سعودی عرب کے قومی دن کی پروقار تقریب

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سعودی عرب کا 84واں قومی دن گذشتہ برسوں کی طرح امسال بھی انتہائی تزک و احتشام سے منایا گیا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود سعودی سفارت خانہ میں بھی یوم الوطنی کے موقع پر ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں خادم الحرمین الشریفین کے قائم مقام سفیرشیخ جاسم ایم الخالدی کی جانب سے عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے جبکہ راجہ ظفر الحق، مولانا فضل الرحمن ، علامہ ساجد میر، احسن اقبال، سینیٹر مشاہد اﷲ خاں، جنرل (ر) حمیدگل سمیت حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران ، مذہبی جماعتوں کے قائدین ، سینئر سفارت کاروں، تینوں مسلح افواج کے سینئر افسران، نامور صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکرز کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ سعودی میڈیا سیل کی دعوت پر میں بھی لاہو سے اسلام آباد تقریب میں شرکت کیلئے پہنچا ۔سکیورٹی کلیئرنس کے بعدسفارت خانہ میں داخل ہوئے تو سعودی میڈیا سیل کی انچارج محترمہ ریحانہ صا حبہ مہمانوں کو گائیڈ کرنے کیلئے وہاں موجود تھیں۔ تقریب میں سینئر صحافیوں ، کالم نگاروں اور اینکرز کی کثیر تعداد دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اپنی فیلڈ کے حوالہ سے وہ اپنی ذمہ داریاں احسن انداز سے نبھا رہی ہیں ۔سعودی عرب کے قومی دن کی یہ تقریب لازوال پاک سعودی تعلقات کی آئینہ دار تھی۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اس تقریب کاانعقاد ہی پاکستان کی جانب سے کیا گیاہے۔سفارت خانہ کے لاؤنج میں ایک طرف چھوٹا سا اسٹیج بنایا گیا تھا جہاں چھوٹے بچے ہاتھوں میں تلواریں تھامے قدیم عرب روایتی رقص جبکہ مہمانان گرامی باہمی ملاقاتوں میں مصروف تھے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار پہنچے تو مہمان خصوصی کے طور پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا‘ پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا گیا اور پھر تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ یوم الوطنی کی اس تقریب کی پروقار محفل قائم مقام سفیر شیخ جاسم الخالدی کی طرف سے سجائی گئی تھی۔ شیخ جاسم عرصہ دراز سے سفارتخانہ میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ سفارتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک سنجیدہ طبع اور نفیس شخصیت کے طور پر ہے۔پچھلے دور میں بھی جب کبھی سفیر خادم الحرفین الشریفین مصروفیت کی وجہ سے بیرون ملک ہونے کے باعث کسی تقریب میں شریک نہ ہو سکے تو ان کی جگہ شیخ جاسم الخالدی نے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ جن لوگوں کو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک سفیر اور سعودی عرب جیسے اسلامی ملک کے نمائندہ میں ہونی چاہئیں۔ ان کی شخصیت میں تصنع اور بناوٹ نام کی کوئی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ ایک عرصہ سے پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے تجربہ اور معاملہ فہمی کی بنیاد پر پاک سعودی دوستی کو مضبوط اور بے مثال بنارہے ہیں جس پر یقینی طور پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔


سعودی عرب مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے اور پاک سعودی تعلقات کے درمیان محبت اور اخوت کے جو لازوال رشتے قائم ہیں انہیں پوری دنیا میں نا صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ دوستی کے اس پر خلوص رشتہ کی عالمی دنیا میں مثالیں بیان کی جاتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں ملک یک جان دوقالب ہیں جس کا واضح اظہار ہر اس موقع پر دیکھنے میں آیا جب پاکستان کو زلزلہ، سیلاب یا کسی اور قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔ہر مشکل وقت میں سب سے پہلے سعودی عرب ہی وہ برادراسلامی ملک ہے جو ہمیشہ پاکستانیوں کی مدد کیلئے پہنچااور ساتھ نبھانے کا حق ادا کیا ہے۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی، دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔شاہ فیصل کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی ۔خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال کیا جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا او ر روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے یہی وجہ ہے کہ اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردارسے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگا ہ کیا جائے اور اس کیلئے وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ سیلاب کے دوران بھی جب آزاد کشمیر سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں شدید تباہی ہوئی ہے سعودی عرب متاثرین کی عملی طور پر ہر ممکن مدد کیلئے کوشاں ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیاں تبدیل ہوتی رہیں خاص طور پر نائن الیون کے بعد پالیسیوں میں تغیرات کے باعث بعض مرتبہ یہ چیزیں تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا باعث بنتی رہی ہیں مگراس کے باوجود ان دونوں ملکوں کے تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے۔حالیہ تاریخی جنگی مشقوں کے بعد سعودی عرب خطہ میں اہم قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر جو حالات بن رہے ہیں یہ باتیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں کہ امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل نظریاتی بنیادوں پر معرض وجود میں آنیو الے دو ملکوں پاکستان اور سعودی عرب کو کسی طور مضبوط و مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے اور انہیں ہر صورت عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ خوفناک سازشیں اور منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی تعلقات بہت زیادہ ضروری ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کی امداد سے کسی طور پیچھے نہیں رہا تو پاکستان کا بھی فرض ہے کہ وہ دفاعی لحاظ سے سعودی عرب سے ہر ممکن تعاون کرے اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کی کوششوں میں حصہ لے۔پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ عالمی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اپنا مشترکہ دفاعی نظام اور ڈالر اور یورو کے چکر سے نکل کر اپنی مشترکہ کرنسی تشکیل دیں۔ مسلمان ملکوں کو اپنی الگ اقوام متحدہ بھی بنانی چاہیے۔ اس نوعیت کے جرأتمندانہ اقدامات اٹھا کر ہی امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ہم دعا کرتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین برادرانہ تعلقات ہمیشہ اسی طرح قائم و دائم رہیں اور اﷲ تعالیٰ ان محبتوں میں مزید اضافہ فرمائے۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 126475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.