معیشت کی تازہ صورت حال

آجکل معیشت میں ملا جلا رحجان پایا جاتا ہے۔کچھ اشارے منفی بھی ہیں اور کچھ پہلو مثبت بھی ہیں۔منفی اشاروں کا تعلق زیادہ تر سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہے۔موجودہ مالی سال میں جی۔ڈی۔پی کی نمو کا اندازہ بجٹ بناتے وقت 5.1۔فیصد کا تھا۔25ستمبر کو NDMAنے سروے کے بعد بتایا ہے کہ 2.4۔ملین ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔سیلا ب میں مویشیوں کے بہہ جانے کی تعداد کا اندازہ8700ہے۔پنجاب کے کل 36اضلاع میں سے26اضلاع متاثرہوئے ہیں۔سیلاب سے پنجاب میں بہت زیادہ نقصان ہواہے۔سندھ اس دفعہ کافی حد تک سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا ہے۔آزاد کشمیر میں تقریباً6۔ارب روپے کے برابر نقصان کا اندازہ لگایاگیا ہے۔پنجاب میں سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے۔پائپ لائن اور پاور پلانٹ محفوظ رہے ہیں۔اگرچہ شروع کے دنوں میں معیشت دانوں نے سیلاب کے نقصان کا اندازہ2.4فیصد جی۔ڈی۔پی کے برابر لگایا تھا۔لیکن اب صحیح اعدادوشمارآنے کے بعد یہ اندازہ(.2)فیصد تا(.3)فیصد کا ہے۔ادائیگیوں کے توازن پر نقصانات کا اندازہ3800ملین ڈالر کا ہے۔2010ء کا سیلاب سپر فلڈ شمار ہوا ہے۔اور تب فصلوں کا نقصان5ملین ایکٹرز کا تھا۔اس دفعہ یہ نقصان جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا2.4۔ملین ایکٹرز کا ہے۔اسلام آباد میں جاری سیاسی شورش کا بھی معیشت پر کچھ نہ کچھ منفی اثر پڑ رہا ہے۔لیکن یہ برا اثر شروع کے دنوں میں زیادہ محسوس ہوتا تھا۔اب کراچی سٹاک ایکسچینج بہتر صورت حال کو ظاہر کررہی ہے۔ایشین ترقیاتی بنک نے سیلاب کے بعد موجودہ مالی سال میں جی۔ڈی ۔پی نمو کا اندازہ 4.2 ۔فیصد لگایا ہے۔اس کے عین بالمقابل ہمارے اپنے معیشت دان ڈاکڑاشفاق حسین خان اور ڈاکڑ حفیظ پاشا نے جی۔ڈی ۔پی نمو کا اندازہ2.5فیصد لگایا ہے۔ہر ایک کے پاس اپنا اپنا اندازہ ہے۔اعداد وشمار بھی مختلف ادارے اور شخصیات مختلف ہی استعمال کرتے ہیں۔یوں ہر ایک کا سچ بھی اپنا اپنا ہوجاتا ہے۔صحیح صورت حال کا پتہ مالی سال کے اختتام یعنی جون2015ء میں ہی چلے گا۔سیلاب سابقہ سالوں کی طرح اس سال بھی گزر گیا ہے۔ہمیں آئندہ اس کے نقصانات کو کم ازکم کرنے کے لئے ابھی سے تدابیر اختیار کرنی چاہیئے۔کئی بیرجز کو چوڑا کرنا بھی ضروری ہوگیا ہے۔موسمی حالات بدل گئے ہیں۔بارشیں شمالی علاقہ جات میں بہت ہوتی ہیں ۔گلیشئرز بھی تیز ی سے پگھل رہے ہیں۔ہمیں اس فالتوپانی کو نقصادہ کی بجائے فائدہ مند بنانے کے بارے کوئی فوری طریقہ اختیار کرناچاہیئے۔اگر یہ نقصان ہر سال باقاعدگی سے ہوتا رہے گا تو معیشت تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ہمیں معیشت کو6۔