں مصروف عمل ہو جاتا ہے- موسموں کی شدت سے بے نیاز محمد عدنان اپنے بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں اس کے گھر میں کوئی بھی شخص بینائی سے محروم نہیں قدرت نے صرف بینائی سے محمد عدنان کو محروم رکھا ہے تاہم اس کے گھر والوں نے اسے نشتر آباد میں واقع بینائی سے محروم افراد کے سرکاری سکول میں داخل کروا دیا جہاں پر اسے بریل کے ذریعے ابتدائی تعلیم دی گئی اس ادارے میں پچیس اور بھی بینائی سے محروم طالب علم تھے جنہیں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد باعزت روزگار کی خاطر ادارے میں کرسیوں کی مرمت کرنا سکھائی گئی اور یوں محمد عدنان اپنے اس ہنر کو لیکر زندگی کے میدان میں اتر گیا-

بھوک پیاس اور موسموں کی شدت سے بے نیازیہ نابینانوجوان کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاناچاہتا۔ محمد عدنان کے بقول وہ روزانہ گھر سے روزگار کیلئے نکلتا ہے پہلے پہل جوڈیشل کمپلیکس پشاور میں بیٹھا کرتا تھا جہاں پر وکلاء کی خراب کرسیوں کو ٹھیک کرنے کا کام کرتا لیکن اس کی ادائیگی کم ملتی جس سے گزارا مشکل سے ہوتا اب تقریبا دو ماہ سے پشاور ہائیکورٹ کے ا حاطے میں بیٹھ کر عدالت عالیہ کے وکلاء کے کرسیوں کی مرمت کرتا ہوں جس سے روزانہ سات سو اور آٹھ سو روپے کی مزدوری ہو جاتی ہے محمد عدنان نے مزید بتایا کہ مجھے پتہ ہے کہ آج کے دور میں سات سو روپے کی کوئی اہمیت نہیں مجھے کم اور زیادہ کی فکر نہیں مشکل سے گزارا ہوتا ہے لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں اپنا رزق حلال کما رہا ہوں اور گھر کی ذمہ داریوں میں میرا بھی ایک حصہ ہے - جس سے مجھے اپنی نابینا ہونے کا احساس نہیں ہوتا-- محمد عدنان نے مزید بتایا کہ چونکہ شہر میں دوسرے علاقوں میں ایک مخصوص جگہ پر کرسیوں کی مرمت نہیں کی جاتی اس لئے کام میں مشکلات پیش آتی ہیں اسی بناء پر میں عدالت آتا ہوں چونکہ یہاں پر وکلاء کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور انہیں انکی مرمت کا وقت نہیں ملتا اسی بناء پر ان کی سہولت کیلئے کام یہاں کرتا ہوں اور کبھی کبھار خوشی سے یہ لوگ اضافی رقم بھی دیتے ہیں جو میرے آنے جانے کا خرچہ ہوتاہے-

پشاور ہائیکورٹ بار کے صدر محمد عیسی خان سے جب محمد عدنان کے حوالے سے سوال کیا گیا تو وہ اس باہمت نوجوان کو دیکھنے کیلئے ہائیکورٹ کے احاطہ میں پہنچ گئے اور اسے شاباش دی کہ اگر اسے کوئی مسئلہ ہو تو وہ براہ راست مجھ سے رابطہ کرکے اپنا مسئلہ حل کرسکتا ہے- جس پر محمد عدنان نے اس کا شکریہ ادا کیا- پشاور ہائیکورٹ بار کے محمد عیسی خان نے محمد عدنان کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ محمد عدنان کا حوصلہ دوسرے نابینا لوگوں بلکہ ہمارے معاشرے اور ہم جیسے وکلاء کیلئے بھی قابل تقلید ہے جو اپنی معذوری کے باوجود محنت مزدوری کررہا ہے اوران لوگوںکے منہ پر طمانچہ ہے جو ہر طرح سے ٹھیک ہوتے ہیں لیکن بھیک مانگتے ہیں-

پشاور ہائیکورٹ میں محنت مزدور ی کرنے والا محمد عدنان نہ صرف ان لوگوں کیلئے جو اپنی معذوری کو کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں کیلئے ایک مثال ہے بلکہ ان لوگوں کیلئے جو محنت کرنے سے جی چراتے ہیں ان کیلئے بھی قابل تقلید شخصیت ہے محمد عدنان جیسے جوانوں کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان ہمت کرے تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا یقینامحمد عدنان جیسے جوانوں کیلئے کہا گیا ہے کہ "ہمت مردان مدد خدا"
 
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 424674 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More