حساس معاشرتی مسائل اور اس کے اثرات

ملک کے ایک معروف صحافی جناب عبدالکریم عابد مرحوم کہا کرتے تھے کتب بینی ایک اچھی عادت ہے اس سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے ،لیکن اخبارات کے ادارتی صفحہ کا مطالعہ کتاب پڑھنے سے کہیں زیادہ مفید ہے ۔اس لیے کہ کتاب تو کسی ایک موضوع پر ہوتی ہے لیکن ادارتی صفحات میں تمام موضوعات پر مضامین شائع ہوتے ہیں یا یوں سمجھئے کہ اس میں تمام موضوعات کا نچوڑ ہوتا ہے ۔آپ بیک وقت سیاسی،معاشی،معاشرتی ،اخلاقی ،جسمانی و روحانی اور بین الاقوامی مسائل پر تحریریں پڑھتے ہیں ۔ پھر یہ کہ کتاب میں تو ایک ہی طرز کے اسلوب سے واسطہ پڑتا ہے جب کہ ادارتی صفحات میں مختلف قلمکاروں کے طرز نگارش اور اسلوب مطالعے کو دلچسپ بنادیتے ہیں ۔ آج ایک ایسے معاشرتی مسئلے پر تبادلہ خیال کررہے ہیں جو آج تقریباَ ہمارے ہر گھر کا مسئلہ ہے اور یا ایسا حساس مسئلہ ہے جس کی کوکھ سے کئی اور مسائل یا المیے جنم لے رہے ہیں ۔اب سے چار سال قبل کی بات ہے ہمارے ایک دوست نے نارتھ کراچی کی ایک مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی نماز کے بعد جس طرح مختلف لوگ سوال کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی مجبوریا ں بیان کر کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں دوست کا کہنا ہے کہ اس مسجد میں ایک عمر رسیدہ بزرگوار جو انتہائی اجلا سفید کرتا پاجامہ سفید ڈاڑھی پر سفید ٹوپی تعلیم یافتہ اور کسی حد تک صاحب حیثیت معلوم ہو رہے تھے وہ جب کھڑے ہوئے تو معاَ مجھے خیا ل آیا یہ دور آگیا کہ اب سفید پوش لوگ بھی مسجد میں سوال کرنے کھڑے ہو جاتے ہیں ،لیکن انھوں نے جو بات کہی وہ بالکل مختلف تھی انھوں نے کہا کہ "حضرات میں ایک ریٹائرڈ فرد ہوں میری بیوی کا انتقال ہو گیا ہے میری چار بیٹیاں ہیں جو پڑھی لکھی اور سلیقہ مند ہیں میں ان کے رشتہ کے لیے پریشان ہوں آپ میں سے جو صاحب اس سلسلے میں میرے ساتھ مدد اور تعاون کرنا چاہیں تو نماز کے بعد میں باہر کھڑا ہوں بس یہ چاہتا ہوں کے کوئی مناسب رشتے مل جائیں تاکہ میں مرنے سے پہلے اپنی ذ مہ داریوں سے سبکدوش ہو جاؤں ۔" وہ بزرگوار مسجد میں پیسوں کا نہیں بلکہ رشتوں کا سوال کررہے تھے ۔مسجد کے تمام نمازی ان بڑے صاحب کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے اپنی خاموش نگاہوں سے یہ کہہ رہے ہوں کہ یہ مسئلہ تو ہمارے ساتھ بھی ہے ۔یہ بہر حال تلخ حقیقت ہے کہ آج یہ ہمارے ہر گھر کا مسئلہ ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکوں کو مناسب روزگار اور نوجو ان بچیوں کو مناسب رشتے آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے اس صورتحال نے نہ صرف والدین کو پریشان کیا ہوا ہے بلکہ اس کے دیگر ہولناک نتائج و اثرات ایسے وقوع پذیر ہو رہے ہیں کہ اس مختصر مضمون میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اس کے نتیجے میں ہو یہ رہا ہے کہ ہمارے بیشتر خاندانوں میں جو کبھی ناخوب تھا وہ اب خوب ہوتا جارہا ہے کے بچیوں کی تربیت سخت ماحول میں کی جاتی تھی وہ جب سیانی ہو جاتی تو اپنے کزن اور قریبی رشتہ کے لڑکوں کے سامنے اگر پردہ نہ بھی کریں تو بہت زیادہ ان کے ساتھ فری ہونے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی اور اگر کبھی کسی سے ایسی کوئی غلطی ہو بھی جائے تو اسے اپنی ماں ہی سے بہت سخت سست سننے کو ملتا تھا ۔اب بیشتر والدین نے اس طرف سے شعوری طور پر آنکھیں بند کرلی ہیں کہ بہت زیادہ سخت تربیت کے بعد وہ انتطار ہی کرتے رہ جاتے ہیں اورخاندان کی دیگر اس سے کم درجے کی لڑکیوں کے سہرے کے پھول کھلتے رہتے ہیں اس لیے کہ ان کے ماں باپ نے اسی بات کو غنیمت جانا کہ لڑکی نے اگر خود کسی کو پسند کرلیا ہے تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بجائے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ کے اپنی ذمہ داریوں سے فراغت پا لیں ۔ اس طرح کے ماحول میں جو کچھ کمی تھی تو ہمارے موبائل فون کے مختلف پیکیجز نے پوری کر دیں اور انھیں مزیدآسانیاں فراہم کر دیں ۔