’’زندگی کو جیسے تیسے دھکا دے رہا ہوں!‘‘

’’زندگی کو جیسے تیسے دھکا دے رہا ہوں!‘‘
دو کمروں کے اس مکان کے چھوٹے سے آنگن میں پیالہ بھر دھوپ اُمید بن کر اُترتی ہے۔

مگر ٹمٹماتے بلبوں کی روشنی میں کچھ اور بڑھ جانے والا اندھیرا جب خستہ دیواروں پر بہنے لگتا ہے، تو اس گھر کے مکین مایوسی کا ایک اور دن بھوگ چکے ہوتے ہیں۔

یہ ٹیکسی ڈرائیور محمد جلال کا گھر ہے۔ اس نے زندگی کی چالیس خزائیں دیکھ کر مصائب کے سورج تلے چار دہائیاں گزاری ہیں۔ بہاریں تو نہ جانے کب اس کے آس پاس سے دامن بچائے گزر گئیں۔

جلال کی کہانی کا آغاز سرگودھا سے ہوتا ہے، جہاں اس نے افلاس کا زہر پیتے ایک گھرانے میں جنم لیا۔ اس کے والد چوہدری بابو بیکریوں کو بسکٹ سپلائی کرکے گھر چلارہے تھے۔ جلال کا چاربھائیوں اور دو بہنوں میں دوسرا نمبر ہے۔ اس کا بڑا بھائی ذہنی مریض ہونے کے باعث اپنے اہل خانہ پر گزرتے اور اترتے دکھوں سے بے گانہ ہے۔ تنگ دستی کو ہجرت سے شکست دینے کی دُھن میں جلال کے والد نے اپنے کنبے سمیت 1971میں کراچی کا رُخ کیا۔

انھیں توقع تھی کے سمندر کنارے بسے اس شہر میں روزگار کا دریا لہریں مار رہا ہے، سو ان کی بنجر زندگی میں کچھ تو روئیدگی آئے گی۔ مگر افلاس کی پیاس کو سمندر سے شبنم ہی مل سکی، وہ بھی قطرہ قطرہ۔ وہ اس کشادہ شہر کی ایک تنگ بستی ’’بی ہائنڈ جیکب لائن‘‘ میں ایک جھونپڑی خرید کر بس گئے اور بسکٹوں کی سپلائی ہی کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ جلال اس وقت چار ماہ کا تھا۔ اس نے ہوش سنبھالا تو بستے اور کھلونوں کے بہ جائے فکرِمعاش اس کی منتظر تھی۔

وہ چھٹی جماعت تک جیسے تیسے پڑھ سکا۔ وہ کہتا ہے،’’جو بھی پڑھا تھا، اب سب بھول چکا ہوں۔‘‘ صرف چودہ سال کی عمر میں، تعلیم چھوڑ چھاڑ کر، وہ بوڑھے ہوتے باپ کا سہارا بن گیا اور ٹرک پر بہ طور کلینر کام کرنے لگا۔ ٹرک پر سوار اس کی کم سِنی سندھ پنجاب کے شہروںِ، قصبوں، دیہات سے موجودہ خیبرپختون خوا اور گلگت بلتستان کے برف پوش اور فلک بوس پہاڑوں تک پھیلی زندگی کا مطالعہ اور اس کی تلخیوں کا مشاہدہ کرتی رہی۔ رفتہ رفتہ ترقی کرکے وہ ٹرک ڈرائیور کی سیٹ پر جا بیٹھا۔ ہمارے ہاں غریب کی معراج یہیں تک ہے۔