فیصد سالانہ شرح نمو پر لے جانا ہے۔اس شرح نمو سے ہمارے ہاں زیادہ سے زیادہ روزگار پیداہوسکے گا۔غربت کم ہوگی اور مہنگائی پر قابو پایاجاسکے گا۔مہنگائی پر قابو پانے کا سنہری اصول یہی ہے کہ اشیاء کی پیداوار بڑھائی جائے۔پیداوار زرعی بھی بڑھے اور صنعتی بھی۔برآمدات میں اضافہ تو ضروری ہے۔بڑا ملک ہوتے ہوئے ہماری برآمدات25۔ارب ڈالر پر رک گئی ہیں۔اشیاء بنانے اور پیدا کرنے والوں کو برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ دینی ضروری ہے۔جیسا کہ میں نے کالم کے شروع میں ذکر کیا ہے کہ معیشت کے اشارے منفی کے ساتھ ساتھ مثبت بھی ہیں۔ایک مثبت اشارہ یہ ہے کہ صارفین کی مارکیٹ میں اعتماد کا انڈکس اوپر کی طرف ہے اور یہ صورت حال کئی سالوں سے جاری ہے۔2011ء سے لیکر اب تک صرفی منڈی میں حالات بہتر بیان کئے جارہے ہیں۔موجودہ جولائی میں سٹیٹ بنک کی طرف سے یہ بتایاگیا ہے کہConsumer confidence Indexکا سکور142.26ہے۔یہ جولائی2012ء سے زیادہ ہے۔اس انڈکس کے سکور کا بڑھنا لوگوں کے صرفی رحجانات کو ظاہر کرتا ہے۔لوگ پہلے سے زیادہ اشیاء خریدنے کی طرف راغب ہورہے ہیں۔صارفین کی اشیاء بیچنے والی بڑی کمپنیوں جیسے یونی لیور،نیسلے،کوک،پیپسی،میکڈونلڈ،مارک اینڈ پنسر اپنی فروخت سے بہت مطمعن ہیں۔ایسے ہی مقامی ادویہ سازی کی صنعت،ٹیکسٹائل اور فیشن کی صنعت میں بھی بہتری جاری ہے۔جب تجزیہ کاروں کے سامنے پاکستان کی صرفی منڈی میں اضافہ کی صورت حال آتی ہے۔تو ان کے لئے سمجھنا مشکل ہو جاتاہے۔لوگ پہلے سے زیادہ اشیاء اور خاص طورپرConsumer Durableزیادہ کیوں خرید رہے ہیں۔گزشتہ 5سالوں سے معیشت میں اضافہ بہت معمولی ہے۔افراط زر نے قوت خرید کو بھی کم کردیا ہوا ہے۔تو صرفی منڈی میں آخر گہما گہمی کیوں ہے؟۔سرکاری آفیسرزجو معیشت چلارہے ہیں وہ تو سرے سے صرفی منڈی میں اضافے کی بات کو مانتے ہی نہیں۔سرکاری آفیسرز کے مطابق جب پاکستانی زیادہ نہیں کما رہے تو زیادہ خرید بھی نہیں سکتے۔لیکن بے شمار ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں اپنی سیل میں اضافہ ظاہر کرتی رہتی ہیں۔ایک ماہر فیصل باری نے بتایا کہ صرفی مارکیٹ میں اضافہ کی وجہ خفیہ کاروبار میں تیز اضافہ ہے۔یہاں لوگوں کو ٹیکس ادا کئے بغیر آمدنیاں ہورہی ہیں۔اور وہی پیسہ عام صرفی اشیاء اور پائیدار صرفی اشیاء کی خریداری پر لگایا جارہا ہے۔ان کے مطابق بعض اوقات صرفی سروے Tricksپر بھی مشتمل ہوتے ہیں۔کچھ ماہرین اس کی وجہ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی سطح پرکچھ اشیاء کی قیمتیں کم ہورہی ہیں۔پاکستان کی مارکیٹ میں درآمد شدہ اشیاء بہت فروخت ہوتی ہیں۔