ایماندار مافیہ

اس ملک میں عام آدمی اور اشرافیہ کے ایمانداری کے معیار بھی بہت مختلف ہیں۔ میرے ایک جاننے والے مرحوم کسی زمانے میں لاہور میں ایڈیشنل سیشن جج تھے۔ انتہائی متقی، پرہیزگار اور صحیح معنوں میں شریف آدمی۔ ان کی لاہور میں تعیناتی پر وکلاء کہتے کہ حکومت نے لاہور کی عدالت میں طالبان لگا دئیے ہیں مگر ان کی عدالت میں بھی سب کچھ ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ فیصلے بھی لوگ اپنی مرضی کے لے لیتے تھے اور یہ سب کمال ان کے ریڈر کا ہوتا تھا۔ ایک دن میں نے ان سے شکایت کے لہجے میں کہا کہ ریڈر کو کنٹرول کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ بڑی سنجیدگی سے جواب دیا اس کی قبر اپنی ہے اور میری اپنی۔ میں اگر اسے روکوں گا تو کوئی ریڈر میرے ساتھ کام نہیں کرے گا۔ میں کیوں بدنامی اپنے سر لوں۔ بس میں کوئی جوڑ توڑ نہیں کرتا۔ اس سے زیادہ کا مجھ سے کوئی واسطہ یاتعلق نہیں مگر ایسی کمزور ایمانداری کو میں نے کبھی ایمانداری نہیں سمجھا۔

میرے والدسرکاری ملازم تھے۔ ان کے ساتھ کسی محکمے میں ایک انجئینئر ہوتے تھے شاید ڈائریکٹر تھے ۔انتہائی پابند صوم و صلوٰۃ۔ دفتر آتے ہی تھوڑی دیر میں مصلےٰ پر بیٹھ جاتے اور صبح نو بجے سے چھٹی تک و قفے وقفے سے نماز پڑھ رہے ہوتے۔ اوور سیئر اور ٹھیکیدار آتے، بل اور دوسرے کاغذات میز پر رکھ دیتے اور پیسے ان کے مصلیٰ کے نیچے۔ کسی کو جلدی ہوتی تو نعرہ بھی لگا جاتا کہ بل جلدی کر دیں۔ موصوف اطمینان سے اٹھتے، دروازے کو کنڈی لگاتے، پیسے نکالتے، گنتے۔ یہ بھی دیکھ لیتے کہ نشان زدہ تو نہیں ہیں۔ بڑے سکون سے پیسے کسی کونے میں چھپا دیتے۔ بل اور کاغذات پر دستخط کرتے اور میز ہی پر چھوڑ کر دروازہ کھولتے اور دوبارہ نماز شروع کر دیتے۔ دروازہ کے کھلنے کی آواز سن کر لوگ آہستہ سے اندر آتے اور اپنے اپنے بل اٹھا کر لے جاتے۔ انہیں کہا جاتا تو کہتے کہ میں تو کچھ نہیں لیتا۔ یہ تو مجبوری ہے پیسے اس عہدے کے لئے ضروری ہیں۔ اگر یہ ڈائریکٹر وصول نہ کرے تو ضائع ہو جائیں گے یا ماتحت عملہ کھا جائے گا۔ ٹھیکیدار اور متعلقہ عملے نے جو ہیرا پھیری کرنی ہے وہ کر چکے اب میں یہ پیسے ان کو چھوڑ کر میں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتا۔ یہ مجبوری کی ً ایمانداری ہمارے معاشرے کی اشرافیہ میں بہت عام ہے۔

میں اور میرا ایک دوست پہلے اکٹھے پڑھتے رہے اور پھر اکٹھے پڑھاتے بھی رہے۔ وہ بہت محنتی تھا۔ کالج کے بعد کئی گھنٹے ٹیوشن پڑھاتا۔ پتہ نہیں کیا خیال آیا مقابلے کے امتحان میں بیٹھ گیا اور ماتحت عدلیہ میں سول جج ہو گیا۔ دورانِ ٹریننگ تو بہت پریشان رہا۔ تنخواہ پہلے سے کم ہو گئی تھی اور ٹیوشن بالکل ختم۔ وہ کافی افسردہ تھا مگر جب باقاعدہ ڈیوٹی پر گیا تو اس کی طبیعت بحال تھی۔ میں نے ایک دن از راہِ مذاق پوچھا کہ لگتا ہے آمدن ہونا شروع ہو گئی ہے کیونکہ وہ پریشانی جو کئی ماہ تمہارے چہرے پر ٹپکتی رہی ہے یکایک ختم ہو گئی ہے بہت سنجیدہ ہو کر کہنے لگا میں ایماندار آدمی ہوں۔ اور بحیثیت جج ایماندار ہی رہوں گا ۔مگر گزارہ اب کیسے ہو رہا ہے؟ جواب ملا میرا ریڈر کرپٹ ہے۔ سارا دن جو کماتا ہے اس میں سے میرے گھر کے اخراجات بھی پورے کرتا ہے اور اگر میری بیگم کو بھی پیسوں کی چھوٹی موٹی ضرورت ہو تو پوری کر دیتا ہے۔ یہ یہاں کا کلچر ہے جو میں نہیں بدل سکتا بس خود کو آلودہ نہیں کرتا۔ یہ ہماری اشرافیہ کی کلچرل ایمانداری ہے جسے واقعی بدلا نہیں جا سکتا۔