باپ کی کمائی اور جلال کی ٹرک ڈرائیوری سے گھر کا خرچہ جیسے تیسے چل رہا تھا کہ قسمت کو اس گھرانے کی بہتر ہوتی حالت کَھلنے لگی۔ چوہدری بابو روزی روٹی کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ ایک کار کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگیا۔ غلطی کسی کی بھی ہو، خمیازہ افلاس ہی کو بھگتنا پڑا۔ اس خاندان کی معاشی حالت مزید خراب ہوگئی۔ زخموں کا علاج تو ہوگیا، مگر چوہدری بابو کو عرق النساء کے مرض نے آلیا۔ اس کا کام دوڑ بھاگ کا تھا، چلنے سے قاصر ہوکر وہ کھلانے والوں کی صف سے نکل کر کھانے والوں کی لائن میں آگیا اور گھر کا واحد کفیل جلال قرار پایا، جو اپنے اہل خانہ کا سایہ بنا کڑی دھوپ میں جل رہا ہے۔ باپ کے علاج پر اُٹھنے والے اخراجات نے پہلے ہی کمر توڑ رکھی تھی، کہ ماں کی زندگی کو ذیابیطس کا مرض چاٹنے لگا۔

ماں کو اسپتال لانے لے جانے کی ذمے داری اور پھر اس ذمے داری کو نبھانے کے لیے ٹیکسیوں کا کرایہ، گھر سے دور رہنا دشوار ہوگیا اور ٹرک ڈرائیوری سے ہونے والی آمدنی کم پڑنے لگی۔ ’’صاب! مجبوری میں، میں نے ٹرک ڈرائیوری چھوڑی اور بھاڑے پر ٹیکسی چلانا شروع کردی۔‘‘ وہ اپنے پستی سے مزید پستی کی طرف گرتے حالات کی کہانی سُناتے ہوئے کہتا ہے۔

اپنے سمیت خاندان کے آٹھ افراد کا بوجھ، والدہ کی بیماری اور دیگر مسائل کے سبب ہاتھ تو تنگ تھا ہی کہ کراچی کے خراب حالات نے پیروں میں بھی بیڑیاں ڈال دیں۔ بدامنی کا پہلا اور سب سے زیادہ شکار روز کماکر کھانے والا طبقہ ہوتا ہے، جلال بھی جس کا حصہ تھا۔ روشنیوں کے شہر میں اپنی قسمت کو اندھیروں میں گھرا دیکھ کر اس نے کراچی کو خیرباد کہا اور کنبے سمیت 1991میں واپس سرگودھا جابسا۔ گھر کا خرچہ، ماں باپ کا علاج، بہنوں کی شادی۔۔۔۔۔ ٹیکسی کے گھومتے پہیوں کی مدد سے وہ اپنی ذے داریاں نبھاتا رہا۔

افلاس کے کنوئیں میں گرتے جلال کو اپنے والد کی طرح بہت دور امید کی کرن نظر آئی۔ اور وہ 2000 میں وہ اسی شہر کی جانب عازم سفر ہوا، جہاں سے کوئی دس سال پہلے اس کا دانہ پانی اُٹھ گیا تھا۔ کراچی میں امن وامان کی صورت حال بڑی حد تک بہتر ہوچکی تھی۔ زبان کے نام پر قتل وغارت گری کا بازار ختم نہیں تو معطل ضرور ہوگیا تھا۔ چناں چہ بڑے شہروں کو اپنے درد کا درماں سمجھنے والے قصبوں اور دیہات کے دوسرے باسیوں کی طرح جلال نے بھی اس شہر سے امید باندھ لی جہاں اس کا بچپن اور لڑکپن گزرا تھا۔ پہلے وہ خود آیا، پھر اس کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا۔ اب کی اس گھرانے کا ٹھکانا محمود آباد کی بستی تھی، جہاں وہ کرائے کی چھت تلے رہنے لگا۔

’’اﷲ عزت سے زندگی گزارتا رہا ہے صاب! اب بے بس اور مجبور ہوگیا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بے بسی اس کی آنکھوں میں نمی کی صورت اُتر آئی تھی۔ اس کا لب ولہجہ اور انداز بتارہے تھے کہ وہ مجبوری کی اس دلدل میں پھنسنے کو ہے، جو ’’خط غربت‘‘ کی حد پر اپنی تمام تر غلاظت کے ساتھ پھیلی، عزت نفس اور اقدار کو سموچا دبوچ لینے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ جیسے تیسے گزارہ ہورہا تھا۔ نہ صرف چولہا ہر روز جلتا تھا، بل کہ عید بقرعید پر بچے نئے کپڑوں کی خوشی سے نہال ہوجاتے تھے۔ اور پھر جلال کے بہ قول ’’دس مہینے سے بُرا دور شروع ہوا۔‘‘

