عوام کبھی جھوٹ نہیں بولتے

برطانیہ کی تاریخ میں یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، پچھلی تین سو سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی اسپیکر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا ہو، لیکن21جون 2009ء کو برطانوی پارلیمانی تاریخ کی تین سو سالہ روایت اس وقت ٹوٹ گئی جب مائیکل مارٹن کو پارلیمنٹ پر عوام کے اعتماد کو متزلزل ہونے سے بچانے کے لئے اسپیکر کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، مائیکل مارٹن پچھلے تیس سالوں سے برطانوی پارلیمنٹ کا ا سپیکرچلا آرہا تھا، حیران نہ ہوئیے کیونکہ برطانیہ دنیا کا وہ ملک ہے جہاں اسپیکر تا زندگی اپنے عہدے پر فائز رہتا ہے، وہ اپنے حلقہ انتخاب سے بلامقابلہ منتخب ہوتا ہے اور کوئی سیاسی جماعت اس کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتی، کیونکہ یہ اس عہدے کے غیر جانبدار ہونے کا ایک ثبوت ہے۔

قارئین محترم اسپیکر کا جرم کیا تھا جس نے اس کی تیس سالہ دیانت، ایمانداری اور غیر جانبداری پر پانی پھیر دیا، کیا مائیکل مارٹن لوٹ مار، کرپشن اور ناجائز ذرائع سے مال و دولت بنانے میں ملوث تھا، یا کسی بدکرداری نے اس کے دامن کو داغدار کردیا تھا، در حقیقت ایسا کچھ بھی نہیں تھا، مائیکل مارٹن کے استعفیٰ کی وجہ لوٹ مار، کرپشن یا بدکرداری نہیں بلکہ وہ پارلیمانی اسکینڈل ہے جسے برطانوی وزیراعظم گورڈن براﺅن نے پچھلی دو صدیوں کا سب سے بڑا پارلیمانی اسیکنڈل قرار دیا ہے اور جس میں برطانوی اراکین پارلیمنٹ پر الزام ہے کہ انہوں نے ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی کمائی کا غلط استعمال کیا ہے، گو کہ اسپیکر مائیکل مارٹن خود اس جرم میں ملوث نہیں تھا لیکن اسے اراکین پارلیمنٹ کے ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی کمائی کے غلط استعمال اور اس غفلت کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا تھا، چنانچہ مائیکل مارٹن نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے اپنے اس عہدے سے مستعفی ہوجانا بہتر سمجھا جس پر وہ گزشتہ تیس سال سے فائز تھا اور یوں اسے دوسرے ارکان پارلیمنٹ کی غلطیوں کی سزا بھگتنا پڑی۔

یہاں یہ امر پیش نظر رہے کہ برطانوی اراکین پارلیمنٹ کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے حاصل مراعات کا غلط استعمال کیا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی اور باغبانی کی مد میں ضرورت سے زائد اخراجات کئے ہیں، جبکہ برطانیہ میں رکن پارلیمنٹ کے لئے گرین بک میں اس طرح کے الاﺅنس اور اخراجات کے حوالے سے کوئی حد مقرر نہیں ہے، جس کی وجہ سے صفائی ستھرائی اور باغبانی کی مد میں زیادہ رقم وصول کر کے اراکین کسی ملکی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں اخلاقی قدریں ہی آئین کا درجہ رکھتی ہیں، انہیں اس قدر زبردست عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا کہ احساس ندامت میں نہ صرف وزراء نے اپنے استعفے دے دئیے بلکہ ایک سو سے زائد اراکین اسمبلی بھی آئندہ الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔

یہ دنیا کی وہ پارلیمنٹ ہے جس نے اخلاقی روایات کو مقدم جانتے ہوئے کسی قانون اور کسی آئینی ترمیم کا سہارا لینے کی بجائے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کی، جبکہ یہ کوئی اتنا بڑا مالیاتی اسیکنڈل بھی نہیں تھا کہ جس میں اربوں، کھربوں کا فراڈ کیا گیا ہو، مگر پھر بھی برطانوی وزیراعظم گورڈن براﺅن نے زائد اخراجات کے اسیکنڈل کے سامنے آتے ہی ایک آزاد آڈیٹر کا تقرر کیا، جس کی سفارشات پر طے ہوا کہ وہ تمام اراکین پارلیمنٹ جنہوں نے اپنے گھروں کی صفائی کی مد میں دو ہزار پاﺅنڈ سالانہ اور باغبانی کی مدد میں ایک ہزار پاﺅنڈ سالانہ سے زائد کے اخراجات کیے ہیں، وہ یہ تمام اضافی رقم واپس قومی خزانے میں جمع کروائیں گے۔