لڑکوں کے لیے ملازمت اور لڑکیوں کے لیے رشتوں کا مسئلہ ویسے تو پورے ملک کا ہے لیکن کراچی کی صورتحال بہت زیادہ تشویشناک ہے کہ 1986سے پہلے جہاں ملک کے دیگر شہروں سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آرہے تھے وہیں پورے ملک سے سرمایہ بھی کراچی آرہا تھا کہ سرمایہ دار لوگ کراچی میں اس لیے سرمایہ کاری کرتے تھے کہ یہاں بندرگاہ ہے بین الاقوامی ائیر پورٹ ہے سستی لیبر ہے اس لیے کراچی میں روزگار کے مواقع ازخود بلندی کی طرف جارہے تھے لیکن پھر کیا ہوا نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی کہ شہری دیہی کی تقسیم نے شہری نوجوانوں کے حقوق سلب کرلیے ہیں کسی درجے میں یہ بات ٹھیک تھی لیکن اس کے لیے آئینی جدوجہد کرنے کے بجائے چند سرکاری نوکریوں کی خاطر ہم نے اس شہر میں آگ و خون کا جو کھیل کھیلا اس کے نتیجے میں نوکریاں تو کیا ملتیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں جو ملازمتیں مل رہی تھیں اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے کہ جب یہاں آئے دن کے ہنگاموں، ہڑتالوں اور بھتوں کی صنعت کو جو فروغ ملا اس نے سرمائے کو اس شہر سے بھگا دیا جس سے بیروزگاری پہلے سے زیادہ خوفناک انداز میں بڑھ گئی پھر اسی کے سبب ڈکیتی رہزنی اور لوٹ مار کی وارداتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا دوسری طرف یہ ہوا کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم اور کتابیں چھین کر ان کے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑا دی جس کے نتیجے میں پچھلے 28سال میں اس شہر کے پچاس ہزار نوجوان تاریک راہوں میں مار دیے گئے ان میں اسی فیصد وہ تھے جن کی شادیاں بھی نہیں ہوئی تھیں یعنی اس شہر کی لسانی سیاست نے چالیس ہزار بچیوں کے ہونے والے شوہروں کو ان سے چھین لیا پھر ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو مختلف مقدمات میں پھنسی ہوئی ہے اور اتنی ہی تعداد تنظیمی جکڑبندیوں کا شکار ہے ۔ایک دفعہ پروفیسر غفور صاحب مرحوم نے یہ بیان دیا تھا کہ جس بڑے پیمانے پر کراچی میں نوجوانوں کو آپس میں لڑاکر موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے مستقبل میں اس کے بڑے سنگین معاشرتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جب ہر گھر میں لڑکیوں کی بھرمار ہو گی اور ان کے رشتوں کے لیے ماں باپ پریشان ہوں گے ۔اب اس مسئلے کا حل کیا ہے ایک دفعہ ایک خاتون نے اخبار میں ایک عالم دین سے سوال کیا تھا کہ میری بیٹی کہ پہلے بہت رشتے آتے تھے اب آنا بند ہو گئے ہیں اور میں بہت پریشان رہتی ہوں انھوں نے جواب دیا کہ یہ جو رشتے آتے ہیں اسے اﷲ تعالی ٰ کی طرف سے نعمت سمجھنا چاہیے بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسے ٹھکرانہ نہیں چاہیے بہر حال آپ اﷲ سے دعا کریں اور استغفار بھی کرتی رہیں یہ تو فرد کی بات ہے لیکن اب یہ اجتماعی مسئلہ بھی ہو گیا ہے بلکہ تقریباَ ہر گھر کا مسئلہ ہے اس لیے اجتماعی استغفار کی ضرورت ہے ،ویسے بھی جب کوئی کشتی ڈوبتی ہے تو اس میں سوراخ کرنے والے بھی ڈوبتے ہیں تو وہ لوگ بھی ڈوب جاتے ہیں جنھوں نے سوراخ کرنے والے ہاتھوں کو روکا نہیں اور پکڑا نہیں بلکہ ایک درجے میں ان کی حوصلہ افزائی کی ۔دوسری بات ہے کہ ہمیں اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کچھ لوگ دین کی بنیاد پر شادی کرتے ہیں کچھ خوبصورتی کی بنیاد پر کچھ مال و دولت کی بنیاد پر اور کچھ اعلیٰ خاندان کی بنیاد پر پس تم دین کی بنیادپر نکاح کرو یعنی ہمیں ترجیح اول دین کو دینا چاہیے اگر دیگر چیزیں بھی ہو تو یہ اور اچھی بات ہے اسی طرح آپ نے فرمایا کہ جب تمھارے بچوں کی شادی کی عمر ہو جائے تو ان کی شادی کر دو ہمارے بعض گھرانوں میں والدین بڑے بیٹے کی شادی اس لیے نہیں کرتے کہ پہلے کچھ بیٹیوں کی ہو جائے اس چکر میں لڑکے کی شادی کی عمر بھی نکلتی رہتی ہے اسلیے اگر ہم ٹھیک عمر میں اپنے لڑکے کی شادی یہ سوچ کر کردیں کہ اگر ہماری بیٹیوں کی ابھی شادی نہیں ہورہی ہے تو کیا ہوا اپنے بیٹے کی شادی کرکے ہم کسی اور بیٹی کے ماں باپ کے بوجھ کو ہلکا کر سکتے ہیں پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ نئے خاندان وجود میں آنے سے کچھ اور راہیں کھلتی ہیں اور بچیوں کے رشتے بھی طے ہو جاتے ہیں ۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.