جس نے کبھی اچھا دور دیکھا ہی نہ ہو اس کے لیے کیسا بُرا دور! بات صرف اتنی ہے کہ کانٹوں بھرے راستوں کا سفر بند گلی میں داخل ہوگیا۔ جلال کی شوگر کے مرض میں مبتلا ماں کے دونوں گُردے کام کرنا چھوڑ گئے۔ اب محنت کش بیٹا تھا اور بیمار ماں کو تکلیف سے نجات دلانے کے جتن۔ وہ برسوں ماں کو لے کر مختلف علاج گاہوں کے چکر لگاتا اور اپنے سر پر تنی دعاؤں کی چادر بچانے کے لیے کوشاں رہا۔ اس کی ساری جمع پونجی ماں کے علاج کی نظر ہوگئی۔

آخر کار ’’ایس آئی یو ٹی‘‘ روشنی کی کرن بن کر سامنے آیا، جہاں آٹھ ماہ تک جلال کی ماں کا ڈائیلیسس ہوتا رہا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی انسان دوستی کا مظہر یہ ادارہ جلال کی ماں کا ڈائلیسس تو مُفت کرتا رہا، مگر آنے جانے میں لگنے والا وقت اس کے روزگار کے لمحات چھین لیتا، ساتھ میں دیگر متعلقہ اخراجات بوجھ کچھ اور بڑھا جاتے۔ خرچے اپنا قد بڑھاتے رہے، یافت سمٹتی گئی، تو اس فرق کے فاصلے گھٹانے کے لیے ہر مفلس کی طرح جلال نے بھی قرض کا سہارا لیا۔ مگر ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور ایک دن ممتا کا دیا منوں مٹی تلے بُجھ گیا۔

ماں کے جنازے سے کندھے ہلکے ہوئے تو جلال کو اندازہ ہوا کہ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اب تک وہ ماں کے علاج معالجے میں الجھے رہنے کی وجہ سے دیگر مسائل بھولے بیٹھا تھا، جب اِس فکر نے ساتھ چھوڑا تو اس کے سامنے اپنے زیرکفالت افراد کی ضرورتیں خالی ہاتھ پھیلائے کھڑی تھیں۔ بیوی، دو بچے (بچہ چودہ سال کا، بچی نو مہینے کی) بوڑھا باپ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری بڑا بھائی، دو چھوٹے بھائی اور ایک بیوہ بہن، جس کا شوہر تین سال پہلے دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کرگیا تھا۔
بیوگی کے بعد سے میکے میں رہ رہی ہے، اس بہن کے پانچ بچے (تین لڑکیاں، دو لڑکے)، یعنی تیرہ افراد کا یہ کنبہ اپنی ضرورتوں کے لیے جلال کی طرف دیکھتا ہے، جو اکثر رات گھر لوٹتا ہے تو ان سوالی نظروں کا سامنا کرنے سے کتراتا آنکھیں جھکائے دہلیز پار کرتا ہے۔ جلال ایک بھائی بے روزگار ہے اور دوسرا ٹیکسی چلاتا رہا ہے، مگر لائسنس نہ ہونے کے باعث اب بے کاری کے دن کاٹ رہا ہے۔

