اردوکی بے چارگی اوراس کی چارہ گری کی تدبیریں

اردوزبان خاص قوم کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی گنگاجمنی تہذیب کی علامت رہی ہے۔اس کی بقاء اورزندگی کاایک رازیہ بھی ہے کہ یہ تحریکِ آزادی ہندکی زبان رہی ہے اوراس تحریک کے روح رواں بشمول مہاتماگاندھی اورپنڈت جواہرلعل نہرو کی زبان یہی تھی۔اس زمانہ میں اردوکارواج کس قدرتھااس کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم،پنڈت نہروکی شادی کے کارڈ، اردواورفارسی زبان میں شائع ہوئے تھے اورایک موقعہ پرپنڈت نہرونے تو چیلنج قبول کرتے ہوئے کہاتھا’’میری ماں کی زبان اردوہے‘‘۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ اردو، بلاتفریقِ مذہب ،ملک کی زبان رہی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ آزادی کے وقت کے سیاسی حالات،تقسیم پاکستان اورپاکستان میں اردوکو قومی زبان کادرجہ ملنے نے ،اردوکوہندوستان کی قومی زبان ہونے کے لئے اس کے حق میں سازگارماحول کو ناموافق بنادیااوراردوملک کی قومی زبان نہیں قراردی جاسکی۔لیکن اتناتوطے ہے کہ یہ آج بھی ملک کی ایک خاص تہذیبی شناخت اورقومی ورثہ کہلانے کی مستحق ہے۔لیکن ستم یہ ہواکہ آزادی کے بعدزبانوں کوفرقہ ورانہ خطوط پرتقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اوریہ باورکرانے کی سعی ہوئی کہ اردو، کسی خاص فرقہ کی زبان ہے۔وہ ذہنیت ،جوہرچیزکوفرقہ وارانہ نظریہ سے دیکھنے کی عادی ہے ،اس نے اردوبولنے والوں کی بڑی تعدادوالی قوم کے ساتھ ساتھ اس زبان کوبھی مشق ستم بنایا،اقلیتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی نشیب وفرازدیکھتی رہی اورتنگ نظری وتعصب کاشکارہوتی رہی۔

آزادی کے بعداس زبان پر جوظلم کئے گئے ،ان کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔اس کے باوجودیہ آج بھی کسی نہ کسی حدتک زندہ ہے۔اس کی زندگی کے حوالہ سے یہ حقیقت،مسلم ہے کہ اس میں مدارس اسلامیہ نے اہم کرداراداکیاہے اوربحیثیت زبان اس کوزندہ رکھنے میں مدارس اسلامیہ نے اہم خدمات انجام دی ہیں۔
مدارس کانظام تعلیم اوران کاوسیلہ تعلیم‘،یعنی مدارس کی تعلیمی اورتدریسی زبان اردوہونے کی وجہ سے ایک بڑامذہبی سرمایہ بھی اس زبان میں آگیاہے۔اورطلبہ واساتذہ کی تدریسی اورتعلیمی زبان ہونے کی بنیادپر اردو،مدارس کے قلعہ کی چہاردیواری میں محفوظ ہے۔اس لئے یہ کہنادرست ہے کہ مدارس اسلامیہ نے اس کوزندہ رکھاہواہے ۔

نیزمشاعروں اوریونیورسیٹیوں میں اردکی ادبی نشستیں بھی اس کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔ان کے علاوہ اردواخبارات ورسائل نے بھی عوام کواردوسے قریب کیاہے لیکن حالیہ دنوں میں عمومااردوپرنٹ میڈیا میں اردوکی تنزلی اوراس کے معیارمیں گرواٹ کوئی غیربدیہی امرنہیں ہے۔ صحافت کے معیارواعتبارکی بات توچھوڑہی دیجئے ، ’’زردصحافت ‘‘کی عملی تصویر تو(بعض اخبارات کوچھوڑکر )یہاں ملے گی ہی،لیکن زبان واسلوب کے لحاظ سے بھی اردوصحافت کامعیارروبہ زوال ہے۔ اوریہاں یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ اردوکی روٹی کھانے والوں بلکہ اردوکا’’کیک توڑنے والوں‘‘کے ہاتھوں ہی اردوکااستحصال ہورہاہے۔لہٰذااس پریہی ایک بڑااحسان ہوگاکہ اردوکے حقیقی خیرخواہوں اورنام نہادبہی خواہوں کے درمیان تمیزکی جائے۔ ’اردووالے‘کون کہلائیں گے؟۔اس کی تعیین ہو،اردوکے حقیقی خادموں،بہی خواہوں اورمحض’’ کیک توڑنے والوں ‘‘کے درمیان واضح خط فاصل کھینچناضروری ہے۔ان کی تمیزکے بغیرکوئی پالیسی کارگرنہیں ہوسکتی۔ اس لئے اولااس نتیجہ پرپہونچنے کی ضرورت ہے۔

