سو فیصد ناقابل اصلاح

سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ہر چوک سے کچھ آگے ٹریفک پولیس کے کچھ لوگ نظر آتے ہیں۔ چوک کی بجائے وہاں ان کی موجودگی بڑی عجیب ہے۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں ٹریفک کے لوگ چوک میں کھڑے ہو کر ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں۔ لوگوں کو ٹریفک کے اصولوں سے روشناس کراتے ہیں جہاں تک ممکن ہو ان کی مدد کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر چالان کی بجائے وارننگ دیتے ہیں۔ اصلاح ان کا مقصد ہوتا ہے۔
ہمارے ٹریفک کے اہلکار چوک سے پرے شکاری کے انداز میں کھڑے ہوتے ہیں جہاں کسی نے غلطی کی، یکدم جھپٹتے ہیں۔ انہیں ٹریفک کنٹرول کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لوگوں کو ٹریفک کے اصولوں سے روشناس کرانا انہیں پسند نہیں۔ لوگوں کی مدد کرنا وہ سمجھتے ہیں کہ گھوڑے کے گھاس سے دوستی کرنے کے مترادف ہے۔ پیار، محبت اور اخلاق سے لوگوں کو شرمندہ کر کے انہیں راہ راست پر لانے کو وہ جائز نہیں سمجھتے کیونکہ شرمندگی ان کی لغت میں نہیں۔ نہ وہ خود شرمندہ ہوتے ہیں نہ دوسروں کو کرتے ہیں۔ آدھی رات کو جب سڑک پر ٹریفک نہیں ہوتی اور شاید اشارے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی یہ اشارہ چلا کر دور بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی نے اشارہ کراس کیا اور بس قابو آ گیا۔ یہ بھاگ کر اسے روک لیتے ہیں۔ بیچارے کیا کریں بہت مجبور ہیں۔ دفتر میں افسر کہتا ہے پانچ سات چالان روزانہ کر کے لاؤ۔ گھر میں بیوی کہتی ہے شاپنگ کے لئے کچھ پانچ سات بڑے سے نوٹ یعنی سکہ رائج الوقت لے کر آؤ۔ اس لئے لوگوں کو پکڑتے ہیں اور یا تو چالان کرتے ہیں کہ صاحب خوش ہو جائے یا مک مکا کرتے ہیں کہ گھر میں بھی خوشی رہے۔
ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو جب میں شکاری کے انداز میں چالان یا مک مکا کی آس میں بیٹھے دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے ایک ساتھی ہاشمی صاحب یاد آتے ہیں۔ ایک عرصہ ہم ایک ہی کالج میں اکٹھے رہے۔ اتفاق کی بات ہاشمی صاحب کا مضمون اس کالج میں پڑھایا نہیں جاتا تھا۔ وہ دس گیارہ بجے ٹہلتے ہوئے آتے۔ آدھ گھنٹہ دوستوں سے گپ شپ لگاتے اور واپس چلے جاتے۔ یہ ان کا مستقل معمول تھا۔ پتہ نہیں کیوں پرنسپل کو خیال آیا کہ ایک فارغ آدمی کو کسی کام پر لگایا جائے۔ ہاشمی صاحب کو بلایا گیا اور انہیں کچھ دیگر فرائض تفویض کیے گئے۔ اب ہاشمی صاحب کو صبح نو بجے کالج آنا تھا جو ان کے معمول سے بہت ہٹ کر تھا۔ ہاشمی صاحب نے پرنسپل کے حکم کی کچھ زیادہ پرواہ نہ کی اور حسب معمول گیارہ بجے ہی تشریف لاتے رہے۔

پرنسپل صاحب نے دو تین دفعہ وارننگ بھی دی مگر لا حاصل۔ ہاشمی صاحب کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑا۔ ایک دن پرنسپل صاحب ناراض ہو گئے اور ہاشمی صاحب کو بہت سنائیں۔ ہاشمی صاحب پہلے چپ چاپ سنتے رہے اور یکدم رونے لگے اور کہا گھر میں بیوی جھڑکتی ہے ہے کہ اس کے کہنے کے مطابق کام نہیں کرتا۔ دفتر میں آپ جھڑکتے ہیں کہ آپ کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرتا۔ بس اپنی تو قسمت ہی خراب ہے۔
ٹریفک پولیس والے مگر اس معاملے میں خوش قسمت ہیں کہ قسمت خراب نہیں بلکہ بہت اچھی ہے۔ روز چالانوں کا ایک بنڈل پیش کر کے صاحب کو خوش کرتے ہیں اور مک مکا سے گھر والوں کے چہروں پر بھی رونق رہتی ہے لیکن یہ مک مکا سسٹم میں بہت معمولی سی رقم ہے جس پر ٹریفک والے قناعت کرتے ہیں۔ اگر کبھی آپ کو دوسری پولیس سے پالا پڑے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر نظام کو تبدیل کرنا ہے تو اس ساری پولیس کو گھر بٹھا ناا پڑے گا کیونکہ اس میں وہ بات ہی نہیں کہ جس میں اصلاح اور بھلائی کا عنصر شامل ہو۔ یہ سراپا کرپٹ ہیں اور کرپشن شاید ان کے خون میں رچ بس چکی ہے۔