پچھلے چند سال ملک ایک نئے تجربے سے دو چار رہا۔ فوجی آمریت اور سیاسی آمریت کے بعد عدالتی آمریت بھی ان سالوں میں اس ملک کا مقدر رہی۔ جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری جس انداز میں عوامی حمایت کے بل بوتے پر بحال ہوئے اس نے انہیں بے پناہ طاقت بخشی۔ ان کی اس طاقت کا ان کے بیٹے نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا مگر یہ فائدہ تو ان کے بیٹے نے اٹھایا ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ڈھکی چھپی ایمانداری ہے اور یہی ہماری اشرافیہ میں موجود زیادہ تر ایمانداروں کا وصف ہے۔

ان ساری باتوں کے ساتھ ساتھ ہماری اشرافیہ میں ایک ایماندار مافیہ بھی موجود ہے جو ابتلا میں ایک دوسرے کا ڈٹ کر ساتھ دیتا ہے کہ کسی کو ان کی ایمانداری پر شبہ بھی نہ ہو اور سب کا کام بھی چلتا رہے۔ جسٹس افتخار کے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف جب بہت سے الزامات سامنے آئے اور نیب نے تحقیقات کا آغاز کیا تو اس ایماندار مافیہ کو پتہ تھا کہ جب کوئی شخص نیب کے ہتھے چڑھ جائے تو چاہے وہ ایماندار ہی کیوں نہ ہو نیب والے اس کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں اور کرپٹ اور بے ایمان تو……………… ارسلان افتخار کو نیب سے بچانے کے لئے ایک اور ایماندار جج نے ایک ایماندار پولیس افسر جس کی عوام میں دیانت اور امانت شک و شبہ سے بالاتر سمجھی جاتی ہے، کو انکوائری افسر مقرر کیا اور نیب کو انکوائری کی رپورٹ تک کسی بھی کارروائی سے روک دیا۔ انکوائری رپورٹ امید کے مطابق ہی آئی۔یہی اس ایماندار مافیہ کا کمال ہے۔ ارسلان افتخار کی اربوں کی کمائی جائز قرار دے دی گئی۔ ایماندار جج کے ایماندار بیٹے کو ایک ایماندار جج اور ایماندار پولیس افسر نے کلیئر کر دیا۔ نیب منہ دیکھتی رہ گئی۔ ویسے بھی نیب کمزوروں یا حکومت مخالفوں کے لئے ہے احتساب کے لئے نہیں۔ اس ملک کی موجودہ صورتحال میں احتساب ممکن ہی نہیں۔

جس ایماندار پولیس افسر نے ارسلان افتخار کی مدد کی، ان کی شک و شبہ سے بالاتر ایمانداری بھی سن لیں۔ انٹیلی جنس بیورو (I.B) میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ایک سو بیس (120) نوجوانوں کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی کیا گیا۔ 1998؁ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ان کی ملازمت کو سیاسی قرار دے کر انہیں فارغ کر دیا۔ حالانکہ وہ سب میرٹ پر بھرتی ہوئے تھے۔ مجبوراً وہ لوگ کورٹ میں چلے گئے۔ چند سال بعد کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا اور انہیں تمام مراعات سمیت بحال کر دیا اور پرانی تاریخ میں ترقی کا بھی حق دار قرار دیا۔ ایک سو بیس میں سے ستر کے قریب لوگ کورٹ کی سست روی کے باعث دوسرے محکموں میں کھپ چکے تھے ۔ صرف پچاس نے دوبارہ جائن کیا۔ ان جائن کرنے والوں میں ہمارے ایماندار پولیس افسر کا بھتیجا بھی تھا۔ جائن کرنے والے پچاس لوگ گریڈ سترہ میں ابھی تک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہی ہیں۔ کورٹ کے فیصلے کے باوجود کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں مگر بھتیجا صاحب واحد آدمی ہیں کہ جنہیں ایماندار مافیہ کے رکن چچا کی بدولت گریڈ 19 مل چکا ہے اور وہ ڈیپوٹیشن پر ایک دوسرے محکمے میں گریڈ 20 لے کر سربراہی کے مزے لے رہے ہیں۔ باقی تمام کا تعلق چونکہ اشرافیہ سے نہیں عوام سے ہے اور ان کے کسی رشتہ دار کا تعلق ایماندار مافیہ سے بھی نہیں ، اس لئے ان کی قسمت میں خواری ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک اس ملک میں اس نام نہاداشرافیہ اورا یماندار مافیہ کا راج ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443268 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More