الردت عن دین اللہ، ولعیاذ باللہ، نواقض الاسلام - قسط 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اب ہم دین کے ایک بہت ہی اہم عنصر یعنی اعمال کے باطل کرنے والی چیزوں کو سیکھنے کی کوشش کریں گے. اعمال دو طرح کے ہیں.

1. اعمال صالحہ یعنی نیک اور اچھے اعمال اور 2. اعمال فاسدہ یعنی برے اور رد کیے ہوۓ اعمال. عام طور پر، اللہ کے نزدیک کسی بھی طرح کے اعمال کے قبول ہونے کی دو شرطیں ہیں.

1. وہ عمل اخلاص و توحید پر کیا جاۓ
2. وہ عمل اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کیا جاۓ

‏(لیکن یاد رہے کہ ہر عمل یا عبادت کی اپنی شرائط بھی ہیں جو اس عمل کے ساتھ مخصوص ہیں یہاں وہ مراد نہیں بلکہ یہاں پر عام طور پر ہر عمل کی دو مخصوص شرائط مراد ہیں)

اعمال کے باطل ہونے کو عربی میں الردت عن دین اللہ، ولعیاذ باللہ، کہتے ہیں.

الردت یعنی وہ بد عقیدگیاں کے جس سے اسلام قبول کرنے کے بعد یا بچپن سے مسلمان ہونے کے باوجود ایسا قول یا عمل یا ایسا عقیدہ رکھ لیا جاۓ جس سے ایک شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاۓ. اسے مرتد بھی کہا جاتا ہے. اس کو نواقض الاسلام بھی کہتے ہیں. فقہ کی کتب میں جب حدود اور تعزیرات پر بات ہوتی ہے تو اس میں مرتد کی سزا، یعنی اس کے قتل کیے جانے پر، اکثر ایک باب باندہ جاتا ہے:

.الردت عن دین اللہ"، ولعیاذ باللہ"

علماء نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے اس ذمن میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے دس نواقض الاسلام کو بیان کیا، جو دیگر علماء کے بیان سے کدرے آسان ہے، جو ایک صفحہ پر بھی آسکتے ہیں اور ایک مسلمان یا طالب العلم کے لیے یاد رکھنا اور ذہن نشین کرنا نصبتا ان شاء اللہ بہت آسان ہے.

‏1. شرک باللہ
‏2. اللہ اور مخلوق کے درمیان سفارشی ڈھونڈنا اور ان کو معبود بنا لینا
‏3. شعائر اسلام یا دین کے جز کو گالی دینا
‏4. شعائر اسلام یا دین کے کسی جز کا مزاق اڑانا
‏5. جانتے بوجھتے دین یا دین کے کسی جز سے بغز و نفرت کرنا

ہم اب ان دس نقاط میں سے پہلے پانچ کو قسط 1 میں دلائل کے ساتھ بیان کریں گے، ان شاء اللہ، جو مندرجہ ذیل ہیں:

نواقض الاسلام کا سب سے پہلا جز شرک باللہ ہے. یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے اعمال باطل ہوجاتے ہیں. خاص طور پر عبادت میں شریک کرنا.جیسا کہ اللہ نے فرمایا:

"ان اعبد اللہ ما لکم من الہ غیرہ"

اس کا مفہوم: کہ اللہ کی عبادت کرو اور اسکے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں بناؤ.

اور لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوۓ فرمایا:

"ان الشرک لظلم عظیم"

اس کا مفہوم: بے شک شرک ایک عظیم ظلم ہے

(حوالہ: سورۃ لقمان سورۃ نمبر: 31 آیت نمبر: 13)

اسی طرح اللہ نے فرمایا:

إِنَّهُ مَن يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّ‌مَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ‌ ۖ

مفہوم:

بے شک جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرے گا، اللہ اس پر جنت کو حرام کرچکا ہے اور اسکا ٹھکانا جہنم ہے.."

(سورۃ المائدۃ 72)

اور فرمایا:

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿٨٤﴾ وَزَكَرِ‌يَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿٨٥﴾ وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٨٦﴾ وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّ‌يَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٨٧﴾ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّـهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَ‌كُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

مفہوم:

اور اگر وہ لوگ (مثال کے طور پر انبیاء کرام بھی) شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہوجاتے

(سورۃ الانعام آیت 88)

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَ‌كْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ

بلکہ خود افضل البشر، سید الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مخاطب کر کے یہی فرمایا دیکھیں سورۃ الزمر آیت 65

