سوشل میڈیاں خطرناک سے خطرناک تر کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

سماجی رابطوں کے احوالے سے سوشل میڈیاں اس وقت تہلکہ خیز میڈیا بن چکی ہے، دنیا کے کسی بھی کونے میں لوگ ایک دوسرے سے برائے راست آن لائن رابطہ کرتےہیں، سوشل میڈیا کے بدولت اور جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے عوض دینا ایک گلوبل ولج کی شکل اختیار کرچکی ہے، اگر سوشل میڈیا کو صحیح معنوں میں استعمال کیا جائے تو انسانی زندگی میں انقلاب پربا ہوگی، اگر انھیں نفرتوں کے زریعے آگ لگانے کے لئے استعمال کیا جائے تو ہر طرف نفرت کی دیواریں پیدا ہونگے، اور ایک نہ بجھنے والا آگ بن کر نفرتوں تعصبات کو ہوا دے کر تو ہر ایک اس کی نغرے میں آئیگی اگر اس وقت سوشل میڈیا پر دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں باقاعدہ طور پر ایک دوسرے کے کردار کشی اور نیچے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، فیس بک اور ٹوئیٹر پر شر انگیز مواد شائع ہونے سے معاملات ہر شعبے میں خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں، سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات اپنی جگہ، اگر دوسری جانب دیکھاجائے سوشل میڈیا ایک دوسری کی ضرورت بن چکی ہے، اور لوگ ان سے اچھی خاصی فوائد حاصل کررہے ہیں، اپنے دوستوں کو فیس بک پر ڈھونڈ کر انھیں دوبارہ اپنی دوستی کے چھتری میں لاسکتے ہیں، اپنے خیالات سوچ اور نظریات کو شیئر کرسکتے ہیں ،فیس بک اور ٹوئٹر کے زریعے لوگوں کو مختلف حالات وواقعات کی بروقت خبر کی فوٹو اور ویڈیوزمل سکتی ہے،اگر دوسری جانب دیکھا جائے توٹوئٹرموبائل ایس ایم ایس پر خبروں کی بروقت ترسیل کو بہت آسان بنادی ہے ، پاپو لر ٹوئیٹر اکاونٹس کے میسجز اور نیوز ایس ایم ایس لوگو کو بروقت انکے موبائل سم پر آتے ہیں، جو کوفوری حالات و واقعات کا خبر ہوتی ہے، سوشل میڈیاں کے بارے میں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے ٓکہ آن لائن نفرت انگیزی کے رحجان میں خطرناک اضافہ ہوا ہے ، سائبر اسپیس سے متعلق ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کے مذہب، نسل اور جنس کی نبیاد پر نفرت انگیز مواد کا نشانہ بنانے کا رحجان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، بائیٹس فار آل کی سیمینار میں پیش کئیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی سائبر اسپیس انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد خطرناک حد کو چھورہاہے ،جس سے معاشرے میں کئی قسم کے خطرات پیدا ہورہے ہیں، تحقیقاتی سروے کے مطابق 42 فیصد کے مطابق انھیں ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا،23 فیصد کو قومیت ،22فیصد کو ان کی نسل کی بنیاد پر جبکہ 16فیصد کو جنس کی بنیاد پر نفرت انگیزروئیے کا نشانہ بنایا گیا،سرو ےکے مطابق سماجی ویب سائٹس میں سے فیس بک پر سب سے زیادہ نفرت انگیز مواد موجودہے ،اور 91 فیصد افراد نےاس پر ایسے مواد کو دیکھنے کی تصدیق کی ، تاہم توئٹر پر اس کے مقابلے میں ایسا مواد بہت کم نظر آیا ، زبان کی بنیاد پر فیس بک پر موجود نفرت انگیز مواد میں سے 74فیصد رومن اردو میں ، 22 فیصد انگریزی جبکہ صرف 4 فیصد اردو میں لکھاگیا ہے-

اگر اس رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس تحقیقاتی سروے کا جائزہ لیاجائے تو واقعی ہم فیس پر ایسے شر انگیز اور فساد پرپا کرنے والے مواد دیکھنے کو ملتی ہے ، جس سے واقعی سماجی رابطوں کے ویب سائیٹس پر اشتعال انگیزی کو فروغ ملے گا،اور آن لائن نفرت انگیزی کے رحجان میں خطرناک اضافہ ہوسکتی ہے، اب یہ ہم پر انحصار کریگی کہ ہر ایک سوشل میڈیاکو کس طرح استعمال کریگی، اگر اخلاق کے دائرے میں استعمال کرنے کی نوبت پیش آئے تو ہر طرف پھول کی کھلیاں نظر آئینگے ، اور ہر طرف محبت اور بھائی چارگی کو فروغ ملے گی،اگر اسی تناظر میں استعمال کیا جائے جو تحقیقاتی سروے میں زکرکیاگیاہے تو پھر نفرت انگیزی کبھی بھی نہ رکے گی، جن کے خطرناک منفی تنائج برآمد ہونگے اب فیصلہ آُ پ لوگوں پر، سوچئیے آج سے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
راسکوہ کے دامن سے برکت زیب سمالانی
برکت زیب سمالانی
About the Author: برکت زیب سمالانی Read More Articles by برکت زیب سمالانی: 2 Articles with 1464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.