چنانچہ ان سفارشات کا شکار قائد حزب اختلاف ڈیوڈ کیمرون، بچوں کی نگہداشت کے وزیر ای ڈی بالز اور خود وزیراعظم گورڈن براﺅن بھی ہوئے اور انہیں بالترتیب دو سو انیس پاﺅنڈ، تیرہ پاﺅنڈ اور بارہ ہزار چار سو پندرہ پاﺅنڈ کی رقوم قومی خزانے میں واپس جمع کرانی پڑی، قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک آزاد پارلیمانی اسٹینڈرڈ اتھارٹی کے تحت جو کمیٹی قائم کی گئی اس کی سفارشات کو جس کے مطابق” آئندہ کوئی رکن پارلیمنٹ اپنے گھروں کے لئے صفائی، باغبانی اور تزئین و آرائش کے اخراجات کو کلیم ہی نہیں کر سکے گا“کو برطانیہ کی تینوں بڑی جماعتوں کے سربراہان گورڈن براﺅن، ٹوری پارٹی کے ڈیوڈ کیمرون اور لبرل ڈیموکریٹس کے نک لیگ نے خوشدلی قبول کیا۔

قارئین محترم یہ تھا وہ پارلیمانی اسیکنڈل، جس میں کوئی اربوں اور کھربوں ڈالر کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ ایک ملین پاﺅنڈ سے بھی کم کے کلیم شدہ اخراجات کا سوال تھا، لیکن اسے بھی باعث شرم و ندامت سمجھا گیا، یہ ہے جدید دنیا کا وہ مہذب ملک جہاں اصلاح احوال کی سنجیدہ کوششیں کی جاتی ہیں، جہاں قیادت ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی قانون اور چور راستوں کا سہارا لینے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ اخلاقی ذمہ داری کو افضل سمجھتے ہوئے اس کے سامنے سرتسلیم خم کر د یتی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کسی مہذب ملک کی قومی زندگی میں وقوع پزیز ہونے والے حالات اور ایسے ہی واقعات جہاں تاریخ توڑتے ہیں وہیں وہ نئی تاریخ رقم کرتے اور ایک روشن مستقبل کی بنیاد بھی رکھتے ہیں، دنیا میں قوموں کی آبرو دستور کی پاسداری سے ہوتی ہے اور ریاستوں کی قوت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں، جب آئینی جمہوریت کا شیرازہ بکھر جائے اور نظام مملکت کسی شخص کی افتاد طبع اور خواہش نفس کا غلام بن جائے تو نہ ملک آبرو مند ہوتے اور نہ ہی قومیں دنیا میں سربلند ہوتی ہیں۔

آج برطانیہ سمیت دنیا کی بہت سے ممالک یہ راز جان چکے ہیں کہ حکومتیں عدل و انصاف اور عوامی تائید و حمایت کے بغیر نہ تو کامیاب ہوسکتی ہیں اور نہ ہی قائم رہ سکتی ہیں، لیکن افسوس ہم اسلامی تعلیمات، ثقافت اور روایات کے امین ان سنہری اصولوں سے کوسوں دور ہیں، ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا، اخلاقی قدریں کیا ہوتی ہیں، مذہبی اقدار کیا ہیں، آئین قانون اور منصب کے تقاضے کیا کہتے ہیں، ہمارے ارباب اقتدار کا اس سے کوئی سروکار نہیں، ہمارا تو حال یہ ہے، این آر او کے تحت فائدہ اٹھانے والے 8041 افراد جن میں سیاستدانوں، اعلیٰ سول و فوجی حکام اور حکمران جماعت کے علاوہ اس کے اتحادیوں سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں، ایک سعید مہدی کے سوا کوئی دوسرا کوئی فرد ہی نہیں ہے، جس نے اپنے ضمیر کے بوجھ یا اپنی مذہبی، اخلاقی اور آئینی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پسند کیا ہو۔