کہتے ہیں کہ جیل میں ایک شخص فوت ہو گیا۔ متعلقہ تھانے والوں کو کہ جس علاقے میں مرنے والے کی رہائش تھی، اطلاع دی گئی کہ اس کی نعش اس کے گھر والوں تک پہنچا دی جائے۔ تھانے دار نے ایک سپاہی کو بلایا اور کہا کہ جاؤ جیل سے اس کی لاش وصول کرو اور اس کے گھر پہنچاؤ۔ آتے وقت ان سے خرچہ وغیرہ ضرور لے کر آنا ہے۔ سپاہی پریشان ہو گیا۔ سر لاش دیتے وقت خرچہ کیسے ممکن ہے؟ تھانیدار نے پوچھا کب سے پولیس میں ہو؟ سپاہی نے کہا پچھلے ایک ہفتے سے۔ تھانیدار ہنسا۔ اسی لئے اتنے احمق ہو۔ کسی پرانے آدمی کو بلاؤ۔ تھوڑی دیر میں ایک پرانا سپاہی حاضر تھا۔ تھانیدار نے اسے کہا کہ سرکاری گاڑی لے جاؤ۔ لاش کو گھر پہنچاؤ ان سے خرچہ بھی لاؤ اور اس نئے بھرتی ہونے والے احمق کو ساتھ لے کر جاؤ۔ یہ بھی تھانے اور پولیس کے آداب سیکھ جائے ابھی تو اسے کچھ پتہ نہیں۔

دونوں سپاہی جیل پہنچے۔ جیل سے لاش وصول کی۔ گاڑی میں ڈالی اور اس کے گھر پہنچ گئے۔ لاش کا سن کر سبھی قریبی عزیز دھاڑیں مارتے روتے پیٹتے گاڑی کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ تجربہ کار سپاہی لاش سے آگے گاڑی میں بیٹھ گیا تاکہ کوئی لاش نہ نکال سکے۔ رشتہ داروں نے لاش نکالنے کا کہا تو پوچھنے لگا آپ میں سے اس کا قریبی عزیز کون ہے؟ ہجوم میں سے فوراً آوازیں آئیں میں اس کا بھائی ہوں، میں اس کی بہن ہوں، میں اس کا چچا ہوں میں اس کا بھتیجا ہوں۔ سپاہی نے انہیں چپ کرایا اور کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو مرنے والے سے بہت پیار تھا۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں۔ سپاہی پھر بولا۔ مرنے والے کے قید کے ابھی چھ ماہ باقی تھے۔ آپ میں جسے سب سے زیادہ مرحوم سے پیار ہے وہ چھ ماہ کی بقایا قید کاٹنے کے لئے میرے ساتھ جائے گا اور لاش آپ کو مل جائے گی۔ اگلے دو منٹ میں گاڑی کے اردگرد پھیلا ہوا پیار سمٹنے لگا۔ لو گ آہستہ آہستہ وہاں سے کھسک گئے۔

کچھ سیانے لوگ اس موقعے پر آگے بڑھے اور سپاہی سے پوچھا کہ جناب اس مصیبت کا کوئی دوسرا بھی حل ہے؟ جواب ملا۔ بہت ہیں مگر یہ تو آپ کو سوچنا ہے۔سوچ بچار کے بعد تھوڑی دیر میں حل سپاہی کی جیب میں تھا اور لاش گھر والوں کے پاس۔ کچھ لوگوں کو شاید یہ لطیفہ لگے مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری پولیس کا یہی مزاج ہے۔ یہی سفاکی ان کے رگ و پے میں موجود ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہماری پولیس ناقابل اصلاح ہے۔ سو فیصد ناقابل اصلاح۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444290 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More