قرآن مجید فلاح انسانیت کا ضامن

تورات ،قانون شریعت ہے لیکن اخلاق وموعظت سے خالی ،مسیحؑ کے صحیفہ میں8 وعظ ونصیحت ہے لیکن فکرونظرکی دعوت نہیں،زبورمخاطبات قلبی اوردعاؤں کامجموعہ ہے لیکن اس میں دقائق و حکمت نہیں۔دنیامیں صرف ایک ہی کتاب ہے جودستورزندگی اورشریعت بھی ہے،عبرت ونصیحت بھی،مخاطبات قلبی کاگنجینہ بھی ہے اورحکمت وخطابت کاخزینہ بھی، وہ کتاب قرآن مجیدہے۔یہی وہ تنہاکتاب ہے جسے کلام اللہ ہونے کابھی شرف حاصل ہے ۔جو اپنی زندگی جاویدکیلئے کاغذپرچھپے نقوش وحروف کی محتاج نہیں کیونکہ لاکھوں سینے اس گوہریکتاکے امین ہیں۔وہ ان ہی الفاظ کے قالب میں اب تک جلوہ گرہے جس میں دست قدرت نے اسے ڈھالاتھا،جبرئیل امیںؑ نے اتاراتھااورمحمدعربیﷺ نے امت کے ہاتھوں میں سونپاتھا۔ ذرہ برابربھی اس میں تحریف وتبدیل کاامکا ن نہیں،اس کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ چھپ چھپاکربھی اس میں خلط ملط نہیں کیاجاسکتا۔لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ تنزیل من حکیم حمید۔ لفظ وعبارت کی طرف سے اورنہ معانی کی جہت سے باطل کااس پرزورچل سکتاہے ۔

قرآن مجیدکے ایک توالفاظ ہیں ،پھرمعانی جوالفاظ میں پوشیدہ ہیں ،پھران معانی کی تہہ میں حقائق ہیں ،حقائق کی تہہ میں معارف ہیں اورمعارف میں وہ کیفیات ہیں جوقلوب پرطاری ہوتی ہیں۔قرآن مجیدکی تلاوت کی جائے تواس سے بہترکوئی وظیفہ نہیں،اس کاعلم سیکھناہوتواس سے بڑھ کرکوئی علم نہیں،اسے دستورزندگی بنالیاجائے تواس سے عمدہ کوئی قانون حیات نہیں، حقائق کھولیں جائیں تواس سے بہترکوئی حکمت نہیں،اگراس کی کیفیات اپنے اوپرطاری کی جائیں تواس سے بڑھ کرسکون قلب کی کوئی چیزنہیں ۔الغرض نعمتوں کاجوتصوربھی قائم کیاجائے وہ سب کے سب اس کے اندرجمع ہیں۔اورکوئی بھی کتاب کسی بھی جہت سے اس کی حریف نہیں بن سکتی۔خاص کردش حق باعجازکتاب مستطاب محب وفرقاں ومعجزومحکم وفصل خطاب۔

قرآن مجیدکی غیرمنقوط تفسیرکرنے والے فیضی نے کیاخوب لکھاہے
’’العلوم کلھاصداع الاعلم کلام اللہ وکلام اللہ لااعدلمحامدہ ولاحدلمکارمہ ولاحصرلرسومہ ولااحصا لعلومہ والوالعلم ماعلمواالاعدادا‘‘
’’قرآنی علوم کے علاوہ تمام علوم دردسرہیں اورکلام اللہ کے مناقب کوشمارنہیں کیاجاسکتا،اس کے محاسن کی کوئی انتہاء نہیں،اس کی شان غیرمحصورہیں اورعلوم قرآن اس درجہ ہیں کہ ان کااحاطہ ممکن نہیں اورتمام اہل علم کوجوعلم حاصل ہواہے وہ اس کے غیرمحدودعلم کاایک حصہ ہے‘‘۔لاتنقضی عجائبہ۔