یہ کنبہ کراچی کے علاقے گلستان جوہر کی مضافاتی بستی بھٹائی آباد کا مکین ہے۔ جلال بھاڑے پر ٹیکسی چلاکر گھر چلانے کی لاحاصل تگ ودو میں مصروف ہے۔ صبح جب گھڑی کی سوئیاں نو اور دس کے درمیان کسی ہندسے پر سر پٹک رہی ہوتی ہیں، تو وہ کچھ پانے کے لیے گھر چھوڑتا ہے۔ اس کی ٹیکسی سڑکوں پر رینگتی رہتی ہے اور آنکھیں کسی مسافر کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔ ’’ہوائی روزی ہے۔ لگے تو ہزار آٹھ سو کی دیہاڑی بھی لگ جاتی ہے، ورنہ ایک روپے کی بھی نہیں لگتی۔ جیسے آج ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔‘‘ ڈھلتی شام کے سائے میں اس نے اپنا ہاتھ جیب پر پھیرتے ہوئے کہا، جس کا خالی پن دور سے بھی صاف نظر آرہا تھا۔

خوشیوں کا نہ ہونا ہی اس گھر کا المیہ نہیں، المیہ تو یہ ہے کہ اس کنبے میں مسرت کی کمی صدمے پوری کر رہے ہیں۔ جلال کی جواں سال بہن اپنے دکھی دل میں سوراخ لیے جی رہی ہے۔ اس کا جگر خون بنانے سے انکار کر چکا ہے۔ اپنے بچوں کا سایہ بنی رہنا چاہتی ہے، سو، ڈاکٹروں کے نسخوں کو ڈھال بنائے موت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ جلال میں اتنی سکت کہاں کے وہ اپنی بیمار بہن کا معقول طریقے سے علاج کرا سکے۔ بہن کی زندگی کی طرح سایہ دیتی چھت بھی خطرے میں ہے۔

’’مالک مکان کہتا ہے کہ مکان خالی کردو، میں اسے توڑ کر دوبارہ بناؤں گا۔‘‘ کرایہ بروقت ادا نہ کیا جائے تو کرائے دار مالک مکان کی نظروں میں غیرمعتبر اور اس سے تعلق گھاٹے کا سودا قرار پاتا ہے۔ جلال بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے۔ مکان کا تین ہزار روپے کرایہ ادا کرنا اس کے لیے وبال ہوچکا ہے۔ اسی صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے وہ بھٹائی آباد ہی کے ایک مکان سے دوسرے میں منتقل ہوا تھا، اور اب یہ درودیوار بھی اس سے بے گانے ہوئے جارہے ہیں۔

جن سڑکوں پر کتنے ہی ماں باپ اپنے بچوں کو تفریح گاہوں کی سیر کرواکے، ان کے لیے سیکڑوں ہزاروں روپے کی اشیائے خورونوش اور کھلونے لے کر محوِ سفر ہوتے ہیں، انھی راستوں پر ٹیکسی چلاتا جلال یہ سوچتے ہوئے گزرتا ہے کہ آج اس کے کنبے کے بچے کھانا کھائیں گے، یا بھوکے ہی سوجائیں گے۔ ’’کئی کئی دن تک گھر میں کھانا نہیں پکتا۔ دیہاڑی لگ جائے تو آٹا دال لے آتا ہوں، ورنہ اﷲ کے آسرے پر بیٹھے رہتے ہیں۔‘‘ مگر کبھی کبھی ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں، صبر کا دامن ہاتھوں میں تارتار ہوجاتا ہے۔ خاص کر اس وقت جب خالی پیٹ بچوں کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ’’بچے روتے ہیں تو دل کہتا ہے، ایسی زندگی سے موت اچھی ہے۔‘‘ یہ الفاظ اس کے لہجے میں بلکتا وہ دکھ بیان کرنے سے قاصر ہیں، جو انھیں ادا کرتے ہوئے جلال کی آنکھوں میں بھی سسک رہا تھا۔