اردوکے فروغ کے حوالہ سے ایک بات عا م طورپرکہی جاتی ہے کہ اسے روزگارسے جوڑاجائے۔یہ بات بہت اہم ہے کہ زبان کاارتقاء وعروج کاسلسلہ بہت کچھ روزگارسے جڑاہے بلکہ جس فن کوبھی روزگارسے جوڑاجائے وہ،عمومی دلچسپی کاذریعہ ہوگا۔اورروزگارسے جوڑنے کایہ مطلب ہے کہ اردووالوں کوروزگاردیاجائے۔لہٰذااردومیں روزگارکے مواقع فراہم کرنے کامطالبہ ازحدضروری ہے۔ تاہم جومواقع پہلے سے ہیں،ان کاہمیں کتنافائدہ اٹھانے کاموقعہ مل رہاہے ،اس کابھی اندازہ لگایاجاناکوئی مشکل نہیں ہے۔ تعلیمی میدان میں اسکول کی سطح پراردواساتذ ہ کی کمی یانااہل اساتذہ کی بہتات نے طلبہ میں اردوکی دلچسپی پیداکرنے کی بجائے ،اسے کھلونا بنادیاہے۔پھرانگلش میڈیم اسکولوں کی کثرت اوراس میں پڑھائے جانے کے شوق نے نئی نسل کے لئے اردوسے بے زاری اوربے اعتنائی کی راہ کھول د ی ہے۔اوراسے شوقیہ توکیابطورضرورت بھی سیکھنے کارواج خودمسلمانوں میں نہیں کے برابررہ گیاہے۔

اس لئے اردوکوروزگارسے جوڑنے کی سخت ضرورت ہے ۔اس کے لئے چنداہم اقدامات ضروری ہیں۔مولاناآزادنیشنل یونیورسیٹی ایک کامیاب تجربہ ہے جس نے لسانی سطح پراہم خدمات انجام دی ہیں۔لہٰذااس طرزپراترپردیش اوربہاربلکہ دوسری ریاستوں میں نیشنل اردویونیورسیٹی کاقیام ہوتوکافی فائدہ ہوسکتاہے۔
اس کے علاوہ مدارس کواین آئی اوایس سے جوڑاجائے،جس سے مدارس کے طلبہ ،یونیورسیٹیوں سے جڑکراردوکی زیادہ بہترطریقہ سے خدمت کرسکیں اوراردوکے فروغ کے اس اہم ستون کوروزگارسے جوڑکریونیورسیٹیوں اورمین اسٹریم سے جوڑاجاسکے۔حالیہ برسوں میں این آئی اوایس سے مدارس کوجوڑنے کی کوشش توکی گئی لیکن این آئی اوایس کے ذمہ داران اس سلسلہ میں ابھی تک سنجیدہ نہیں۔کوشش یہ تھی کہ مدارس کے طلبہ اپنے دوران تعلیم،10+2تک کی مساوی ڈگری حاصل کرسکیں تاکہ یونیورسیٹیوں کے دروازے ان کے لئے کھل سکیں،اس کے لئے رقم بھی مختص کی گئی،اردومیں مختلف سبجکٹس کی کتابیں بھی مہیاکرائی گئیں،اس کے علاوہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈکے وسطانیہ کوآٹھویں اورفوقانیہ کودسویں کے مساوی قراردے کراین آئی اوایس کے دروازے ملحقہ مدارس کے طلبہ کے لئے کھولے گئے۔ا س کے ساتھ یہ بھی ہوناچاہئے تھاکہ درس نظامیہ اورغیرملحقہ مدارس کے علیا درجات کوبھی اسی طرزپرآٹھویں یادسویں کے مساوی قراردیاجاتا ۔ابھی بھی اگراس جانب توجہ دی گئی تویہ بڑااہم قدم ثابت ہوگا۔کثیررقم کی منظوری اورمدارس کواس سے جوڑنے کے منصوبہ کی منظور ی کے باوجود،نہ توابھی تک اس اسکیم کاکچھ پتہ چل پایاہے اورنہ یہ معلوم ہوسکاہے کہ اس رقم کا کیاہوا؟۔کیونکہ اس کورس سے جڑنے والے طلبہ کے داخلہ اورکتابوں کے لئے ہی یہ ساری رقم مختص کی گئی تھی لیکن حیرت اس بات پرہے کہ غیرملحقہ مدارس کی سندابھی تک وہاں معتبرنہیں ہے ،صرف مدرسہ ایجوکیشن بورڈسے متعلق طلبہ ہی اس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔(اورمزے کی بات تویہ ہے کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈکی سندکوگذشتہ سال ہی منظوری ملی ہے ،ورنہ کسی بھی صورت میں،کسی بھی مدرسہ،یعنی ملحقہ یاغیرملحقہ مدارس کے طلبہ اس میں داخلہ نہیں لے سکتے تھے۔اس طرح صرف اسکولوں کے طلبہ کے لئے اس کادروازہ کھلاتھا )غیرملحقہ مدارس میں زیرتعلیم یاان سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود،مدارس کے طلبہ یافارغین ،مدرسہ ایجوکیشن بورڈکی ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے این آئی اوایس میں داخلہ نہیں لے سکتے ۔چنانچہ راقم الحروف کوبھی اس کاتلخ تجربہ رہاہے ۔حالانکہ،مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کے لئے اس کی گنجائش تھی کہ ان کے مدارس کے مختلف درجات کو8یا10کے مساوی قراردیاجاتا۔اس کے علاوہ فیس کے نام پران سے تقریباڈیڑھ ،دوہزارکی رقم بھی لی جاتی ہے۔ اس لئے یہ سوال بہرحال اہم ضرورہے کہ ان پیسوں کاآخرکیاہواجوان کی فیس کے نام پراورکتابوں کے نام پرہی این آئی اوایس کے لئے مختص کئے گئے تھے۔ اس لئے این آئی اوایس کواس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