ردت یا نواقض الاسلام کا دوسرا نقطہ یہ ہے کہ اللہ اور مخلوقات کے درمیان ایسے سفارشی ڈھونڈنا کہ ان کو معبود بنا لینا. اور اس غلو کو یہ سمجھنا کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں گے. اس کی مثال یہ ہے کہ نوح علیہ سلام کی وفات کے بعد شیطان نے لوگوں کو گمراہ کر دیا کہ اپنے بزرگوں کی تصویریں بناؤ پھر علم جاتا رہا اور انہوں نے ان بزرگوں کی قبروں کو وسیلہ بنا لیا اور انکی عبادت ہی شروع کر دی

(صحیح بخاری تفسیر سورۃ نوح)

افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ گمراہی ہم میں موجود ہے. اور کئ لوگ شفاعت و وسیلہ کے نام پر اس شرک میں مبتلا ہیں جبکہ انکا کہنا ہے کہ انکو منع کرنے والے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے منکر ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے نبی اکرم ایک نہیں بلکہ آٹھ طرح کی شفاعت فرمائیں گے جس کو ہم نے پہلے تفصیلا یہاں بیان کیا تھا:

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=49843

اللہ ہمیں ردت یا نواقض الاسلام کے اس جز کو سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ، اور اس سے محفوظ رکھے، آمین

نواقض الاسلام یا ردت کا جز تین اور چار: اگر کوئ شخص، ولعیاذ باللہ، دین کو یا دین کے کسی جز کو یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا اللہ عزوجل کو گالی دے یا ان میں سے کسی کا یا قرآن مجدید کا مزاق و استہزا اڑاتا ہے تو یہ عمل بھی ردت کا عمل ہے.اسکی دلیل، مفہوم: جنگ تبوک کے موقع پر راستہ میں جہاد کے لیے جاتے ہوۓ ایک منافق نے کہا کہ ہمارے قرآء لوگ بڑے پیٹو بڑے لباڑ اور بزدل ہیں. ایک صحابی نے یہ سن لیا اور یہ بتانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گۓ مگر اس سے پہلے ہی (ان کے کفر واستہزا اور بہانوں پر) وحی نازل ہوئ:

قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَ‌سُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُ‌وا قَدْ كَفَرْ‌تُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ

اسکا مفہوم: کہ دیجۓ کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اسکا رسول ہی تمہارے لیے ہنسی مذاق کے لیے رہ گۓ ہیں؟ تم بہانے نہ بناؤ بے شک تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا.." سورۃ توبہ آیت 65،66

(حوالہ:الطبری جلد 14 صفحہ 333، اگر چہ یہ روایت مرسل ہے دیکھیں تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 581 مترجم مکتبہ اسلامیہ)

پانچواں جز نواقض الاسلام یا ردت کے حوالہ سے دین یا دین کے کسی جز سے بغض و نفرت کرنا ہے. مثلا داڑھی سے نفرت وبغض کرنا، یہ عمل ردت ہے. داڑھی والے شخص سے بے وجہ نفرت کرنا حرام و کبیرہ گناہ ہے مگر کفر نہیں. اسی طرح بے وجہ ایک عورت سے نفرت کرنا حرام وکبیرہ گناہ ہے مگر ایک مسلمان عورت کے حجاب و پردہ سے نفرت کرنا یا کہنا کہ یہ کیا مصیبت ہے، ولعیاذ باللہ، یہ عمل ردت ہے اور دائرہ اسلام سے خارج کرنا کا باعث ہے.

اسکی دلیل، ان شاء اللہ، کچھ یوں ہے:

أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ﴿٢٤﴾ إِنَّ الَّذِينَ ارْ‌تَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِ‌هِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ ﴿٢٥﴾ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِ‌هُوا مَا نَزَّلَ اللَّـهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ‌ ۖ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِسْرَ‌ارَ‌هُمْ ﴿٢٦﴾ فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِ‌بُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَ‌هُمْ ﴿٢٧﴾ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّـهَ وَكَرِ‌هُوا رِ‌ضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ ﴿٢٨﴾

سورۃ محمد میں اللہ نے فرمایا کہ یہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے؟ اور یہ اپنی پیٹھ کے بل اٹھاۓ جائیں گے.. اور فرشتے انکی روح قبض کرتے وقت انکے چہروں اور پیٹھوں پر ضرب لگائیں گے.، پھر فرمایا، مفہوم:

یہ اس بنا پر کے یہ وہ راہ چلے جس سے انہوں نے اللہ کو ناراض کر دیا اور انہوں نے اسکی رضامندی کو برا جانا، تو اللہ نے انکے اعمال اکارت کر دیے.

(سورۃ محمد:47 آیت نمبر: 28)

تفصیل، ان شاء اللہ، جاری ہے
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 412504 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.