صرفی منڈی میں اضافہ عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہے۔اس مشکل بات کی وضاحت کے لئے ہر شخص اپنی عقل کے گھوڑے ددڑا رہا ہے۔کچھ ماہرین کے مطابق پاکستانی اپنا لائف سٹائل بدل رہے ہیں۔اور اس کے لئے اپنی بچتوں کو استعمال کررہے ہیں۔اسی لئے پاکستان میں بچتوں کی شرح کم ہوکر صرف8فیصد رہ گئی ہے۔اس کے بالمقابل ہمارے ہمسائے بھارت میں بچتوں کی شرح30فیصد اور بنگلہ دیش میں26فیصد ہے۔معیشت دان محمد سہیل کے مطابق آبادی میں تیز اضافہ اور دیہاتیوں کی شہروں کی طرف منتقلی صرفی مارکیٹ میں پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔یہ بات تو حقیقت ہے کہ پاکستان میں شہری آبادی اب50۔فیصد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔شہر میلوں تک پھیل چکے ہیں۔اور یہ رحجان آئندہ بھی جاری رہے گا۔جو دیہات چھوڑ کر شہر میں آئے گا اسے اپنا لائف سٹائل بھی بدلناپڑے گا۔اور بہت سی پائیدار صرفی اشیاء خریدنا پڑیں گی۔پاکستان کی صرفی منڈی میں اضافہ ایک حقیقت ہے۔اس کی سمجھ ماہرین کو آئے یا نہ آئے۔حقیقت اپنی جگہ ہے۔نیٹ پر موجود صرفی انڈکس میں پاکستان کافی آگے ہے۔پاکستان کا صرفی انڈکس142.26،بھارت128،اور انڈونیشیاء120پر ہے۔ان اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ پاکستانی جو کچھ کماتے ہیں وہ صرف کررہے ہیں۔اس کے بالمقابل بھارت اور انڈونیشیاء والے اپنے مستقبل کے لئے زیادہ بچارہے ہیں۔پاکستان میں اکثر شاہ خرچیاں اور رنگینیاں دیکھی جاتی ہیں۔شاہ خرچیاں تو دھرنے میں بھی نظر آتی ہیں۔بچانے کا رحجان بہت کم ہے۔اسی لئے ہم پورے ایشیاء میں کم ترین بچت کرنے والے شمارہوتے ہیں۔سرمایہ کاری کے لئے بھی ہمیں قرض کی ضرورت پڑتی ہے۔موجودہ مالی سال میں حکومت کے وسائل تو تمام کے تمام سیلاب زدہ لوگوں کی بحالی پر لگ جائیں گے۔بجلی کے پروجیکٹ اور دوسرے ترقیاتی کاموں کے لئے شاید ہی رقوم بچیں۔یوں سال کے بعد جی ۔ڈی ۔پی طے شدہ ٹارگٹ کے مطابق بڑھتی نظر نہیں آتی۔اگردھرنے والے لیڈر ملک پر رحم کریں اور دھرنا اٹھالیں تو شاید چین کے صدر اپنی سرمایہ کاری پاکستان لانے کا پروگرام دوبارہ بنالیں اور ترقی کا پہیہ چلنا شروع ہوجائے۔پاکستان کی معیشت کے لئے صرفی کی بجائے سرمایہ کاری والی معیشت بننا ضروری ہے۔تمام شعبوں میں حرکت اسی صورت میں ہوگی جب بڑے پیمانے پر نئے کاروبار شروع ہونگے۔روزگار اور مہنگائی کے مسائل بھی سرمایہ کاری سے وابستہ ہیں۔
Prof.Ch.Jamil
About the Author: Prof.Ch.Jamil Read More Articles by Prof.Ch.Jamil: 18 Articles with 10903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.