احادیث کے مفہوم میںیہ بھی بتایاگیا کہ قرآن مجیدمیں جتنی آیات ہیں،جنت کے اتنے ہی درجات ہیں۔چنانچہ حافظ سے کہاجائے گاکہ پڑھتاجااورچڑھتاجا،تیری آخری منزل وہاں ہوگی جہاں اس کی آیت ختم ہوگی(مرقات المفاتیح ج۵،ص۳۱،حاشیہ مشکوٰۃص۱۸۶)۔یہ بھی کہاگیاکہ یہ آیتیں خودجنت کی منزلیں اوردرجات ہیں یعنی جوآیتیں ،یہاں الفاظ کی صورت میں نظرآتی ہیں ،جنت میں باغ وبہارکی شکل میں ڈھل جائیں گی۔گویاجس مسلمان نے پوراقرآن حفظ کرلیااس نے پوری جنت اپنے قلب میں سمیٹ لی ۔جب عالم آخرت میں حرفوں اورلفظوں میں سمٹی ہوئی یہ جنت کھلے گی تووہ دیکھے گاکہ یہ تووہی چیزہے جواس کے نہاں خانہ قلب میں تھی اورپتہ چلے گاکہ یہ جنت تواسے دنیامیں ہی دے دی گئی تھی۔

قرآن مجیدکوہدایت اورشفا کہاگیا۔ ھوللذین آمنواھدی وشفاء یعنی یہ ایمان والوں کووہ راستہ بتلاتاہے جونافع ہے اور شفادیتاہے۔اسی مفہوم کودوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا۔وننزل من القرآن ماھوشفاء ورحمۃ للمؤمننین ولایزیدالظالمین الاخسارا۔یعنی اس قرآن کے ذریعہ روحانی اورباطنی امراض سے صحت عطاہوتی ہے اوراس نسخہ شفاکواستعمال کرنے کے بعدروحانی امراض سے نجات حاصل ہوتی ہے۔نجم نجمش دربراعت ہست برترازآفتاب حرف حرف اوشفاہست بہررشید۔

کہیں فرمایاان ھٰذاالقران یھدی للتی ھی اقوم،یہ قرآن ،’’اقوم ‘‘راستہ کی رہنمائی کرتاہے۔اور’’اقوم‘‘اس راستہ کوکہتے ہیں جومنزل مقصودتک پہونچانے میں قریب ہو،آسان ہواورخطرات سے خالی ہو۔جب یہ کتاب اتنی مفیدہے تواسے بالکل عام کردیاگیاہے اوراس کے مضامین(محکمات ومتشابہات اوربعض مضامین کے علاوہ) کوآسان کردیاگیاہے ۔ولقدیسرناالقرآن للذکرفھل من مدکر۔جلالین کے مطابق اس آیت میں مذکوراستفہام ،امرکے معنیٰ میں ہے ،یعنی ہم نے مضامین عبرت ونصیحت کوآسان بنادیاہے اب ضروری ہے کہ ہرایک اس سے فائدہ اٹھائے۔

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جوبڑھ کرخوداٹھالے ہاتھ میں،مینااسی کاہے
فرمایانبیﷺنے ’’ان لکل شیئی شرفایتباھون بہ وان بھاء امتی وشرفھاالقرآن(الحلیہ) ہرچیزکے لئے شرف کی کوئی چیزہوتی ہے جس پرلوگ فخرکرتے ہیں اورمیری امت کے لئے سرمایہ افتخارقرآن ہے اورجس کے پاس یہ قرآن نہ ہو،اس کے دل کوویران گھرسے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایاان الذی لیس فی جوفہٖ شیئی من القرآن کالبیت الخرب(ترمذی)جس کے قلب میں قرآن کاکوئی حصہ نہ ہو،وہ ویران گھرکی طرح ہے‘‘۔
یہ اعلان کیا ’’وھٰذاکتاب انزلنہ مبارک فاتبعوہ واتقوالعلکم ترحمون،ان تقولوانماانزل الکتاب علیٰ طائفتین من قبلناوان کناعن دراستھم لغٰفلین،اوتقولولواناانزل علیناالکتاب لکنااھدیٰ منھم فقدجاء کم بینۃ من ربکم ورحمۃ‘‘۔مفہوم،اس کتاب کے نزول کے بعدتمہارے پاس یہ کہنے کاموقعہ نہیں رہاکہ پہلی آسمانی کتابیں توہم سے پہلے کی دوقوموں پرنازل ہوئیں،اس لئے ہم اس کے مکلف نہیں اورماخوذنہیں ہوسکتے۔خداکی حجت،اس کی روشن کتاب اوررحمت عامہ کی بارش اتاردی گئی ہے،اس سے مستفیدہوجاؤ۔