کیسے کھلونے، کہاں کی تفریح، کیسی ضد۔۔۔۔۔اس گھر میں بچپن صرف کم سِنی کا نام ہے، جس کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے، پیٹ بھر کھانا۔ ہاں، کبھی کبھی ننھے ننھے دلوں میں خواہش کی معصوم سی کلی کِھل اُٹھتی ہے، جیسے عید بقرعید کے موقع پر۔ جلال کا اپنا بیٹا تو چودہ سال کی عمر ہی میں افلاس کے قرینے نبھانا سیکھ گیا ہے۔ ’’عید پر پُرانے کپڑے ہی پہن لیں گے‘‘، باپ کی مجبوریاں دیکھ کر وہ اپنی خواہش خود ہی بہلالیتا ہے۔ مگر بہن کے مزید کم عمر بچے ابھی مفلسی جینے کی عادت میں پختہ نہیں ہوئے ہیں، اس لیے اور بچوں کی طرح تہواروں پر اپنا حق جتانے لگتے ہیں:
’’ماموں، عید کے کپڑے‘‘
’’بیٹا! اگلی عید پر بنادوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ماموں! اگلی عید پر بنالیں گے۔‘‘
اس اگلی عید کا ہلال اس گھر کی منڈیر سے کب جھانکے گا، کسے خبر۔

جلا ل کی محنت اور پریشانیوں نے اس کے جسم وجاں سے پوری پوری قیمت وصول کی ہے۔ اسے تین بار ٹائیفائیڈ ہوچکا ہے۔ جیسے تیسے علاج کرواکے وہ اپنے جسم کا بوجھ ڈھونے کے قابل تو ہوگیا، مگر بیماری اس کی ٹانگوں کو متاثر کرگئی۔ ’’دونوں ٹانگیں بہت کم زور ہوگئی ہیں، بڑی مشکل سے گاڑی چلا پاتا ہوں۔‘‘ ہاتھوں کی جنبش اور ٹانگوں کی حرکت ہی اس کے لیے رزق کشید کرنے کا ذریعہ ہیں، سو، لاکھ تکلیف ہو گاڑی کھینچتے رہنا ہے۔

گھرکی چھت کی طرح ٹیکسی کا وہیل بھی اپنا نہیں۔ کمائی ہو نہ ہو، مالک کو روز تین سو روپے دینا ہوتے ہیں، جو عدم ادائیگی پر قرض بن کر گردن جکڑنے لگتے ہیں۔ پھر اگر مالک ٹیکسی بیچنے کا ارادہ کرلے، تو پتھریلے راستوں کا سفر بے کاری کی ریت میں دھنسنے لگتا ہے، رینگتا جیون گرکر ہانپنا شروع کردیتا ہے۔ نئی ٹیکسی نئی امید کا راستہ دکھاتی ہے، جو ایک بار پھر مایوسی کی اندھیری گلیوں میں ختم ہوجاتا ہے۔
’’زندگی کو جیسے تیسے دھکا دے رہا ہوں صاب!‘‘ جلال اپنے حال کو جب ان سادہ سے الفاظ کے سانچے میں سموتا ہے، تو ساری شاعری، زبان، ادب اپنی تنگ دامنی پر شرمندہ ہوجاتے ہیں۔

’’اﷲ اپنے حبیبؐ کے صدقے ہم پر اپنا کرم کرے۔ دل میں ارمان ہے کہ اپنا ایک چھوٹا سا گھر ہو، روزی روٹی کا مستقل آسرا ہو۔ زندگی عذابِ الٰہی بنی ہوئی ہے۔‘‘ نہ جانے ٹیکسی کے گھومتے پہیے اس کے خواب کو تعبیر دے سکیں گے یا نہیں، ابھی تک تو وقت اور حالات کے پہیے اس کی ہر خواہش ہر ارمان کو کچل کچل کر گزر رہے ہیں۔

ریاست اور سماج کی ساری چہل پہل اسی کے دَم سے ہے، چناں چہ وہ بہت خاص ہے، مگر کہلاتا ہے’’عام آدمی۔‘‘ اس بے زباں کو زبان دینے کے لیے’’عام آدمی‘‘ کے عنوان سے یہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے، جس میں کم آمدنی والے مختلف پیشوں سے متعلق افراد کے مسائل، مصائب اور روزوشب کی کہانیاں انھی کی زبانی پیش کی جائیں گی۔
M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 26734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.