یہاں تو حال یہ ہے کہ ہمارے وزراء عدالتوں میں اپنے اوپر لگے ہوئے الزامات کا سامنا کرنے کے بجائے اپنے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر کمال ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ” ہم پر الزامات ہی تو ہیں، کونسا ثابت ہو گئے، استعفے نہیں دے سکتے، وغیرہ غیرہ“ جبکہ دوسری طرف صدر مملکت کی ذات کو آئینی تحفظ حاصل ہے، لیکن صدر کی ذات کو یہ تحفظ اور حکومتی ارکان کا انکار بے معنی اور انہیں اس وقت تک الزامات سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا، جب تک کہ وہ اپنے آپ کو احتساب کیلئے کسی عدالت کے روبرو پیش نہ کریں، کوئی لاکھ کہتا رہے کہ اس پر عائد الزامات بدنیتی پر مبنی تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کی رائے اور تاثر اس سے مختلف ہے، این آر او زدہ افراد اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں کہ وہ عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں، وہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کررہے ہیں کہ حکمرانوں کی اصل طاقت ملک کے عام شہری اورعوام ہوتے ہیں، اگر خلق خدا حکومت اور اپنے حکمرانوں سے مطمئین ہے تو وہ حکومت مضبوط بھی ہے اور کامیاب بھی، لیکن اگر عام شہری اور ملک کے عوام حکمرانوں سے مطمئین نہیں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے اپنی آئینی مدت پوری ہونے کی ضمانت نہیں دے سکتی۔

دنیا میں وہی حکومتیں کامیاب اور اپنی مدت پوری کرتی ہیں، جسے عوام پسند کرتے ہیں اور کامیاب قرار دیتے ہیں، عوامی تائید و حمایت سے محروم، ذاتی اغراض و مقاصد اور شخصی تحفظ اور مفاد پر مبنی حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتیں، ارسطو نے سکندر اعظم سے کہا تھا”بادشاہ کے سارے وزیر جھوٹ بول سکتے ہیں، بادشاہ کے سارے مشیر اور خادم بھی جھوٹے ہوسکتے ہیں، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب بادشاہ خود اپنے ساتھ جھوٹ بولنے لگتا ہے، لیکن عوام کبھی جھوٹ نہیں بولتے، وہ بادشاہ کے ہر اچھے اقدام کی تعریف اور اس کی غلطی پر افسوس کرتے ہیں۔“آج پاکستان کے عوام جو کچھ کہہ رہے، وہ نوشتہ دیوار ہے، اگر ہمارے حکمران اب بھی نہ سنبھلے تو عوام کے فیصلے کا وقت، وقت سے پہلے آسکتا ہے، موجودہ حکومت کی بقاء، قیام اور مضبوطی کیلئے عوامی اعتماد اور بھروسے کی ضرورت ہے، جو معاشرے میں انصاف کو یقینی بنانے، کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی کے انسداد اور اس کے مرتکب ہر فرد کو قانون کی گرفت میں لانے اور بے لاگ احتساب کے ایک ایسے آزاد، خود مختار اور شفاف ادارے کے قیام کا متقاضی ہے جو بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے حکومتی عہدیدار، بااثر افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہو اور جس کی کریڈیبلیٹی عوام کے نزدیک مشکوک نہ ہو۔

حضرت عمر بن العزیز سے ایک علاقے کے حاکم نے اپنے شہر کی ویرانی کی شکایت کی اور امیرالمومنین سے اس شہر کو آباد کرنے کیلئے مالی امداد کیلئے لکھا، عمر بن عبدالعزیز نے حاکم کو جواب میں لکھا ”جب تم میرا خط پڑھو تو اپنے شہر کو عدل و انصاف کے ذریعے سے محفوظ کردو اور شہر کے راستوں سے ظلم و زیادتی دور کردو، کیونکہ ظلم و زیادتی اور بے انصافی ہی شہر کی ویرانی کا اصل سبب ہے۔“ درست یہی ہے کہ جس طرح ”ملک لشکر کے بغیر، لشکر مال کے بغیر، مال شہروں کے بغیر، شہر عوام کے بغیر اور عوام انصاف کے بغیر نہیں ۔“بالکل اسی طرح جوابدہی اور احتسابی عمل سے مبرا کوئی حکومتی رکن اور حاکم نہیں ہوسکتا۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 320654 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More