چیکاں نکل گیاں!!!

میں ماڈل ٹاؤن کا مکین ہوں۔ جوانی ساری اسی علاقے میں گزری ہے۔ میرا آبائی گھر آج بھی ماڈل ٹاؤن میں ہے۔ چونکہ بچے بڑے ہو گئے ہیں اس لئے اس مشترکہ گھر میں اپنے مخصوص حصے کے چند کمروں میں گزارہ مشکل تھا۔ اس لئے آج سے تین سال پہلے میں رائے ونڈ روڈ پر شفٹ ہو چکا ہوں مگر میرا دل آج بھی ماڈل ٹاؤن میں بستا ہے۔ شہر کی اس بہترین بستی ماڈل ٹاؤن کا ایک عجیب خاصہ ہے کہ اگر آپ چند سال اس بستی میں گزار کر یہاں سے کہیں اور شفٹ ہو جائیں، اس بستی سے نکل جائیں تو بھی یہ بستی آپ میں سے شفٹ نہیں ہوتی آپ میں سے نہیں نکل سکتی۔ آج بھی میں اپنے نئے گھر، اس کے انواع اور ارد گرد کے ماحول کا جب بھی جائزہ لیتا ہوں تو میرا معیار ماڈل ٹاؤن ہی ہوتا ہے۔

ماڈل ٹاؤن ایف بلاک میں میرے آبائی گھر کے قریب ایک مسجد ہے۔ لاؤڈ سپیکر کے حوالے سے اس مسجد کا ایک خاص کلچر تھا۔ مسجد میں اذان اور جمعہ کے خطبے کے علاوہ لاؤڈ سپیکر استعمال نہیں ہوتا تھا اور اگر کبھی مہینے میں ایک آدھ بار مسجد سے سپیکر پر حضرات توجہ فرمائیے کی آواز آتی تو ہم لوگ سہم جاتے اور پریشانی میں کان لگا کر خاموشی سے سپیکر سے ہونے والا اعلان سنتے۔ عام روٹین سے ہٹ کر یہ نشریہ یقینا کسی محلہ دار کی وفات کے بارے میں اعلان کے لئے ہوتا تھا۔ دوسری کسی بھی تقریب یا کسی بھی حوالے سے وہاں لاؤڈ سپیکر استعمال نہیں ہوتا تھا۔

آج میرا گھر رائے ونڈ روڈ پر واقع ایک سکیم میں ہے۔ یہ سکیم ایک مکمل چار دیواری میں گھری ہوئی ہے جس کا مین گیٹ رائے ونڈ روڈ سے تقریباً تین فرلانگ اندر ہے۔ اتفاق سے میرا گھر سکیم کے بالکل آخر میں مین گیٹ سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سکیم کی مجوزہ مسجد میرے گھر کے بہت قریب ہے مگر ابھی تعمیر نہ ہونے کے سبب ہم لوگ نماز کے لئے سکیم کے مین گیٹ سے باہر نکل کر رائے ونڈ روڈ کے قریب ایک مسجد میں آتے جاتے ہیں۔ اس مسجد میں اذان ہوتی ہے مگر ہم اس اذان کی آواز نہیں سن سکتے کہ فاصلے پر رہتے ہیں۔ میرے گھر کے آگے سڑک ہے جس سے چند قدم کے فاصلے پر چار دیواری ہے۔ چار دیواری کے پار ایک گاؤں ہے جس کی مسجد سے ،آؤ نماز کے لئے، آؤ فلاح کے لئے ،کی آواز دن میں پانچ دفعہ پکارتی ہے مگردرمیاں دیوار کے ہوتے ہم اس مسجد میں نہیں جا سکتے مگر وہ مسجد ہمارے احساس کو زندہ رکھتی ہے۔

لاؤڈ سپیکر کے حوالے سے اس مسجد کا بھی اپنا ایک کلچر ہے۔ شروع شروع میں مجھے عجیب سا لگا مگر اب میں اس کلچر کا عادی ہو گیا ہوں۔ اذان اور جمعہ کے خطبے کے علاوہ یہ لاؤڈ سپیکر صبح نو دس بجے تک وقفے وقفے سے اعلانات نشر کرتا رہتا ہے۔ صبح چھ بجے ایک دم آواز آتی ہے۔ ماشاء اﷲ ۔ چوہدری فتح محمد صاحب نے مسجد کے لئے دس روپے بھیجے یں۔ اﷲ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت دے۔ ماشاء اﷲ۔ پھر سپیکر بند ہو جاتا ہے۔ دس منٹ بعد پھر آواز آتی ہے ماشاء اﷲ ،ماشاء اﷲ۔ بھولے پہلوان کی بیگم صاحبہ نے پچاس روپے بھیجے ہیں۔ رب العزت ان کے رزق میں برکت دے۔ان کے لئے آسانیاں فراہم کرے۔ ماشاء اﷲ ،ماشاء اﷲ۔ پندرہ منٹ کی خاموشی کے بعد پھر آواز آتی ہے ماشاء اﷲ ،ماشاء اﷲ، ماشاء اﷲ میاں دین محمد نے مسجد کے لئے سو روپے بھیجے ہیں۔ اﷲ ان کے رزق میں برکت دے ان کے بچوں کے رزق میں برکت دے ان کے کاروبار میں برکت دے۔ ماشاء اﷲ ،ماشاء اﷲ، ماشاء اﷲ۔ جتنے پیسے زیادہ ہوتے ہیں ماشاء اﷲ، اور دعاؤں کی تعداد بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ پچھلے تین سالوں میں مولوی صاحب کے یہ کلمات سن سن کر مجھے اب فوراً اندازہ ہو جاتا ہے پیسے کتنے ملے ہوں گے۔ یہ گاؤں غریب لوگوں کی بستی ہے اور وہ جو چندہ بھیجتے ہیں وہ بھی معمولی ہوتا ہے۔ اگر مولوی صاحب ماشاء اﷲ کا لفظ ایک دفعہ ادا کریں تو رقم دس بیس روپے ہو گی۔ دو دفعہ کہیں تو یقینا پچاس کے لگ بھگ رقم ہو گی اور اگر ماشاء اﷲ تین یا چار دفعہ کہیں تو سو یا اس سے زیادہ روپے وصول ہوئے ہوں گے ۔ دعاؤں کے الفاظ بھی رقم کے لحاظ سے گھٹتے بڑھتے ہیں۔