قرآن سے اعراض کرنے والوں کیلئے وعید
اس ذکر(قرآن)سے اعراض کرنے والوں کو سخت تنبیہ فرمائی۔ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکاونحشرہٗ یوم القیٰمۃ اعمیٰ،قال رب لم حشرتنی اعمیٰ وقدکنت بصیرا،قال کذالک اتتک آیاتنافنسیتھا،وکذالک الیوم تنسیٰ۔ جس نے میر ے ذکر(قرآن )سے اعراض کیااس کے لئے زندگی تنگ ہوجائے گی اورہم اسے قیامت کے دن نابینابناکراٹھائیں گے وہ کہے گایااللہ میں توآنکھ والاتھا،مجھے اندھاکیوں کردیا،ارشادہوگاکہ ایسااس لئے ہواکہ تیرے پاس میری آیتیں آئیں اورتونے اسے بھلادیا،توآج توبھی اسی طرح بھلادیاجائے گا(یعنی تیری کوئی اعانت نہیں ہوگی)۔اب ہم خوداپناتجزیہ کریں کہ کیاہم اس وعیدکے مستحق نہیں بن رہے ہیں ؟۔

قرآن مجیدکوچھوڑی ہوئی کتاب بنادینے پرتنبیہ
رحمۃللعالمینﷺ،حق تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کریں گے یٰر ب ان قومی اتخذواھٰذاالقرآن مھجورا۔پروردگار!میری قوم نے اس قرآن کوچھوڑی ہوئی کتا ب بنادیاتھا۔

نیزفرمایا’من تعلم القرآن وغلق مصحفہٗ لم یتعاھدہ ولم ینظرفیہ جاء یوم القیٰمۃ متعلقابہ یقول یارب العالمین ان عبدک ھٰذااتخذنی مھجورافاقض بینی وبینہٗ(قرطبی)جس نے قرآن سیکھاپھراس کوبندکرکے گھرمیں معلق رکھدیا،نہ اس کی تلاوت کی پابندی کی، نہ اس کے احکام میں تدبرکرکے زندگی کالائحہ عمل بنایا،قیامت کے روزوہ(قرآن مجید)اس کے گلے میں پڑاہواآئے گااورشکایت کرے گاکہ آپ کے اس بندہ نے مجھے چھوڑدیاتھا،اب آپ میرے اوراس کے درمیان فیصلہ کردیجئے۔ غورکیجئے !قرآن اورحامل قرآنﷺکی شکایتوں کے سامنے ہم کیاجواب دیں گے؟اوررحمۃ للعالمینﷺ کی اس دردکے ساتھ شکایت کے بعدبھی ہماری ہلاکت کے لئے کچھ باقی رہ جائے گا؟ ۔

قرآ ن کودنیاکمانے کاذریعہ بنانے کاعذاب
حضرت بریدہؓ سے مروی ہے کہ قال رسول اللہﷺ من قرء القرآن یتاکل بہ الناس جاء یوم القیٰمۃووجھہ عظیم لیس علیہ لحم(رواہ البیھقی فی شعب الایمان) جس نے قرآن کولوگوں سے کھانے کاذریعہ بنایاوہ قیامت کے د ن اس حال میں آئے گاکہ اس کے چہرہ پرصرف ہڈیاں ہی ہو ں گی جس پرگوشت نہیں ہوگا۔یعنی جب اس نے اشرف چیزکوذلیل چیزحاصل کرنے کاذریعہ بنایاتواس کے اشرف الاعضاء کوبھی رونق سے محروم کرکے اسے ذلیل کیاجائے گا۔