نیزاردوکے فروغ کے لئے سنٹرل اسکول،نوودے ودھیالیہ میں بھی غیرمشروط طورپراردوپڑھانے کاپختہ نظم کیاجائے،اردوبولے اورپڑھے جانے والے صوبوں میں ہائی اسکول کی سطح تک ہردرجہ میں اردوکی تدریس کامعقول انتظام ریاستی حکومتوں کوکرناچاہئے۔

بڑی اورچھوٹی عمروالوں کو اردوزبان پڑھانے کے لئے کتابیں اورپڑھانے کے طریقے ،بارہاتجربہ میں آچکے ہیں۔اترپردیش حکومت نے بھی برسوں پہلے اس کاکامیاب تجربہ کیاتھا جس سے اردوبولنے اوراس سے دلچسپی لینے والوں کی تعددادبڑھی تھی،اس کامیاب تجربہ کومرکزی حکومت ،سرکاری اسکولوں اوراین جی اوزکے ذریعہ پھیلاسکتی ہے۔

نیشنل کونسل فارپرموشن آف اردولنگویج(این سی پی اوایل)نے گذشتہ چندبرسوں میں کامیاب اورنتیجہ خیزتجربہ کرکے ملک کے اردوداں طبقہ کوچونکادیاہے۔این سی پی اوایل نے اردواورکمپیوٹرکے رشتہ کومستحکم کرنے کی جوکامیاب کوشش کی ہے وہ لائق تحسین ہے۔اس رشتہ کومزیدمستحکم اورمضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔اس سے اردومیں روزگارکے مواقع بڑھیں گے۔نیشنل کونسل کے کاموں کوپھیلاکراس کومزیدمعیاری بنایاجاسکتاہے ۔اسی طرزپراقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لئے نیشنل کونسل کاقیام اگرہوجائے تویہ مزیدمفیدہوگا۔اورمرکزکے تحت ایک اچھاتعلیمی نظام قائم کیاجاسکتاہے۔اس کے لئے مدارس ،این جی اوزکی بھی مددلی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ ہائی اسکول اور10+2تک معیاری تعلیم کانظم موجودہ نیشنل کونسل کے ذریعہ بھی کیاجاسکتاہے۔اسی طرح ہرعلاقہ میں اقلیتی کوچنگ سنٹرزقائم ہوجائیں تواچھے نتائج کی امیدہے۔

ان سب کے علاوہ اردوصحافت ، اس کے فروغ میں اہم کرداراداکرسکتی ہے۔’ہمدرد‘،’الہلال‘،’البلاغ‘ نے اسلوب بیان کے ذریعہ اردوکی دل کشی کاجوراگ چھیڑاتھا،اسے پھرزندہ کرنے کی ذمہ داری صحافتی برادری کی ہے۔اس لئے یہ کہاجاسکتاہے کہ معیاری اخبارات کے ذریعہ اردوکافروغ اہم قدم ثابت ہوگا۔اس کی ذمہ داری صحافتی برادری کوبھی لینی ہوگی اورحکومت کوبھی زیادہ سے زیادہ مہنگے اشتہارات دے کریاکسی اور ذریعہ سے لسانی سطح پراچھی کارکردگی دکھانے والے اردواخبارات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 33383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.