پتہ چلا کہ مولوی صاحب صبح نماز کے بعد سے نو بجے تک بچوں کو قرآن پڑھاتے ہیں۔ اس دوران گاؤں کے تمام لوگ حسب توفیق مولوی صاحب کو مسجد اور ان کی ذاتی ضروریات کے لئے کچھ نہ کچھ بھیجتے رہتے ہیں۔ بیچارے مولوی صاحب بہت سادہ ہیں۔ انہوں نے ابھی تک زرداری ازم اور شریف ازم سے واقفیت حاصل نہیں کی اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اسحاق ڈار ہے جو انہیں منی لانڈرنگ کی طرز پر پیسوں کو دائیں بائیں کرنے کا گر سکھا دے۔ چنانچہ وہ جو آتا ہے اور جو استعمال ہوتا ہے صبح صبح سارے گاؤں کو سپیکر پر بتا دیتے ہیں۔

دو تین دن پہلے میں یونیورسٹی جا رہا تھا تو مولوی صاحب روٹین کے مطابق لاؤڈ سپیکر استعمال کر رہے تھے مگر جب میں دوپہر کو لوٹا تو آج معمول سے ہٹ کر اس وقت بھی لاؤڈ سپیکر کا استعمال جاری تھا۔ مولوی صاحب ہمیشہ پنجابی میں بیان کرتے ہیں۔ آج بھی پنجابی ہی میں کچھ کہہ رہے تھے، انداز آہ و بکا کا تھا۔ میں نے گاڑی کھڑی کی اور سننے لگا۔ مولوی صاحب کہہ رہے تھے۔ دوستو! بھائیو اب یہ میرے بس کی بات نہیں اسے تو دیکھ کر ہی ’’میریاں چیکاں نکل گیاں نے‘‘ یعنی چیخیں نکل گئی ہیں۔ قہر خدا کا پندرہ ہزار روپے بل۔ اس مسجد میں دن میں نماز کے پانچ وقت اور صبح بچوں کو پڑھاتے وقت دو گھنٹے تین پنکھے چلتے ہیں۔ جمعہ کے روز دو گھنٹے پانچ پنکھے اور رات کو ایک بلب مگر بل پندرہ ہزار روپے۔مسجد کے پاس کوئی ٹھنڈا کرنے والی مشین بھی نہیں۔ اﷲ واپڈا والوں کو ہدایت دے۔ اﷲ کے گھر سے یہ زیادتی۔ رب العزت انہیں ہدایت دے اور ہماری مشکل آسان کرے۔ میں تو یہ بل نہیں دے سکتا۔ گاؤں والو! مسجد اﷲ کا گھر ہے اس کا خیال کرو۔ میں صبح سے چیخ رہا ہوں ابھی تک چار ہزار دو سو روپے اکھٹے ہوئے ہیں۔ بھائیو! کیا بتاؤں پندرہ ہزار روپے، میریاں تے چیکاں نکل گیاں نے۔ کچھ کرو۔ اﷲ کے گھر کی مشکل وقت میں خدمت کرو گے تو اﷲ بہت دے گا۔ سو روپے اور آئے ہیں۔ حاجی برکت علی نے بھیجے ہیں۔ شکریہ پرسوں آخری دن ہے۔ ہمت کرو۔ اﷲ جزا دے گا۔ دو دن مولوی صاحب اسی طرح چیختے رہے۔ پتہ نہیں پندرہ ہزار پورے ہوئے بھی کہ نہیں مگر ایک بات ضرور جانتا ہوں کہ غریبوں کی یہ آہیں اور یہ فریادیں حکمرانوں تک پہنچی ہوں یا نہ پہنچی ہوں۔ رب العزت تک ضرور پہنچ گئی ہوں گی۔ اس دربار تک جہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ جو غریبوں کی چیخیں ہی نہیں ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہلکی سی آہ بھی سنتا اور ان تک پہنچتا بھی ہے۔

آج مولوی صاحب ماشاء اﷲ کہنا بھی بھولے ہوئے تھے۔ صرف ان کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ یہ تو خیر مسجد تھی اور مسجد میں لاؤڈ سپیکر تھا ورنہ پوری قوم کی چیخیں نکل رہی ہیں اور سوائے حکمرانوں کے سب کو سنائی بھی دے رہی ہیں اور دکھائی بھی دے رہا ہے۔ یہ چیخیں رائیگاں نہیں جا سکتیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443425 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More