قرآن مجیدکے حقوق
قرآن مجیدکاحق یہ ہے کہ اس نعمت عظمیٰ کی قدرکی جائے۔یہ احکم الحاکمین کاکلام ہے،سلطان السلاطین کافرمان ہے ، بادشاہوں کے بادشاہ کادستورہے ۔اسی کے ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ یہ محبوب کاکلام ہے جواپنے بندوں سے ماں باپ کے مقابلہ میں بھی بہت زیادہ محبت کرتاہے اورمحبو ب کے کلام کے ساتھ جووارفتگی اورشگفتگی ہونی چاہئے وہ ظاہرہے۔اس لئے دونوں چیزیں ملحوظ رہنی چاہئیں۔نیز ظاہری پاکی کے ساتھ باطنی طہارت کا بھی خیال ہو،لایمسہٗ الاالمطھرون میں اسی بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔اس کی عظمت وکبریائی دل میں ہو،معانی کے تدبرکے ساتھ تلاوت کی جائے توزیادہ مفیدہوگا،دل کوآیات کاتابع بنایاجائے۔انماالمومنون الذین اذاذکراللہ علیھم وجلت قلوبھم واذاتلیت علیھم آیاتہٗ زادتھم ایمانا۔ جب اہل ایمان کے سامنے اللہ کاذکر ہوتاہے توان کے دل لرزجاتے ہیں اورجب اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں توان کا ’ایمان‘ بڑھ جاتاہے۔ ایمان بڑھنے کامطلب یہ کہ اس کے اثرات دل پرجالگتے ہیں اوریقین میں اضافہ ہوتاجاتاہے۔اس لئے یہ ملحوظ رہے کہ اگرآیات رحمت کی تلاوت ہوتودل سرورمحسوس کرے،وارفتگی اورشگفتگی کااحساس ہواورآیات وعیدکی تلاوت سے دل لرزجائے ،آنکھوں سے آنسونکل پڑیں۔کیونکہ
’’الذحالات الغرام لمغرم شکوی الھویٰ بالدمع المھراق‘‘
’’کسی عاشق کے لئے سب سے زیادہ لذت کی بات یہ ہے کہ محبت کاشکوہ ہورہاہو،اس طرح کے آنکھو ں سے آنسو جاری ہوں‘‘۔

تلاوت آیات کی اپنی مستقل اہمیت ہے
جس آیت میں آپﷺکی بعثت کے مقاصدبیان کئے گئے ہیں اس میں سب سے پہلامقصدبیان کیاگیا’یتلوعلیھم آیاتہٗ،اس آیت میں تلاوت کومستقل مقصدبتایاگیاہے،اس لئے کہ جس طرح معانی مقصودہیں،الفاظ بھی مقصودہیں۔اسی لئے صحابہؓ نے رسولﷺسے معانی کاعلم حاصل کرنے کے باوجودتلاوت آیات کوحرزجان بنائے رکھاتھا،خودنبیﷺبھی جبرئیل امینؑ کے ساتھ رمضان میں اس کادورفرماتے تھے۔لہٰذاتلاوت بھی بجائے خودایک اعلیٰ عبادت اورموجب انواروبرکات اورسرمایہ سعادت ہے۔احادیث میں کثرت سے اس کی فضیلتیں واردہوئی ہیں۔

قرآن مجیدمیں انہماک زندگی کاسب سے بہترین مصرف
اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے اہم صفت رحمٰن سے سورہ رحمٰن کی ابتدا ء فرمانے کے بعداپنی سب سے عظیم نعمت علم قرآن کوبیان فرمایا۔اس کے بعدتخلیق انسان کاتذکرہ فرمایا،پھرقوت گویائی کابطوراحسان ذکرفرمایا۔سورہ رحمٰن کی ان ابتدائی چارآیتوں اوران کی ترتیب پرغورکرنے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ انسان کوتعلم کی جواستعداد اوربیان کی جوصلاحیت دی گئی ہے ، اس کاصحیح مصرف یہ ہے کہ وہ تعلم قرآن اورتعلیم قرآن میں صرف ہو۔قوت حافظہ کوحفظ قرآن میں ،قوت گویائی کوتلاوت قرآن اورتعلیم قرآن میں،قوت ادراکیہ کوفہم مضامین میں اورقوت ارادیہ کواتباع حق میں صرف کیاجائے۔ اگرمسلمان کی زندگی میںیہ قرآن آ گیا تووہ ، اپنے مقصدتخلیق میں کامیاب ہے۔اوردوسروں سے بدرجہابہترہے ۔اسی کومہبط وحی ﷺنے اپنے جامع الفاظ میں یوں بیان فرمایا’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ(بخاری ج۲،ص۷۵۲،حدیث نمبر۴۸۳۶)تم میں سب سے بہتروہ ہے جوقرآن سیکھے اوراسے سکھائے ،یو ں بھی فرمایاکہ جس نے قرآن مجیدسیکھاپھراس نے ،اس شخص کو،جسے کوئی اورچیزعطاکی گئی ہواسے اپنے سے افضل سمجھاتواس نے حق تعالیٰ کے اس انعام کی تحقیرکی ۔

قرآن مجید فلاح انسانیت اورکامیابی وکامرانی کاآج بھی ضامن
تاریخ شاہدہے کہ جب تک مسلمانوں کے قلوب وحی ربانی سے لبریزرہے،اقوام عالم نے انہیں دبانابھی چاہالیکن وہ اوراوپرکواٹھتے رہے اوراقوام عالم کی کامیاب قیادت ہی نہیں ،ان پرتاریخی حکمرانی کی اورجب مسلمانوں سے یہ روح ختم ہوئی توانہیں اس طرح دبادیاگیاکہ اٹھنے کی سکت باقی نہیں رہی ۔آج امت مسلمہ کی حالت زارکابنیادی سبب یہی ہے۔حالانکہ رسولﷺ نے اپنی امت کواس مرکزرشدوہدایت کوتھامے رہنے کی واضح ہدایت فرمائی تھی ۔یاایھاالناس انی تارک فیکم ماان اعتصمتم بہ لن تضلوابدا،کتاب اللہ وسنتہ رسولہ(کنزالعمال ج ۱،ص۱۸۷)،دوسری جگہ فرمایاترکت فیکم امرین لن تضلوبہ ماتمسکتم بھما،کتاب اللہ وسنتہ رسولہ(موطاامام مالک،مشکوٰۃ ص۳۱) میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جاتاہوں تم گمراہ نہیں ہوسکتے جب تک کہ اس کوپکڑے رہووہ کتاب اللہ اورمیری سنت ہے۔اسی مضمون کی طرف قرآن رہنمائی کرتاہے واعتصموابحبل اللہ جمیعاولاتفرقو۔اللہ کی رسی کومضبوطی سے سب مل کرتھامے رہو۔آیت کریمہ میں مذکور’’حبل اللہ‘‘ یعنی اللہ کی رسی کی تفسیرحضرت علیؓ سے یوں مروی ہے ’’حبل اللہ ھوالقرآن یعنی حبل اللہ سے مرادقرآن مقدس ہے‘‘(ترمذی ج۲،ص۱۱۴،مشکوٰۃص۱۸۶)۔

خداوندقدوس نے تواپنے اس کلام میں ہرراستہ کھول کھول کربیان کردیاہے اورکامیاب زندگی گذارنے کے لئے واضح اورروشن ہدایات اپنے بندوں کودے دیئے ہیں ۔لقدجاء کم من اللہ نوروکتاب مبین یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام ویخرجھم من الظلمات الی النورویھدیھم الی صراط مستقیم یعنی اللہ کی طرف سے روشنی اورواضح کتاب آئی ہے اس کے ذریعہ اللہ ہدایت سے سرفرازفرماتاہے یہ وہ کلام ہے جوانسان کے معاش ومعاداوردین ودنیاکی خیرات کاجامع ہے۔

قرآن مجیدکوکہیں روح کے لفظ سے تعبیرکیاگیاوکذالک اوحیناالیک روحامن امرنا یعنی جس طرح روح جسم میں جب تک موجودرہتی ہے اس وقت تک وہ زندہ کہلاتاہے اورروح کے نکل جانے کے بعد کسی کام کانہیں رہتا۔یہ قرآنی روح جب تک ہم میں رہے گی اوراس حبل متین سے وابستہ رہیں گے اس وقت تک زندہ قوم کی حیثیت سے زندگی گذارسکیں گے اورجب یہ روح ختم ہوجائے گی توبے جان مردہ کی طرح غیروں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔جوپتہ شجرسے ٹوٹتاہے ،بربادہوتاہے۔

مسلمانوں کے پاس یہ وہ عظیم نسخہ کیمیاہے جوکسی قوم کے پاس نہیں،اسی لئے ہمارایہ واضح موقف ہوناچاہئے کہ ہم ساری دنیاکی قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں،اوربغیرقرآن کے مسلمانوں کے لئے حکومت وثروت اورمادی طاقت کاحصول کچھ بھی نہیں ہے۔اگرہم نے اس سے اپنے رشتہ کوتوڑااوراعتصام بحبل اللہ سے روگردانی کی توپھرہم اپنے گمان میں کتنی ہی ترقی کرلیں پھربھی یہ سب ہمارے کچھ کام کے نہیں۔
ترے ضمیرپہ جب تک نہ ہونزول کتاب گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

حضرت امام مالک کاقول ہے’’ لایصلح آخرھٰذہ الامۃ الابماصلح بہ اولھا’’اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح اسی سے ہوسکتی ہے جس سے اس کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے‘‘۔ خاص طورپرعہدحاضرمیں جب کہ ہرطرف بدامنی پھیلی ہوئی ہے،قرآن کے پیغام کوعام کرنے کی ضرورت ہے اوریہ جب ہوگاجب کہ ہم اپنی عملی زندگی میں اسے داخل کریں گے اس کونمونہ ہدایت اورترقی کامرکزسمجھیں گے تاکہ دوسروں سے کسی تہذیب اوردستورکی بھیک مانگنے سے بچ جائیں۔ افسوس اس بات پرہے کہ ایسی عظیم نعمت کے پاس رہنے کے باوجودہم دنیاسے تہذیب وتمدن کی بھیک مانگ رہے ہیں،معطی بننے کی بجائے سائل بن گئے، ہمارے پاس اتناعظیم سرمایہ تھا،پھربھی دوسرو ں کے دست نگربن گئے۔
نشان راہ دکھاتے تھے جوستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مردرا ہ داں کیلئے

اسی قرآن کے ماننے والوں نے توعرب کے بدؤں کوعلم وکمال کے ساتھ نظام مملکت چلاناسکھایاتھا،یورپ کے باشندوں کو سیاست کے گن سکھائے ، قیصر کے تاج وتخت کواچھالااورکسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں ڈالے۔یہ قرآن پستی کی طرف نہیں لے جاتابلکہ ترفع اوربلندی کی راہ ہموارکرتاہے ۔خودشارح قرآن مہبط وحی کاقول صادق ہے۔ان اللہ لایرفع بھٰذاالکتاب اقواماََویضع بہ آخرین(مسلم شریف ص۲۷۲) یعنی اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ قوموں کوبلندکرتاہے اورجوحق بات کوسمجھنے کے لئے تیارنہیں ہوتے،انہیں پست وذلیل کردیتاہے۔یضل بہ کثیراویھدی بہ کثیرا۔
اس کے الطاف توہیں عام شہیدی سب پر تجھ کو کیاضدتھی ،توبھی کسی قابل ہوتا
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 33402 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.